Uncategorized

Mohabbat Fateh Tehri by Ayesha Asghar Episode 10


گاڑی تیز رفتاری سے سنسان سڑک پر ہوا کے دوش پر تیر رہی تھی۔سورج آسمان کے بیچوں بیچ کھڑا تھا۔کراچی کی دوپہر اپنی تپش میں بے مثال تھی۔وہی سرخ اینٹوں سے بنی عمارتیں،دھوپ سے جھلستے سڑکیں،سمندر کی نم آلود ہوا بھی گرمی کے آگے بے بس معلوم ہوتی تھی۔
فاز عالم کی گاڑی ایم اے جناح روڈ پر روانہ تھی۔سڑک پر دوڑتی گاڑیوں کے ٹائروں سے اٹھتی ہوئی گرمی صاف محسوس ہو رہی تھی۔اس نے ہاتھ سے شرٹ کی آستین چڑھائی،اور ایک ہاتھ سے اسٹیرنگ مضبوطی سے تھام کر دوسرے ہاتھ سے ارمان کو کال ملائی۔گاڑی کے اندر ایئرکنڈیشنڈ کی خنکی تھی۔فاز عالم کی نظریں سڑک پر جمی تھیں، لیکن اس کا ذہن اس وقت سڑک کے ساتھ ساتھ ایک ضدی، نرگسیت میں ڈوبی اور بے حد پیاری عورت کی شبیہہ بھی تراش رہا تھا۔
”ارمان، فاطمہ کو سوات لے جاؤ“۔۔
”تمہاری فاطمہ سے بات ہوئی؟“۔دوسری طرف چند لمحوں کی خاموشی کے بعد ارمان کی آواز ابھری۔ارمان ساری باتوں سے باخبر لگتا تھا۔
”نہیں“۔فاز عالم نے گہری سانس لی۔
”تم فاطمہ کمال کو اچھی طرح جانتے ہو،جتنی سمجھدار وہ ہیں،اب اس سے زیادہ ضدی بھی ہوگئی ہیں۔میں کہوں گا کہ سوات چلیں،اور وہ چلی جائیں گی؟ خواب میں بھی ممکن نہیں“۔۔ارمان کی بات بھی سو فیصد درست تھی۔
”تم ایک آرمی آفیسر ہو،ارمان۔بھولو مت“۔اس کی سنجیدگی میں ڈوبی آواز پہ ارمان نے منہ بنایا۔
”میری ٹریننگ میں کہیں بھی یہ نہیں سکھایا گیا کہ ایک ضدی خاتون کو کس طرح منانا ہے۔ دشمن کی صفوں میں گھس کر معلومات نکالنا آسان ہے،مگر فاطمہ جیسی خاتون سے بحث؟کبھی نہیں“۔۔ارمان اپنے دکھڑے رونے لگا۔
”ارمان، تم میری بیوی کے بارے میں بات کر رہے ہو“۔لب بھینچ کر موبائل کو دیکھا۔آواز میں تنبیہہ تھی۔۔
”اوہ ہاں۔۔میں تو بھول ہی گیا تھا کہ فاطمہ کمال، میجر فاز عالم کی بیوی ہیں۔جب وہ تم سے قابو میں نہیں آئیں،تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں؟“۔ارمان کو جیسے مزید چھیڑنے میں مزہ آ رہا تھا، وہ شوخی سے ہنسا۔
”تمہاری ساری ہنسی ہیڈکوارٹر میں نکالوں گا۔ فاطمہ کو سوات پہنچا کر فوراً رپورٹ کرو“۔سختی سے اسے ڈپٹ کر اس نے کال کاٹ دی اور ایک پل کے لیے سر سیٹ سے ٹکایا۔
گاڑی کے شیشے سے باہر سورج کی کرنیں اب سنہری گلابی روشنی کے ساتھ ہر شے کو نکھار رہی تھیں۔صبح کے ان ہلکے رنگوں میں بھی ایک ادھورا سا منظر جھلک رہا تھا۔فاطمہ کی آنکھوں میں ضد اور اس کے ہونٹوں پر آتی جاتی خفگی کی لہر،جو ہر بار اس کے ضبط کا امتحان لیتی تھی۔
“My stubborn lady”.
وہ زیرِ لب مسکرا دیا۔کل دوپہر سے جو وہ گھر سے نکلا تھا سب تک دوبارہ گیا نہیں تھا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ڈرائنگ روم میں خاموشی تھی۔ارمان، جو ہمیشہ بے فکری کی چادر اوڑھے رکھتا تھا،آج غیر محسوس طریقے سے اضطراب کی گرفت میں تھا۔سامنے رکھی کافی کا کپ بھی ٹھنڈا ہو چکا تھا۔
دروازہ دھیرے سے کھلا اور فاطمہ اندر داخل ہوئی۔اس کی آنکھیں شب بیداری کی گواہ تھیں۔پپوٹے سوجے ہوئے،بال منتشر،چہرے پر الجھن اور خفگی کے ملے جلے رنگ۔وہ ارمان کے مقابل آ کر ٹھہر گئی۔
”ارمان، تم یہاں کیوں آئے ہو؟“۔اس کی آواز میں بکھری ہوئی رتجگے کی خفگی تھی۔
”فاطمہ،تیار ہو جائیں۔دو گھنٹے بعد کی فلائٹ ہے“۔ارمان نے ایک لمحے کو سر اٹھا کر اسے دیکھا،اندر ہی اندر وہ فاز کو کوستے ہوئے متوازن لہجے میں بتایا۔
”فلائٹ؟ کہاں کی؟“۔فاطمہ نے الجھن سے پلکیں جھپکائیں۔
”سوات کی۔فاز نے کہا ہے کہ آپ کو چھوڑ دوں“۔اس نے اس کے تاثرات دیکھتے ہوئے آہستگی سے مزید بتایا۔تففف ہے ارمان ایک فوجی ہوکر سامنے بیٹھی لڑکی سے ڈر رہے ہو۔
فاطمہ چند لمحے خاموشی سے اسے دیکھتی رہی۔
”سوات؟ تم چھوڑو گے؟“۔اس کا دماغ جیسے اس بات کو پروسس نہیں کرپایا۔اگلے ہی لمحے وہ کھڑی ہوئی تھی۔۔”وہ خود کہاں ہے؟ اس سے کہو مجھ سے آکر بات کرے۔ میں اس کی غلام نہیں ہوں۔اس نے کہ دیا اور میں چلی گئی“۔لہجے میں غصہ لیے وہ ارمان کو خونخوار نگاہوں سے دیکھتی ہوئی بولی۔مگر اندر کہیں سینے میں دھڑکتا دل بےچین تھا۔
”فاطمہ، یہ سب وہ آپ کی حفاظت کے لیے کر رہا ہے“۔ارمان نے گہری سانس لی،تحمل سے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
”بھاڑ میں گئی میری حفاظت۔۔اس سے کہو،اگر وہ خود لے کر جائے گا، تو میں جاؤں گی، ورنہ یہاں سے ایک انچ نہیں ہلوں گی“۔اس کی آواز میں ضد تھی،جو ہمیشہ سے فاز عالم کے ضبط کو آزما چکی تھی۔سارا غصہ جھنجھلاہٹ اسی بات کی تھی کہ وہ اس ناراض تھا۔ایک روز گزر چکا تھا وہ اس سے ملا نہیں۔اب ملے بغیر اسے سوات بھیج رہا تھا۔وہ اس معافی مانگنا چاہتی تھی۔
”لیکن…“۔ارمان نے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے۔
”میں تمہارا کوئی لحاظ نہیں کروں گی ارمان اب کچھ مت بولنا“۔مگر فوراً ہی فاطمہ نے ہاتھ اٹھا کر اسے خاموش کروا دیا۔
”ابھی کون سا لحاظ کر رہی ہیں“۔دل ہی دل میں بڑبڑاتے ہوئے اس نے موبائل نکال کر فاز کو کال ملائی۔فاز کو مختصراً بتاکر فاطمہ کو موبائل تھما دیا۔
دوسری طرف سے وہی مانوس،گہری اور دھیمی آواز ابھری، جس میں ہمیشہ ایک عجیب سا سکون چھپا ہوتا تھا۔
”فاطمہ، آپ ہمیشہ سے ضدی رہی ہیں،ہر معاملے میں۔چاہے پھر نتیجہ کچھ بھی ہو۔میں نے کبھی آپ سے کچھ نہیں کہا، مگر اس بار،پلیز اپنی ضد اور اپنی انا کو ایک طرف رکھ دیں اور ارمان کے ساتھ سوات چلی جائیں۔میری اماں کے پاس“۔اس کی آواز میں وہی پرانی اپنائیت تھی، وہی نرمی، جو ہمیشہ فاطمہ کے دل کی زمین کو گیلا کر دیتی تھی۔فاطمہ چلتے ہوئے تھوڑے فاصلے پر آگئی۔
”لیکن میں…“۔اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ کہ اٹھا۔
”ایک اور ریکوسٹ ہے۔ارمان کو ٹف ٹائم نہیں دیجیے گا۔وہ آپ کو سوات چھوڑنے جارہا ہے اسے واپس آکر ہیڈکوارٹر میں فوراً رپورٹ بھی کرنا ہے“۔۔
فاطمہ نے بے اختیار پلکیں جھپکائیں،اس کی آنکھوں میں نمی چمکنے لگی۔یہ شخص ہمیشہ دوسروں کا خیال کیوں رکھتا تھا؟خود کے لیے کبھی کچھ کیوں نہیں چاہتا تھا؟
”لیکن تم میری…“۔اس نے پھر کچھ کہنا چاہا… مگر فاز نے نرمی سے اسے کاٹ دیا۔
”میں آپ سے ناراض نہیں ہوں۔اور اب آپ سے سوات آ کر ملوں گا“۔ایک توقف کے بعد بولا۔”اور اب روئیے گا مت۔خدا حافظ“۔۔فون بند ہو چکا تھا،فاطمہ کی آنکھوں میں رک جانے والے آنسو اب رخساروں پر لڑھک گئے تھے۔ہمیشہ کی طرح،وہ بنا کہے سب کچھ سمجھ گیا تھا۔
”فاطمہ؟“۔ارمان نے اس کی طرف دیکھا،پھر قدرے نرمی سے پکارا۔
فاطمہ نے جلدی سے آنسو صاف کیے۔اسے موبائل پکڑایا۔”میں پیکنگ کر کے آتی ہوں“۔وہ بھاری لہجے میں کہتی ہوئی اندر چلی گئی،اور ارمان نے حیرت سے موبائل کی طرف دیکھا۔
”واہ، لگتا ہے اب اس کی بھی ٹریننگ تم سے لینی پڑے گی فاز عالم “۔ وہ خود سے بولتا ہوا ہنس دیا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کراچی کی چمکتی روشنیوں سے دور، شمال کی وسعتوں میں کہیں،پہاڑوں کے دامن میں سانس لیتی وادی سوات کی جانب سفر جاری تھا۔جہاز کی کھڑکی سے نیچے جھانکنے پر روشنیوں کا سمندر دھیرے دھیرے چھوٹ رہا تھا۔
ہوا میں معلق لمحے،دل کے اندر ایک عجیب خالی پن چھوڑ رہے تھے۔ہوائی جہاز بلندیوں کو چھوتا ہوا کراچی سے اسلام آباد کی فضاؤں میں داخل ہوچکا تھا۔وہاں سے وہ دونوں گاڑی میں سوات جانے کے لیے سوار ہوگئے تھے۔سرسبز وادیاں،بہتے دریا اور پہاڑوں کی قطاریں دھیرے دھیرے قریب آتی جارہی تھیں۔بادلوں کے ٹکرے ان پہاڑوں کو چھو کر آگے بڑھ رہے تھے۔اور سورج کی کرنیں ان کے درمیان سے راستہ بناتی زمین کو سنہری چمک سے نہلا رہی تھیں۔جیسے ہی سوات کی سرزمین کے قریب پہنچی،ایک لطیف مگر یخ بستہ ہوا کا احساس ہوا۔اس دل فریب منظر میں بھی اس کے دل کی اداسی گھل رہی تھی۔وہ اس کے شہر میں آئی تھی….اس کے بغیر!
”فاز اور تمہاری دوستی کیسے ہوئی؟“۔اس کے ساتھ چلتے ہوئے،ہلکی مگر اداس آواز میں سوال کیا۔شام ہوتے ہی قمقمے جگمگا اٹھے تھے اور ہوا میں پہاڑوں کی مخصوص خنکی تھی۔وہ دونوں میں اسٹاپ پر اتر چکے تھے۔اب ایک مقامی ہوٹل کے پاس گھر کا ڈرائیور پہنچنے والا تھا۔
”فاز کا تعلق بھی کراچی سے ہی تھا، لیکن کئی سال پہلے وہ اور اس کی فیملی سوات شفٹ ہوگئے تھے۔“ارمان نے ایک لمحے کو توقف کیا،پھر دھیرے سے مسکراتے ہوئے بولا۔
فاطمہ چونک گئی۔یہ بات اس کے لیے نئی تھی۔فاز نے کبھی اسے نہیں بتایا تھا کہ اس کی جڑیں کراچی میں تھیں۔تو وہ اب بھی بہت سی حقیقتیں اس سے چھپا گیا تھا۔فاطمہ گہری سانس بھر گئی۔
”اس کی فیملی کو میرے بارے میں معلوم ہے؟“۔وہ بظاہر پُراعتماد تھی،لیکن اس وقت،وہ جن حالات میں اپنے سسرال میں قدم رکھنے جا رہی تھی،ایک انجانی سی ہچکچاہٹ اس کے اندر سرسرانے لگی۔اس کے قدموں میں بےاختیار تذبذب کا سایہ لہرایا۔
”وہاں آپ کا حوالہ فاز عالم ہوگا، فاطمہ۔ پریشان نہ ہوں“۔ارمان نے ایک نظر اس پر ڈالی اور ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ نرمی سے بولا۔
گاڑی آچکی تھی۔ڈرائیور کو واپس بھیجتے ہوئے اس نے خود چابی تھام لی اور گاڑی شاہراہ پر دوڑا دی۔سوات کا دلکش موسم انہیں اپنے حصار میں لے چکا تھا۔
سوات کی خوبصورتی،جو دنیا بھر میں مشہور تھی،آج اسے اپنی طرف متوجہ نہیں کر پا رہی تھی۔سبزہ اوڑھے وادیاں، بہتے چشمے،چنار کے درختوں کے جھرمٹ،ہر چیز دلکش تھی،مگر اس کا دل کسی اجڑے باغ کی مانند ویران ہو چکا تھا۔باہر کے مناظر بدل رہے تھے،لیکن اندر کی اداسی جوں کی توں تھی۔
اب موسم حسین بھی ہوں تو
اس کے بغیر حسین نہیں لگتے
اس کے ہونے سے ہیں جیسے
میری زندگی کے موسم سارے
”ارمان“۔اس نے دھیرے سے پکارا۔اس کی آواز نمی میں بھیگی ہوئی تھی۔ارمان نے بیک ویو مرر سے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
عین اسی وقت ارمان کے موبائل کی اسکرین پر روشنی چمکی۔کال آ رہی تھی،فون سائلنٹ پر تھا،اس لیے کوئی آواز نہ گونجی۔اس نے اسکرین پر ابھرتے سبز نشان کو ٹچ کیا۔
”ان سے کہنا مجھ سے ناراض نہ ہوں…اس پوری کائنات میں میرا صرف ان سے ہی تعلق ہے…یہ تعلق بھی نہیں رہا تو فاطمہ کمال جی نہیں سکے گی“۔اس کی آواز لرز گئی۔آنکھوں کی نمی مزید گہری ہوگئی۔وہ رو نہیں رہی تھی لیکن دل کسی بوجھ تلے دب رہا تھا۔اس وقت وہ بےحد جذباتی ہورہی تھی۔کچھ غلطی کا احساس تھا۔کچھ فاز کا ملے بغیر اسے سوات بھیج دینا تھا۔اچانک ہی وہ کمزور پڑنے لگی تھی۔
فون کے اس پار،جیسے ہی یہ الفاظ کسی نے سنے،ایک دم سناٹا چھا گیا۔ارمان نے فون کے دوسرے جانب گہری خاموشی کو محسوس کیا۔شاید وہ بھی سن کر ساکت رہ گیا تھا۔اس کی بات پر اس کا دل ڈوبا تھا۔
ایک پل کو،ایسا محسوس ہوا جیسے وقت تھم گیا ہو۔اس لمحے،فاطمہ کی بھیگی آواز،اس کے دل کی دیواروں سے ٹکرا رہی تھی۔کوئی بےنام سی تڑپ،کوئی ان کہا احساس،رگ رگ میں پھیلنے لگا۔دل میں خواہش جاگی،اِس وقت وہ اُس کے پاس ہوتا اور اسے خود میں سمو لیتا۔
ارمان نے اسکرین پر نظر ڈالی۔دوسری جانب سے کال کاٹ دی گئی تھی۔اس نے ایک لمحے کو فاطمہ کے سوگوار چہرے کی طرف دیکھا،پھر بےاختیار نفی میں سر ہلا دیا۔
”ان دونوں کا کچھ نہیں ہو سکتا“۔ایک افسوس بھری مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر ابھری۔اب ہر کوئی ارمان تھوڑی ہوسکتا ہے،جو سیدھا پروپوز کر کے نکاح کر لے۔
گاڑی خاموشی سے اپنی منزل کی طرف بڑھنے لگی…

گوشہِ دل میں تم ہو
اوسانِ فکر میں تم ہو
محورِ گفتگو تم ہو
مرکزِ یاد تم ہو
میری زیست تم ہو
میری دانست تم ہو
میرا تصور شب تم ہو
میرا اجالا حقیقت تم ہو
ہر حصار میں تم ہو مگر
حصارِ دسترس میں تم نہیں ہو


لوہے کا بھاری دروازہ ہارن کی آواز پر گہرے ارتعاش کے ساتھ کھلا۔اندر داخل ہوتے ہی گاڑی کی رفتار قدرے دھیمی ہو گئی۔ارمان نے مہارت سے گاڑی آگے بڑھائی،اور فاطمہ نے باہر جھانک کر ماحول کو محسوس کرنے کی کوشش کی۔ شام کا جھٹپٹا پھیل چکا تھا،مگر فضا میں گھلتی بارش کی ہلکی بوندیں ماحول کو خوابناک بنا رہی تھیں۔سوات کی یہ سرسبز وادی اپنی تمام تر رعنائی کے ساتھ شام کے سائے میں ڈھل رہی تھی۔
سامنے ایک وسیع صحن تھا،جس کے چاروں طرف چھوٹے پودے اور رنگ برنگے گلابوں کی قطاریں ترتیب سے لگے خواب ناک منظر پیش کررہی تھیں۔شبنمی گھاس اور مٹی کی مہک سانسوں میں گھل رہی تھی۔صحن کے وسط میں ایک خوبصورت سنگِ مرمر کا فوارہ،جس سے پانی کے ہلکے چھینٹے نیچے گررہے تھے،ایک دھیما مگر مسلسل ترنم بکھیر رہا تھا۔
ارمان گاڑی سے اتر کر سامان نکالنے لگا،اور وہ وہیں کھڑی ہو کر نظریں اٹھا کر گھر کو دیکھنے لگی۔یہ ایک قدیم مگر مضبوط عمارت تھی،جو روایتی سواتی طرزِ تعمیر کا نمونہ تھی۔عمارت روایتی پتھروں سے بنی ہوئی تھیں،جن پر قدرتی رنگت کا امتزاج حسن بکھیر رہا تھا۔کھڑکیاں مضبوط لکڑی کی تھیں،جن پر خوبصورت نقش و نگار تراشے گئے تھے۔ہر کھڑکی کے اوپر چھوٹے چھجے بنے ہوئے تھے،جو بارش کے پانی کو اندر آنے سے روکتے تھے۔
”اندر چلیں؟“۔ارمان کی مدھم آواز نے اسے خیالوں سے باہر کھینچ لیا۔
وہ سر ہلاتی ہوئی اس کے ساتھ قدم بڑھانے لگی۔دروازے کی دہلیز پر آ کر ایک لمحے کو جھجھکی،جیسے کوئی ان دیکھی زنجیر اس کے قدموں کو جکڑ رہی ہو،مگر پھر بھاری دل کے ساتھ اندرونی دروازے کی طرف بڑھی۔
اندر داخل ہوتے ہی ایک باوقار خاتون سامنے کھڑی نظر آئیں۔وہ سراپا شفقت نظر آ رہی تھیں،مگر ان کی آنکھوں میں ایک خاص گہرائی تھی۔انہوں نے ایک سادہ مگر نفیس گہرے رنگ کی قمیض پہنی ہوئی تھی،جس کے کناروں پر ہاتھ کی کڑھائی کا باریک اور دلکش کام تھا۔سر پر بڑی اور نفیس چادر تھی،جو روایتی انداز میں لی ہوئی تھی۔
”السلام علیکم! آنٹی،کیسی ہیں؟“۔ارمان نے اپنائیت سے انہیں مخاطب کیا۔
”وعلیکم السلام! الحمدللہ، بچے۔تم بتاؤ؟اور فاز…وہ ٹھیک ہے؟” ان کا لہجہ نرمی سے لبریز تھا۔
”جی جی، وہ بالکل ٹھیک ہے“۔ارمان نے اطمینان دلایا،پھر فاطمہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تعارف کروایا۔”یہ فاطمہ ہیں“۔
خاتون کے ہونٹوں پر ایک والہانہ مسکراہٹ پھیل گئی۔وہ آگے بڑھیں اور شفقت سے فاطمہ کی پیشانی چوم لی۔
”السلام علیکم“۔فاطمہ نے جلدی سے سلام کیا۔اسے اس قدر اپنائیت اور والہانہ پن کی توقع نہیں تھی۔
”وعلیکم السلام! اندر آ کر بیٹھو،سفر سے آئی ہو تھک گئی ہوگی“۔ان کی آنکھوں میں نرمی،محبت اور کئی ان کہے جذبات لرز رہے تھے،مگر وہ خود پر قابو رکھتے ہوئے گویا ہوئیں۔فاطمہ نے آہستگی سے سر ہلایا،۔
”سفر میں کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی؟ارمان آپ کو ٹھیک سے لے آیا نا؟“۔وہ ساتھ چلتے ہوئے نرمی سے پوچھنے لگیں۔
”آنٹی، آپ کی بہو کسی لاپرواہ لڑکے کے ساتھ نہیں،بلکہ کیپٹن ارمان کی معیت میں آئی ہیں“۔ارمان نے شکایتی انداز میں کہا،تو دونوں ہنس پڑیں۔
فاطمہ کی نگاہ صوفے پر بیٹھی بزرگ خاتون پر پڑی،جو خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھیں۔ان کی گہری نظریں جیسے اس کا بغور جائزہ لے رہی تھیں۔وہ فوراً سلام کرنے کے لیے آگے بڑھی،مگر وہ بنا کوئی جواب دیے،محض سر کو ہلکی سی جنبش دے کر اسے سر سے پاؤں تک دیکھ کر نظریں ہٹا چکی تھیں۔ان کے سرد انداز نے فاطمہ کو ایک انجانی بےچینی میں مبتلا کر دیا۔
”یہ میری اماں ہیں“۔میزبان خاتون نے مسکراتے ہوئے تعارف کروایا۔
”فاز اپنی دادی پر گئے ہیں“۔فاطمہ کے ہونٹوں پر بےساختہ مسکراہٹ آئی،مگر اچانک کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ جیسے اس نے کوئی ایسی بات کہہ دی ہو،جو سب کے دل پر گراں گزری ہو۔ارمان کے چہرے پر بھی ایک لمحے کے لیے گہری سنجیدگی ابھر آئی تھی۔وہ ناسمجھی سے ان چہروں کو دیکھنے لگی،مگر کوئی کچھ بولا نہیں۔
”چائے منگواتی ہوں۔ارمان چائے کے ساتھ کیا لو گے بچے؟فاطمہ آپ بتاؤ؟“۔میزبان خاتون نے فوری طور پر بات بدلی اور ملازمہ کو آواز دی۔
فاطمہ نے مسکراتے ہوئے خود کو سنبھالا،مگر اس کے ذہن میں سوالات سرسرانے لگے۔کچھ نہ کچھ تھا جو اسے محسوس ہو رہا تھا،مگر سمجھ نہیں آ رہا تھا۔
فاز عالم بظاہر فائلوں میں الجھا تھا،مگر حقیقت میں وہ کسی اور ہی الجھن میں تھا۔سامنے لیپ ٹاپ کی اسکرین پر الفاظ تھے،مگر نگاہیں ان پر جمی ہونے کے باوجود کہیں اور تھیں۔
یہ کیفیت…؟یہ جو دل کے اندر کوئی سرگوشی سی بکھرتی تھی،جو سانسوں میں کسی ان کہی خواہش کی مہک گھولتی تھی۔یہ جو خاموشی میں ایک شور سا بپا تھا،اور تنہائی میں بھی کسی کی موجودگی کا احساس تھا۔۔
یہ آخر کیا تھا؟
وہ خود کو سخت،غیر متزلزل،اور بےنیاز سمجھتا تھا،مگر وہ۔۔۔وہ جو لمحہ بہ لمحہ اس کی سوچوں میں آ کر گویا کسی نرم ہوا کی طرح روح کو چھو کر گزر جاتی تھی۔جس کے ہونے سے کمرے کی خاموشی میں کوئی ان دیکھی چمک آ جاتی تھی،جس کی باتوں میں کبھی بےساختہ معصومیت اور کبھی ضد کی شوخی ہوتی تھی۔
یہ کیسا اثر تھا؟
جیسے خشک زمین پر پہلا قطرہ پڑے اور مٹی سے سوندھی مہک اٹھنے لگے۔جیسے کسی بنجر وادی میں اچانک بہار کا نزول ہو جائے۔جیسے رات کی سیاہی میں اچانک چاند جھانک لے اور ہر چیز پر چاندنی اتر آئے۔
فاز نے اپنی انگلیوں سے پیشانی کو مسلا، جیسے خود کو کسی خواب سے بیدار کرنا چاہتا تھا۔مگر حقیقت یہ تھی کہ یہ کوئی خواب نہیں تھا۔یہ محبت کی وہ نرم سرگوشی تھی جو دل کی دیواروں سے ٹکرا کر اسے بے چین کر رہی تھی۔
اسے الجھن ہو رہی تھی،ہاں۔ وہ جو کبھی کسی احساس کو خود پر غالب نہیں آنے دیتا تھا،آج کسی کی غیر موجودگی میں بھی موجودگی محسوس کر رہا تھا۔
فاطمہ کمال…
یہ نام جیسے اس کی سوچوں میں کوئی ستارہ بن کر ٹمٹما رہا تھا۔اس کا ضد بھرا انداز،وہ آنکھوں کی چمک، وہ چہرے پر ہزار رنگ بدلتی معصومیت تو کبھی غصہ۔۔سب جیسے ایک حسین سرگوشی کی طرح اس کے اندر گونج رہی تھی۔
”یہ کیا ہو رہا ہے مجھے؟“۔اس نے زیرِ لب سرگوشی کی۔
مگر جواب…؟
جواب وہی تھا جو وہ خود سے بھی چھپانا چاہتا تھا۔
محبت…
”ان سے کہنا مجھ سے ناراض نہ ہوں…اس پوری کائنات میں میرا صرف ان سے ہی تعلق ہے…یہ تعلق بھی نہیں رہا تو فاطمہ کمال جی نہیں سکے گی“۔۔
آہہہ یہ جملہ بار بار اس کی کانوں میں گونجتا اسے بےچین کررہا تھا۔اور وہ پہلی بار خود کو بےبس محسوس کررہا تھا۔ابھی ایک دن ہی گزرا تھا اور وہ اسے بری طرح یاد آرہی تھی۔دل شدت سے اس کے پاس جانے کا متمنی ہورہا تھا۔دل پر،جذبات پر تو وہ ہمیشہ قابو پالیتا تھا۔۔لیکن آج؟۔۔۔آج پھر سب کچھ کیوں بے اختیار ہورہا تھا؟۔۔اپنی کیفیت سے گھبراتے اس نے کپ اٹھایا جو کومل رکھ کر گئی تھی اور
گھونٹ بھرا،اس کے چہرے پر ایک عجیب سا تاثر ابھرا۔
”مس کومل،آپ یہ کافی اتنی عجیب سی کیوں بنانے لگ گئی ہیں؟“۔فاز نے ماتھے پر تیور چڑھاتے ہوئے سوال کیا۔ کمرے میں موجود باقی لوگوں نے ایک دوسرے کو حیرانگی سے دیکھا،پھر نظریں کومل کی طرف اُٹھ گئیں،جو خود بھی الجھن میں تھی۔
”میں کافی؟“۔کومل نے حیرت سے ان سب کو دیکھا،جیسے اپنی صفائی پیش کر رہی ہو۔ارمان کے لبوں پر بےساختہ ہنسی آ گئی۔فاز نے چونک کر سر اٹھایا،اسے اور باقی سب کو خود کو عجیب نظروں سے دیکھتے ہوئے پایا تو آبرو اچکائے۔
”کوئی مسئلہ ہے؟“۔سخت تیور لیے اس نے مسکراتے ہوئے ارمان کی طرف دیکھا،جس کے چہرے پر ہنوز تفریحی تاثرات برقرار تھے۔
”سر،چائے تو ہمیشہ کی طرح پرفیکٹ بنائی ہے کومل نے“۔مبشرہ نے بمشکل مسکراہٹ روکتے ہوئے اطلاع دی۔اس کا سر جھٹک کر اپنے کپ کی طرف گیا،ایک پل کے لیے ندامت کا احساس ہوا،مگر لمحے بھر میں وہ خود کو سنبھال چکا تھا۔
”آئی مین چائے“۔چہرے پر دنیا جہاں کی سنجیدگی طاری کر کے کہا۔
”مجھے لگتا ہے سر کو کسی کے ہاتھ کی کافی کی عادت ہو گئی ہے“۔مبشرہ نے سرگوشی میں کہا،جس پر پورے گروپ میں دبی دبی مسکراہٹ پھیل گئی۔
”رہنے دیں،جتنے سڑیل یہ ہیں،آپ کو لگتا ہے کسی کے دیوانے ہوں گے؟ذرا سی کوتاہی پر تو چڑھ دوڑتے ہیں“۔کومل خاصی دل گرفتہ لگ رہی تھی،آخر سب سے زیادہ ڈانٹ بھی تو وہی کھاتی تھی۔
”کسی کے ہاتھ کی نہیں،خود کے ہی ہاتھ کی بنی کافی،لیکن کسی اور کے ساتھ پینے کی عادت ہو گئی ہے آپ لوگوں کے سر کو“۔ارمان نے بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ سب کی حیرت میں اضافہ کیا۔
”ویٹ… کیا مطلب؟ کافی سر بناتے ہیں؟“۔کومل کی آواز حیرت سے اونچی ہو گئی،مبشرہ نے فوراً اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر روکا۔
”اور نہیں تو کیا…جو کافی کو ہاتھ نہیں لگاتا تھا،اب نہ صرف پیتا ہے بلکہ بناتا بھی خود ہے“۔ارمان نے مزید مزے لیتے ہوئے بتایا۔
”مجھے چائے والی بنا کر،خود کس کے لیے کافی بناتے ہیں؟“۔کومل منہ بسور کر ٹھنکتے ہوئے بولی۔تھی تو وہ لیفٹیننٹ۔۔لیکن پوری ٹیم میں سب سے چھوٹی تھی۔کام کے وقت ایک زمہ دار لیفٹیننٹ ورنہ وہ صرف کومل میر ہوا کرتی تھی۔
”جاؤ پوچھو جا کر،لیفٹیننٹ ہو،ہمت پکڑو“۔ارمان اور باقی سب نے جوش دلاتے ہوئے اسے اکسانا شروع کر دیا۔
”میں نہیں جا رہی پوچھنے،ورنہ ایک مہینے کی ساری بےعزتی آج ہی کردینی ہے“۔کومل نے دوٹوک انکار کیا،لیکن سب کا دباؤ برقرار رہا۔وہ ٹی لوور تھا یہ بات سب جانتے تھے۔وہ کافی کیسے پینے لگا؟اب سب کو یہ جاننا تھا۔
”جائیں کومل۔۔۔یاد کریں ایک تو آپ بیچاری دشمنوں کے نرغے میں پھنس گئی تھی،غلطی بھی ان دشمنوں کی تھی اور سزا آپ کو دے دی۔اب دیکھیں ہر وقت آپ چائے بناتی رہتی ہیں۔اتنا پوچھنا تو آپ کا حق ہے“۔کیپٹن حارث نے بھی مسکراتے ہوئے اس کا حوصلہ بڑھایا۔
”ہاں کومل،جاؤ پوچھو تو سہی،ورنہ مستقبل میں تم لیفٹیننٹ چائے والی مشہور ہو جاؤ گی۔اب تو یہ بات کرنل کو بھی معلوم ہوگئی ہے“۔مبشرہ نے چھیڑتے ہوئے کہا،جس پر سب ہنس پڑے۔
یہ جملہ سن کر کومل میر کی ساری بیٹری چارج ہوئی تھی۔وہ اکڑ کر کھڑی ہوئی،پھر تیزی سے فاز کے طرف بڑھ گئی۔
”سر“۔آواز حتمی المقدور دھیمی تھی۔احترام بہر حال واجب تھا۔فاز نے لیپ ٹاپ سے نظر ہٹا کر سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا،پھر اس کے دائیں جانب سے پیچھے موجود گروپ کی طرف۔
”یس،مس کومل؟“۔
”آپ کافی بنانے لگ گئے ہیں؟“۔کومل نے آخرکار جی کڑا کر سوال کر ہی لیا۔
”واٹ؟“۔فاز کا حیران ہونا لازمی تھا۔اس کی نظریں سیدھی ارمان پر گئیں،جو مزے سے سب کے درمیان بیٹھا تھا۔
”آپ کسی کے لیے کافی بناتے ہیں اور یہاں مجھ سے سب کے لیے چائے۔یہ زیادتی ہے، سر“۔کومل نے پھولے ہوئے گالوں کے ساتھ احتجاج کیا۔
”مس کومل۔۔۔“فاز نے خود کو غصہ کرنے سے روکا۔
”سر،آپ کو بار بار ‘مس کومل’ کہنے میں دقت نہیں ہوتی؟ ‘کومل’ بھی کہہ سکتے ہیں“۔کومل کی بےتکلفی پر فاز نے اسے گھورا،تو وہ تیزی سے چپ ہو گئی۔
”تو مس کومل،میں یہ کہہ رہا تھا کہ آپ چائے اس لیے بناتی ہیں کیونکہ یہ آپ کی سزا ہے“۔تقریباً تین چار ماہ پہلے جب کومل اپنی بیوقوفی کی وجہ سے دشمن کے نرغے میں پھنسی تھی،تب فاز اسے بچانے کے چکر میں خود زخمی ہوگیا تھا۔تب سے کومل میر کی یہی سزا تھی۔
”تو کیا سر آپ کو کافی بنانے کی سزا ملی ہے؟“۔اس معصوم مگر شرارتی سوال پر سب کا ایک زوردار قہقہہ گونجا،اور فاز نے پیشانی مسل لی۔
”مس کومل،اس دن آپ کو بچا کر میں نے واقعی غلطی کی تھی،وہ گولی آپ کو لگنی دینی چاہیے تھی“۔فاز نے طنزیہ مگر مدھم انداز میں کہا۔
”سر،کیا تین سال پہلے اتنی محنت کرکے مجھے اس لیے بچایا تھا؟“۔کومل جذباتی ہوتے ہوئے تین سال پہلے کا حوالہ دے گئی۔تین سال پہلے فاز عالم نے اسے اغوا کرنے والی گینگ سے بازیاب کروایا تھا۔کومل میر اپنے چچا کے پاس رہتی تھی۔اور اس بازیابی کے بعد وہ باقی لڑکیوں کی طرح اپنے گھر نہیں گئی تھی۔فاز نے کبھی جتایا نہیں تھا،لیکن ہمیشہ اس کا باقیوں سے ہٹ کر بہنوں کی طرح خیال رکھا تھا۔
”مس کومل“۔اس کے لہجے میں تنبیہ تھی،مگر سختی کم تھی۔
”اوکے سر،لیکن اتنا تو بتا دیں کہ کافی کس کے لیے بناتے ہیں؟“۔کومل ڈھیٹوں کی سردار تھی،اور یہ سب جانتے تھے۔
”مسز فاز عالم،مائی وائف۔ناؤ اوکے؟“۔اور آخری کے دو لفظ خاص ارمان کی جانب دیکھ کر کہے گئے تھے،مسکراتے ہوئے
یہ عام مسکراہٹ بالکل نہیں تھی،جیسے کچھ جتاتی ہوئی۔ ارمان فاز کی مسکراہٹ اور نظروں کو سمجھتا ہوا ہمیشہ کی طرح ہنس دیا۔
”یہ سانحہ کب ہوا؟“۔کومل کے لبوں سے بےاختیار الفاظ نکلے،پھر وہ فوراً زبان دانتوں تلے دبا گئی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کومل میر کی زبان کے آگے خندق تھا۔
”مس کومل،انف۔کونسنٹریٹ آن یور ورک“۔فاز نے سختی سے کہا،اور وہ منہ بناتی واپس پلٹ آئی۔اب سب ارمان کے سر ہوئے تھے،ساری تفصیل جاننے کو بےتاب۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
شام کی مدھم سنہری روشنی پورے باغیچے پر نرمی سے بکھر رہی تھی۔آسمان کے کناروں پر نارنجی اور گلابی رنگوں کا کھیل جاری تھا۔دائیں جانب قدیم درخت اپنی شاخیں جھکائے کھڑے تھے،جیسے کسی ان کہی سرگوشی میں مصروف ہوں۔بائیں طرف وہ چھوٹی سی بیٹھک تھی،جہاں وقت کے لمس سے مانوس لکڑی کی چوکی اور روایتی پشاوری قالین پرانی کہانیوں کی خوشبو سے لبریز تھے۔
فاطمہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی باغیچے کے پاس رک گئی۔پھر وہاں رکھی پتھر کی بینچ پر بیٹھ گئی۔ایک بے نام سی اداسی اس کے دل کے گرد خاموشی سے حصار باندھ رہی تھی۔یہاں ہر چیز خوبصورت تھی،مگر اس کی زندگی؟ ہمیشہ سے عجیب تھی۔
”کیا سوچ رہی ہیں؟“۔نرم،شفیق آواز نے اس کے خیالات کے ہجوم کو منتشر کر دیا۔وہ چونک کر دائیں طرف متوجہ ہوئی،جہاں فاز کی ماں شفقت بھری مسکراہٹ کے ساتھ کھڑی تھیں۔ان کی موجودگی میں ایک مان سا تھا۔
”آپ؟ بیٹھیں نا، پلیز“۔وہ فوراً جگہ بنانے لگی،اس اجنبیت بھرے ماحول میں جو واحد اپنائیت کا احساس تھا،وہ ان کے وجود سے تھا۔
وہ دھیرے سے مسکرائیں،ان کی نظریں باغیچے میں جھولتے درختوں پر جا ٹھہریں۔”فاز کو پودے لگانے کا بہت شوق ہے۔یہ سیب اور انار کے درخت اسی کے لگائے ہوئے ہیں“۔ہوا کے جھونکے نے ان درختوں کی شاخوں کو ہلکا سا جنبش دی۔وہ بس سر ہلا کر رہ گئی،مگر اس کے دل میں کچھ عجیب سا دھڑکا تھا۔
چند لمحے خاموشی کی چادر میں لپٹے گزرے،پھر اچانک ایک غیر متوقع سوال اس سکون میں لہروں کی مانند در آیا۔
”آپ جانتی ہیں فاز نے آپ سے نکاح کیوں کیا ہے؟“۔سوال،جو ایک پل میں کئی احساسات کو جھنجھوڑ گیا۔اس نے دھیرے سے نفی میں سر ہلایا۔
”آپ میرے لیے میرے بچوں جیسی ہیں۔بہت اہم… بہت ضروری“۔ان کے لہجے میں ایسی اپنائیت تھی کہ فاطمہ کا دل ایک لمحے کو کانپ سا گیا۔اس نے ان کی گہری،محبت سے بھری آنکھوں میں جھانکا۔
”اس لیے نہیں کہ آپ میرے فاز کی بیوی ہیں…“وہ رکی تھیں،اور فاطمہ کی سانس بھی جیسے اسی لمحے میں ٹھہر گئی۔اب کیا باقی تھا سننے کو؟ہوا میں درختوں کی سرگوشیاں مزید بڑھ گئی تھیں…

Admin2

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like

Uncategorized

Yar Yaroon sy nah Hon Juda By Zainaib Khan

  Yar yaroon sy nah hn juda by Zainaib khan season 2 Episode(1_19)   . is a Classic, Urdu, Romantic,
Uncategorized

Dil dharky tery liye By Warda makkawi

dharky dil twry liye by Warda makkawi is a Classic, Urdu, Romantic, & Social Novel.  It was published online on