فاطمہ کی آنکھ کھلی تو گھڑی کی سوئیاں دس کا ہندسہ عبور کرچکی تھیں۔کھڑکی کے پردے کے درمیان سے دھوپ کی ہلکی سی لکیر فرش پر گرتی ہوئی ایک طرف پھیل رہی تھی۔کمرے میں سجی الماری، میز پر رکھی کتابیں، اور آئینے میں جھلکتی اس کی اپنی تھکن زدہ شکل، سب کچھ ایک اداس مگر پر سکون صبح کی کہانی سنا رہے تھے۔آج ہفتہ تھا۔یونیورسٹی سے آف تھا۔
آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر فاطمہ نے اپنے بکھرے بالوں کو سنوارا۔اس کی آنکھوں میں کل کی تلخی کا عکس اب بھی واضح تھا۔تازہ دم ہوکر وہ باہر نکل آئی۔لاؤنج میں قدم رکھتے ہی نظر صوفے پر بیٹھی دادی اور پھوپھی پر پڑی، جو گہری باتوں میں مشغول تھیں۔صوفے کے قریب رکھا چائے کا کپ میز پر ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔ ان دونوں کو نظر انداز کرتے ہوئے سیدھا کچن کا رخ کیا۔ کچن میں داخل ہوتے ہی سبزیوں کی کٹی ہوئی خوشبو اور چولہے پر چڑھی ہنڈیا سے اٹھنے والی بھاپ فضا میں رچی ہوئی تھی۔ اس نے بوا سے ناشتہ بنانے کو کہا اور ڈائننگ ٹیبل پر جا کر بیٹھ گئی۔ سامنے کا منظر واضح تھا۔ دادی تسبیح کے موتی گرا رہی تھیں، اور پھوپھی ان کے قریب بیٹھی ناجانے کون سے قصے سنا رہی تھیں۔
”یہ کون سے طریقے سیکھ لیے ہیں تم نے؟“۔دادی کی آواز نے خاموشی کو توڑ دیا۔فاطمہ نے سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھا۔
”اب کیا کر دیا میں نے؟“۔تحمل سے پوچھا۔
”لو بھلا؟اب یہ بھی میں بتاؤں؟بی بی یہ گھر ہے ہوٹل نہیں۔جو کمرے میں کھانا منگوا کر کھایا جائے“۔ان کی نظریں ناپسندیدگی لیے سختی سے اس پر جمی ہوئی تھیں۔
”میں جانتی ہوں،اسی لیے ابھی یہاں موجود ہوں۔اور رہی بات کل کی تو میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی“۔کچھ سخت کہنے کی خواہش جاگی تھی۔لیکن وہ دبا گئی۔کل فارم ہاؤس سے واپسی پر وہ سیدھا اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔
”ایسی بھی کیا بیماری کہ کھانے کے آداب ہی بھول جاؤ؟“ چچی نے ایک نظر اس پر ڈالی اور ملازمہ کو سبزی کاٹنے کی ہدایت دیتے ہوئے بولیں۔
”امی،کیا ہوگیا ہے آپ لوگوں کو؟کم از کم ناشتہ تو سکون سے کرنے دیں۔ان کی خیریت پوچھیں گی تب ہی معلوم ہوگا ناں“۔ماریہ جو ابھی اس طرف آئی تھی ماں کی بات سنتے خفگی سے بولی۔فاطمہ نے نرم نگاہوں سے ماریہ کو دیکھا،پھر ایک بےتاثر نگاہ لاؤنج کے صوفے پر بے نیاز سے عابد پر ڈالی۔
”تم خاموش رہو۔اس کے ساتھ رہ رہ کر بدتمیزی کرنا سیکھ گئی ہو“۔پھوپھی ریحانہ فوراً سے اسے ڈپٹ دی۔
”بدتمیزی نہیں،ان کے ساتھ رہ کر میں حق کے لیے بولنا سیکھ رہی ہوں“۔۔ماریہ بےخوفی سے انھیں دیکھتے ہوئے
بولی۔
”ماریہ“!فاطمہ نے ایک نظر ماریہ کو دیکھا اور اسے روکنے کی کوشش کی،مگر وہ خفگی بھری نگاہ اس پہ ڈال کر وہاں سے چلی گئی۔
”اب کیا اسے منع کررہی ہو؟سارا سیکھایا تو تم نے ہی ہے“۔چچی بیٹی کے تیور پر آگ بگولہ ہوتے فاطمہ کو غصے سے دیکھی۔
اس گھر کے سارے آداب سارے سارے قانون لگتا تھا صرف فاطمہ کمال پر ہی لاگو ہوتے تھے۔فاطمہ ناشتہ کیے بغیر ہی ٹیبل سے اٹھ گئی۔
”فاطمہ!ناشتہ تو کر لو“۔عابد کی محبت بھری آواز پر وہ رک گئی۔
”مجھے کیا کرنا ہے،اور کیا نہیں، یہ میں اچھی طرح جانتی ہوں“۔اس کے ایک جملے نے عابد کو اچھی طرح سب کچھ باور کروادیا۔
”اور کہو“۔۔چچی طنزیہ ہنسی عابد کی طرف اچھالی۔
”تو اور کیا کہوں؟عجیب“۔۔کندھے اچکاتے ہوئے وہ دوبارہ موبائل میں گم ہوگیا۔
دادی پھوپھی دوبارہ سے اپنی باتوں میں مشغول ہو گئیں۔
دس منٹ گزرے تھے کہ فاطمہ دوبارہ سیڑھیاں اترتے ہوئے نظر آئی۔فالسے رنگ کا ٹو پیس، پاکٹ چین اور کارگو اسٹائل ٹراؤزر میں وہ بے خوبصورت نظر آ رہی تھی۔ گلے میں سفید فلورل اسکارف اور کندھے پر گوچی کا سفید ہینڈبیگ اس کی شخصیت کو مزید نکھار رہے تھے۔سفید پمز اور ہلکے کرل براؤن بالوں میں حسب معمول بو لگا ہوا تھا۔
”اب کہاں جارہی ہو تم؟“دادی سکینہ فوراً سے سوال کر ڈالی۔فاطمہ نے کوفت سے آنکھیں بند کرلیں۔
”علینہ کی اب تک واپسی کیوں نہیں ہوئی ؟ کیا آپ جانتی ہیں وہ دو دن سے گھر کیوں نہیں آئی؟“۔فاطمہ خود کو پرسکون کرتے ہوئے پوچھنے لگی۔
”تم کون ہوتی ہو میری بیٹی کے بارے میں سوال کرنے والی؟“۔پھوپھی ریحانہ غصے سے بیچ و تاب کھائی۔
”تم سے جتنا پوچھا ہے اتنا جواب دو“۔دادی سکینہ کے تیز لہجے پر فاطمہ دھیرے سے سر ہلاتی ہنس دی۔طنزیہ ہنسی۔
”سارے سوال جواب تو میرے لیے ہیں۔خیر،ہاسپٹل جارہی ہوں، اور کچھ پوچھنا ہے؟“فاطمہ کی سرد نگاہوں کو وہ اپنے اندر اترتا محسوس کررہی تھیں۔لیکن دادی سکینہ کی آنکھوں کی تپش ذیادہ تھی۔
”کمال آج واپس آ جائے گا۔ اور ہمیشہ کی طرح اس بار بھی کل پارٹی ہوگی، تو دھیان رکھنا، دوبارہ کوئی اسکینڈل نہیں بنوالینا“۔دادی کا لہجہ کچھ تیز تھا۔حقارت اور تنقید سے دیکھتی ہوئی نظریں فاطمہ کے وجود پر جمی تھیں۔
”ہاں، مجھے تو شوق ہے ان کاموں کا“۔طنزیہ انداز میں کہتی فاطمہ گوگلز لگاتے ہوئے اپنی گیلی ہوتی نیلی آنکھوں کو چھپا گئی۔
”بے فکر رہیں، اس بار نہیں بننے والا“۔ بےتاثر انداز میں کہتی ہوئی دروازے کی طرف قدم بڑھ گئی۔
”بالکل اپنی ماں پر گئی ہے“۔۔ریحانہ پھوپھی نفرت سے بولی۔
”صرف شکل ماں پر ہے۔عادت نہیں“۔۔دادی سکینہ گہری سوچ میں گم ہوتی بولی۔
”عادت کس پر ہے؟“۔۔پھوپھی ریحانہ ناسمجھی سے انھیں دیکھی۔
”آفرین مصطفیٰ پر“۔۔ان کی آواز میں نفرت گھل گئی۔
شاہد عباسی کی صبح دوپہر کے ایک بجے ہوئی تھی۔ وہ ناشتے کی غرض سے ڈائننگ ٹیبل پر آ کر بیٹھ گئے۔ فائزہ عباسی نے ملازمہ کو ناشتہ لگانے کا کہا۔ناشتہ ٹیبل پر لگتے ہی وہ جانے لگیں۔ ناشتہ ہمیشہ وہی سرو کرتی تھیں، مگر آج انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
“فائزہ، طبیعت ٹھیک ہے؟” شاہد عباسی نے اچنبھے سے پوچھا۔ان کی آواز پر وہ رک گئیں۔ پلٹیں، اور پھر چلتی ہوئی ان کے پاس آ گئیں۔
“کیا مجھے ٹھیک ہونا چاہیے؟” انہوں نے عجیب سے انداز میں سوال کیا۔
“تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی۔ ڈاکٹر کو بلوا لیتے ہیں” ۔ان کے عجیب رویے پر وہ فکر مند ہوئے۔
“فری زبیر کون ہے؟” ان کا لہجہ چبھتا ہوا تھا۔
“ماڈل ہے اور کون؟” وہ اس بے تکے سوال کا مقصد سمجھ نہیں سکے۔
“آپ کی کون ہے وہ؟” ان کی آواز بلند ہوئی۔ شاہد عباسی کو معاملے کی سنگینی کا احساس ہوا۔ انہوں نے کانٹا پلیٹ میں رکھا اور سر اٹھا کر سامنے کھڑے ملازمین کو سخت نظروں سے گھورا۔ان کی آنکھوں کا مفہوم سمجھتے ہی ملازمین فوراً غائب ہو گئے۔
“فائزہ، یہاں بیٹھیں”۔ انہوں نے ان کا ہاتھ پکڑ کر کرسی پر بٹھانے کی کوشش کی، مگر وہ جھٹکے سے ہاتھ چھڑا گئیں۔
“آپ میرے سوال کا جواب دیں!”
“فائزہ، یہاں بیٹھیں اور پوری بات بتائیں۔ فری زبیر کو میں صرف بطور ماڈل جانتا ہوں”۔اس بار انہوں نے سنجیدگی سے کہا۔
فائزہ نے بیٹھتے ہوئے ان کے سامنے ایک لفافہ پھینکا جس میں سے تصویر کا ایک سرا باہر نکلا ہوا تھا۔ شاہد عباسی نے ناسمجھی سے تصویر نکالی، مگر نظر پڑتے ہی ان کا چہرہ طیش سے سرخ ہو گیا، اور انہوں نے مٹھیاں بھینچ لیں۔
“آپ ان تصویروں کو وجہ بنا کر مجھ سے سوال کر رہی ہیں؟” ان کا لہجہ یکدم سرد ہو گیا۔
“تو کیا یہ وجہ کم ہے، شاہد صاحب؟” غصے سے وہ چیخ پڑیں۔
“رکیں، آپ ابھی!” انہوں نے سخت نظروں سے دیکھتے ہوئے ملازمہ کو آواز دی۔
“جی صاحب!”
“ارمان عباسی کو بلا کر لائیں”. ان کے حکم پر ملازمہ فوراً سر ہلاتے ہوئے باہر نکل گئی۔ فائزہ عباسی ارمان کو بلانے پر کشمکش کا شکار ہو گئیں۔
“جی، ڈیڈ، آپ نے بلایا؟” پیشانی پر بکھرے بالوں کے ساتھ آنکھیں مسلتے ہوئے ارمان ان کے سامنے آ کھڑا ہوا، جیسے ابھی ابھی نیند سے جاگا ہو۔
“فری زبیر سے میری کتنی دیر ملاقات ہوئی تھی؟” انہوں نے بیٹے کو دیکھ کر سوال کیا۔
“دس منٹ”۔اس نے ممی اور ڈیڈی کے تاثرات کو فکرمندی سے دیکھا۔ شاہد عباسی نے ایک جتاتی نظر فائزہ عباسی پر ڈالی۔
“ہمارے درمیان کیا بات ہوئی تھی؟” انہوں نے دوبارہ سوال کیا۔
“بس فارمل سی باتیں تھیں”۔ارمان اب بھی ان سوالات کے مقصد کو سمجھ نہیں پایا۔ فائزہ عباسی بیٹے کے جوابات پر گہری سانس لے کر رہ گئیں۔
“کیا تم میرے ساتھ پارٹی میں تھے؟ اور کیا ہماری واپسی ایک ساتھ ہوئی تھی؟” ایک اور سوال۔
“جی، ایسا ہی ہے”۔ارمان نے ماں سے اشارے میں معاملہ پوچھنے کی کوشش کی، مگر وہ نظریں چرا گئیں۔
“جاؤ، تم جا سکتے ہو”۔شاہد صاحب کے کہنے پر وہ جانے لگا۔ تبھی اس کی نظریں تصویروں پر پڑ گئیں، اور وہ معاملہ فوراً سمجھ گیا۔
“آپ کو مجھ سے سوال کرنے سے پہلے ان تصویروں کو غور سے دیکھ لینا چاہیے تھا۔یہ ساری تصاویر فوٹو شاپ کی گئی ہیں”۔ سخت انداز میں کہتے ہوئے وہ بغیر ناشتہ کیے ہی اٹھ کھڑے ہوئے۔
“شاہد، وہ بات…”
“اب ہماری بات بعد میں ہوگی”۔انہوں نے اسے ٹوکتے ہوئے اپنی اسٹڈی کی طرف قدم بڑھایا۔ غصے سے اسٹڈی کا دروازہ بند کیا اور میز پر رکھا بیش قیمت گلدان فرش پر دے مارا۔
“یہ تو گلے تک آ رہا ہے۔ فیملی تک پہنچ کر اچھا نہیں کر رہے، وائے ڈی!” غصے میں بھرے وہ گلدان کے ٹکڑوں کو دیکھ رہے تھے۔ پھر موبائل نکال کر ایک نمبر ڈائل کیا۔ طویل انتظار کے بعد کال ریسیو کی گئی۔
“اوہ، آج تو بڑے بڑے لوگ کال کر رہے ہیں”۔اسپیکر سے طنزیہ آواز گونجی۔
“وائے ڈی، تم فیملی تک پہنچ کر اچھا نہیں کر رہے”۔ غصے سے وہ اس پر چلائے۔
“آں ہاں، شاہد عباسی، غصہ نہیں۔ خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ اور جس بارے میں تم بات کر رہے ہو، اس سے میرا کوئی تعلق نہیں”۔اس نے سرد آواز میں وارننگ دی۔
“یہ کام تمہارے علاوہ کسی اور کا نہیں ہو سکتا”۔جوتے کی نوک سے گلدان کا ٹکڑا پرے پھینکا۔
“ایسے فلاپ پلان میرے نہیں ہوتے۔میں جو کرتا ہوں، پکے ثبوتوں کے ساتھ کرتا ہوں۔آستین میں سانپ تم نے خود پالے ہیں، اور سوال مجھ سے کر رہے ہو”۔ آخر میں اس کا لہجہ پراسرار ہو گیا۔
“تم نے تصویریں نہیں بھیجیں، تو پھر کون بھیج رہا ہے؟ اگر اتنے ہی سورما ہو، تو ایسے جھوٹے کھیل کیوں کھیل رہے؟” ان کی آواز غصے سے بھر گئی۔
“شاید تم نے میری بات غور سے نہیں سنی۔ ایسے فلاپ پلان میرے نہیں ہوتے۔ اگر یہ کام میرا ہوتا تو آج تم خود کو بے گناہ ثابت نہیں کر سکتے تھے۔ اور میں جو کرتا ہوں، ڈنکے کی چوٹ پر کرتا ہوں۔ میرا لوگو اس بات کا گواہ ہے”۔اس نے کرخت لہجے میں کہتے ہوئے کال کاٹ دی۔
شاہد عباسی نے تصویریں اٹھائیں۔کہیں بھی کچھ بھی نہیں لکھا تھا۔ آج تک وائے ڈی کے جتنے بھی کام تھے،ان میں انگریزی کے دو حروف ضرور موجود ہوتے تھے۔
“اگر وائے ڈی نہیں، تو پھر کون بن گیا ہے میرا دشمن؟”۔ان کے چہرے پر فکر کی پرچھائیاں تھیں۔
وہ وائے ڈی کے نام سے ان لوگوں کے درمیان مشہور تھا،جو سیاستدان،سوشل ورکر،اور بزنس مین ہونے کے ساتھ ساتھ اسمگلنگ کے کاموں میں بھی ملوث تھے۔ورنہ ہر کوئی اسے نہیں جانتا تھا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
Mohabbat Fateh Tehri by Ayesha Asghar Episode 2
