کچھ دير پہلے ثمرين اسکے کپڑے نکال کر گئ تھی۔
کام والے کپڑے ديکھ کر ريم کا دل بری طرح دھڑکا۔ اسکے اندر ايک خوف پنجے گاڑھ رہا تھا۔ جو کچھ وہ سوچ رہی تھی۔ اسکے دل سے دعا نکلی کے وہ صحيح نہ ہو۔ خاموشی سے کپڑے لے کر وہ واش روم ميں بند ہوچکی تھی۔
جس لمحے باہر آئ ارم اور سميرہ اسکے کمرے ميں موجود تھيں۔ ان دونوں کو ديکھ کر وہ بری طرح چونکی۔
“آ۔۔ آپ۔۔ يہاں” انکی موجودگی کی وجہ اسے سمجھ نہيں آرہی تھی۔
سيمرہ آگے بڑھی محبت سے اسے خود ميں بھينچا۔
“آؤ تمہيں تيار کرديں۔۔ آنٹی کا آرڈر آيا ہے” سميرہ اور ارم اس کا سوال نظر انداز کرکے اسے لئے ڈريسنگ کے آگے آئيں۔ کرسی رکھ کر اسے وہاں بٹھايا۔
“تمہارے پاس کوئ ميک اپ کا سامان ہے” وہ ابھی تک انکی آمد پر حيران تھی۔ يکدم ارم کا ہاتھ تھام ليا۔ انہيں کمرے ميں بھيجتے ہوۓ سلطانہ نے بتا ديا تھا کہ انہوں نے فی الحال اسے کچھ نہيں بتايا۔ انہوں نے احتجاج کيا کہ اسے پتہ ہونا چاہئيۓ تھا۔ مگر سلطانہ کی کيا مصلحت تھی وہ دونوں نہيں جان سکيں۔
“پليز مجھے بتائيں آپ دونوں کو کيا کہہ کر يہاں بلايا ہے۔۔۔ مجھے تو امی نے کچھ نہيں بتايا۔ مگر مجھے يقين ہے آپ دونوں انجان نہيں” ارم کا بازو تھام کر اس کا رخ اپنی جانب کي آنسو بھری آنکھوں سے اسے دیکھا۔
ارم نے ايک نظر سميرہ کو ديکھا۔
سميرہ نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسکا چہرہ اپنی جانب کيا۔
“ميں مانتی ہوں کہ ميرا بھائ شايد بہت برا ہے۔۔ مگر وہ اس وقت تمہيں عزت دينے کے لئے ہر حد تک جانے کو تيار ہے۔ يقين کرو وہ اتنا برا نہيں جتنا برا تمہارے سامنے پيش ہوا ہے اور اس سب مين بھی اس کا قصور نہيں۔۔ اس نے تمہيں کسی بھی طرح ٹريپ نہيں کيا۔”سميرہ کا اشاذ کے بارے ميں دفاع کرنا اور وہ بھی اس لمحے اسے سمجھ نہيں آرہا تھا۔
“مجھے اس وقت يہ سب باتين نہيں کرنيں۔۔ مجھے وہ وجہ بتائيں جس کی وجہ سے آپ دونوں اس وقت يہاں ہيں؟” وہ شديد کشمکش ميں تھی۔
“اس وقت ہم تمہيں اشاذ کی بيوی بنانے کے جتن کرنے کے لئے يہاں ہيں” سميرہ کی بات پر اسکی آنکھيں حيرت کی زيادتی سے پھٹ گئيں۔
“يہ نہيں ہو سکتا۔۔ جس شخص نے ميری عزت کی دھجياں بکھيريں۔۔ ميں يہ نہيں کرسکتی۔” اس کا اپنے کندھے پر موجود ہاتھ بری طرح جھٹکا۔
“اشاذ نے يہ پروپگنڈا نہيں کيا ريم” ارم بھی اب اسکی حمايت ميں ميدان ميں آئ۔
“اگر اس نے نہيں بھی کيا۔ تو بھی مين اس شخص سے شادی نہيں کرسکتی۔ وہ دنيا ميں آخری شخص بھی ہوگا تو بھی وہ مجھے قبول نہيں” وہ مسلسل سر نفی ميں ہلا رہی تھی۔
سميرہ کو اپنا خدشہ درست ہوتا ہوا محسوس ہوا۔
ارم کمرے سے باہر گئ۔ تھوڑی دير بعد سلطانہ کو لئے وہ اندر آئ۔
“ميں نے تمہيں کہا تھا کہ جيسے ميں کہوں تم نے ويسے کرنا ہے”
وہ غصے سے اسے ديکھتے ہوۓ بولين جو اپنے حواسوں ميں نہيں لگ رہی تھی اس وقت۔
“تو ايک کام کريں۔۔ آپ مجھے مار ديں۔۔ مگر مجھے يہ سب کرنے کو نہيں کہيں۔۔ ميں ايسے شرابی اور زانی کی بيوی نہيں بن سکتی اس سے بہتر ہے کے ميں مرجاؤں” اسکے منہ سے نکلنے والے الفاظ سميرہ کو بے حد تکليے دے رہے تھے۔
“وہ ايسا نہيں ہے” نجانے اسکے دماغ ميں کس نے يہ سب باتيں ڈال رکھی تھيں۔
“وہ آپ کا بھائ ہے اسی لئے ايسا نہيں لگتا آپ کو” وہ تڑخ کر بولی۔
“امی پليز يہ مت کريں ميرے ساتھ” وہ گھٹ گھٹ کر رو رہی تھی۔
دروازہ کھلا تھا اسکی چيخ و پکار اتنی آہستہ نہيں تھی کہ ڈرائينگ روم ميں بيٹھے لوگوں تک نہ پہنچتی۔
سميرہ خاموشی سے باہر نکل گئ۔ اسے يہ کام ہوتا ممکن نہيں لگ رہا تھا۔ لہذا وہ اشاذ کو پہلے سے تيار کرنا چاہتی تھی کہ انہيں خالی ہاتھ لوٹنا ہے۔
ڈرائينگ روم ميں آکر اشاذ کے ساتھ بيٹھتے وہ آہستہ آواز مين اسے سب بتانے لگی۔۔
باقی سب باتوں ميں مصروف تھے۔
“تم آنٹی کو بلاؤ” اشاذ کے کہنے پر وہ آہستہ سے اٹھ کر اندر کی جانب گئ۔
سلطانہ ريم کے کمرے ميں سر پکڑے بيٹھی تھيں۔ وہ کسی طرح مان نہين رہی تھی۔
“آنٹی پليز بات سنئيے گا” سلطانہ کے ساتھ ساتھ اس نے ارم کو بھی باہر آنے کا اشارہ کيا۔
وہ دونوں باہر چلی گئيں۔
ريم کو لگا معاملہ ٹل گيا ہے۔
کچھ دير بعد دروازے کے دوسری جانب قدموں کی چاپ سنائ دی۔ بغير دستک کے کوئ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔
وہ خاموشی سے بيڈ پر سر گھٹنوں پر رکھے بيٹھی رہی۔ اسے اميد تھی سلطانہ ہوں گی۔ وہ لوگ چلے گئے ہوں گے اور وہ اسے لعن طعن کريں گی۔ وہ اپنے ہی خيالی پلاؤ بنا رہی تھی۔ جب سر پر کسی نے انگلی سے ٹھونک بجائ۔
اس نے يک لخت سر اٹھا کر ديکھا۔
اپنے سامنے کھڑے اشاذ کو ديکھ کر وہ حيرت زدہ رہ گئ۔
“اپنی ماں کی پريشانی سے واقف ہو؟” اسکے ستے چہرے کو اس نے نظر بھر کر ديکھا۔
ہلکے پرپل اور آف وائٹ رنگ کے کام والے سوٹ ميں دوپٹہ شانوں پر ڈالے آدھے کھلے آدھے بندھے بالون کے ساتھ وہ اپنے بالون کی ہی طرح شديد الجھی ہوئ لگی۔
“ميری ماں ہيں۔۔ ان کا مسئلہ ميرا مسئلہ ہے آپ کا نہيں” بيڈ سے کھڑے ہوتے تلخی سے بولی۔
“چلو ٹھيک ہے تمہارے نزديک تم مرنا بہتر سمجھتی ہو مجھے سے شادی کرنا نہيں۔۔۔۔ تو ٹھيک ہے۔۔۔ ” اسکی بات پر اس نے سواليہ نظروں سے اسکی جانب ديکھا۔
اس کا يوں ماننا اسے سمجھ نہيں آيا۔
Rang Jaon Tere Rang by Ana Ilyas Episode 4
