اشاذ نے اپنی دونوں ہتھيلياں اسکے سامنے کيں۔ ايک پر نکاح نامہ رول کرکے موجود تھا وار دوسری پر گن۔۔
“دونوں ميں سے ايک کا انتخاب کرو۔۔ تم بدنام ہو چکی ہو۔۔ تو مرنا بہتر سمجھتی ہو۔۔ اٹھاؤ گن اور اس ميں موجود گولياں اپنے اندر اتارو۔۔ ماں باپ کو بھی اس ذلت سے نکالو اور خود کو بھی۔ ورنہ دوسرا راستہ صرف مجھ سے شادی ہے۔۔ ان دو آپشنز کے علاوہ تمہارے پاس تيسرا کوئ آپشن نہيں۔۔۔ کيونکہ اس سب کے بعد کوئ تمہيں نہيں اپنائے گا۔۔۔ ميں نے اس دن بھی تمہيں کہا تھا حقيقت کو قبول کرنا سيکھو۔ اور يہ بھی ايک حقيقت ہے کہ اس سب کے بعد کوئ تمہيں نہيں اپناۓ گا۔ تمہيں اسے ميری سازش سمجھو يا جو بھی۔ ميں تمہيں ہرگز کوئ صفائ نہيں دوں گا۔۔ وقت بتاۓ گا کہ يہ سب کس نے کيا۔
” تمہارے زندہ رہنے کی ايک ہی صورت ہے اور وہ مجھ سے شادی ہے۔۔ برا تو ميں بہت ہوں۔۔ بقول تمہارے۔۔ تو يہ بات اپنے چھوٹے سے دماغ ميں بٹھا لو۔۔ کہ اگر زندہ رہتے مجھ سے شادی کو ترجيح نہ دی تو ميں تمہيں کسی اور کے قابل بھی نہيں چھوڑوں گا۔۔ مجھ سے شادی يا موت۔۔۔”وہ اس وقت سفاک بنا ہوا تھا۔
جلدی کرو۔۔ تمہارے پاس صرف پانچ منٹ ہيں۔۔ فورا فيصلہ کرو۔۔۔ اتنی بہادر ہو تو اٹھاؤ گن ختم کرو خود کو۔۔ چاہو تو دو گولياں ميرے سينے ميں بھی اتار دو۔۔ کيونکہ ميں نے تو تمہارے ساتھ دشمنی کی ہے۔۔۔” اسکی آنکھيں حيرت کی زيادتی سے پھٹ رہی تھيں۔۔
خود تو پاگل تھا ہی ريم کو بھی اس لمحے پاگل کر رہا تھا۔
“اٹھاؤ” اب کی بار اسے ٹس سے مس ہوتے نہ ديکھ کر وہ چلايا۔
ريم بری طرح ڈر گئ۔ پہلے ہاتھ گن کی جانب بڑھايا۔۔ کپکپاتے ہاتھوں سے گن تھامی۔ اشاذ نے خاموشی سے دونوں ہاتھ پيچھے کرلئے۔
“مارو خود کو” اسکی بات پر آنسو بھری آنکھيں اٹھا کر اس نے اشاذ کو ديکھا۔ کتنا سفاک تھا وہ۔۔۔ کپکپاتے ہاتھوں سے گن اپنی کن پٹی پر رکھ کر وہ آنکھيں بھينچ گئ۔
ہاتھ ٹريگر پر تھا۔۔۔
“چلاؤ” اشاذ پھر سے سپاٹ لہجے ميں بولا۔
يکدم گن ہاتھ سے پھينک کر وہ وہيں بيٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر روئ۔ وہ اتنی ہمت نہيں کرسکتی تھی۔
موت کو گلے لگانا اتنا آسان نہيں ہوتا۔
اشاذ نے خاموشی سے اسے روتے ديکھا۔ کچھ بھی کہے بغير مڑ کر باہر چلا گيا۔
“جائيے وہ اب کچھ نہيں کہے گی” سلطانہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر انہيں تسلی دی۔
اور پھر کچھ دير بعد اس نے ايجاب وقبول ادا کرلئے۔ ريم فخر سے وہ ريم اشاذ بن چکی تھی۔
وہ سب مطمئن تھے۔
ابھی وہ اپنے کمرے ميں ہی تھی کہ کچھ سوچ کر اس نے اشاذ کو ميسج کيا۔
“مجھے رخصتی نہيں کروانی” اشاذ جو سب سے گلے مل کر ابھی بيٹھا ہی تھا۔ موبائل پر ملنے والے ميسج کو ديکھ کر چند پل ساکت ہوا۔
“مجھے ريم سے ملنا ہے۔ اگر آپ کی اجازت ہو۔” وہ سلطانہ کے پاس آيا۔
“ہاں ہاں بيٹا” انہيں کوئ اعتراض نہيں تھا۔ اشاذ کو اسکے کمرے کی جانب جانے کا اشارہ کيا۔
اسے ذرا سا بھی گمان نہيں تھا کہ اسکے ميسج کا جواب لے کر وہ خود اسکے کمرے ميں آجاۓ گا۔
پہلے کی ہی طرح اب بھی دروازہ بجانے کا تردد اس نے نہيں کيا۔
دروازہ دھکيل کر جيسے ہی اندر آيا۔ وہ اب بھی اسی طرح دھلے منہ سے بيٹھی تھی۔ دروازہ بند کرکے وہ اسکے قريب بيڈ پر بيٹھا۔
“جب نکاح جيسا کام کرليا ہے تو اب رخصتی بھی کروا لو۔۔” اسے اندر آتے ديکھ کر وہ پہلے ہی بيڈ پر سيدھی ہو کر بيٹھ چکی تھی۔
اسکی بات پر نظر اٹھا کر ديکھا۔
“آپ نے جس طرح مجھے ٹريپ کيا ہے وہ ميں کبھی نہيں بھولوں گی۔ ميرے اعصاب اتنے مضبوط نہيں کے اتنے سارے دھچکے ايک ساتھ برداشت کرسکوں۔” وہ تلخی سے بولی۔
“نکاح کا دھچکا ہی بہت ہے۔۔ فی الحال اور کسی چيز کو قبول نہيں کرسکتی۔ خير۔۔۔ ميں نے تو ايک چھوٹی سی درخواست کی ہے۔۔ آپکی مرضی ہے مانے يا نہ مانے۔
پہلے ميری کون سی بات مان لی ہے۔ آپ کو تو ويسے بھی زور زبردستی کی عادت ہے” وہ مسلسل اس پہ لفظوں کے وار کررہی تھی۔ جو خاموشی سے سہہ رہا تھا۔
وہ اسے رعايت دئيے جارہا تھا۔
“ميں نے تمہيں ايک بار پہلے کہا تھا کہ ايسی باتيں انسان کو نہيں کہنی چاہئيں جو اسی کے سامنے آجائيں۔تمہيں اپنی پارسائ کا غرور ہے۔ تو ديکھ لو۔۔ اللہ نے مجھ جيسا برا صفت انسان تمہاری قسمت ميں لکھ کر تمہارا يہ غرور توڑ ديا۔۔ چچ چچ” گردن موڑے وہ اسکی جانب ديکھ کر وہی زچ کرنے والی مسکراہٹ سجاۓ اسے چڑا رہا تھا۔
“ہاں جانتی ہوں ساری زندگی يہ عذاب سہنا ہے۔۔ بار بار جتائيں مت” وہ پھاڑ کھانے والے لہجے ميں بولی۔
“اگر ميرے ساتھ يہ ہوا ہے تو ياد رکھئے گا آپ کے ساتھ بھی اچھا نہيں ہوگا۔۔ ايک بے بس کی بے بسی کا مذاق اڑانے کا بدلہ اللہ بہت جلد آپ سے لے گا” بھيگی آنکھوں کو بے دردی سے صاف کرتی وہ اس لمحے زہر خند لہجے کے باوجود اسے بے حد پياری لگ رہی تھی۔
اگر وہ جان جانتی تو ايک بار پھر اسے سائيکو کہتی۔
“کچھ دنوں ميں کچھ انکشافات ہونے والے ہيں۔۔ کيا تب بھی اپنے الفاظ پر قائم رہوگی؟” وہ آدھی ادھوری بات کرکے نجانے اس سے کيا کہلوانا چاہ رہا تھا۔
“آپ کے بارے ميں رائے کبھی نہيں بدلے گی۔۔ جتنے برے آپ آج ہيں اتنے ہی برے کل بھی رہيں گے۔ جو مرضی انکشاف ہوجاۓ” وہ جذباتی ہورہی تھی۔
“سوچ لو” وہ اسے چيلنج کرنے والے انداز مين بولا۔
“کچھ سوچنے کو چھوڑا ہے آپ نے” اس کا لہجہ مسلسل کڑوا ہی تھا۔
“اوکے ميری جان ويٹ اينڈ واچ” يکدم اسے خود سے قريب کرکے اسکے چہرے پر زبردستی محبت کے پھول کھلا گيا۔
“زانی اور شرابی کے ساتھ ساتھ گھٹيا بھی ہيں” وہ اسکی زبردستی پے چلا اٹھی۔
غصے سے وہ گال رگڑا جہاں کچھ دير پہلے وہ اپنا لمس جگا گيا تھا۔
“ميری جان اتنی انرجی ويسٹ مت کرو۔۔ کچھ رخصتی کے لئے بھی سنبھال رکھو” وہ معنی خیزی سے کہتا۔ ايک ادا سے بالوں ميں ہاتھ پھير کر اسکے پاس سے اٹھا۔
ريم کا بس نہيں چل رہا تھا اس کا سر پھاڑ دے۔
“نکل جائيں آپ ميرے کمرے سے” کوئ جاۓ رفتن نہ ديکھ کر وہ سرخ چہرہ لئے بولی۔
جو غصے اور شرم دونوں سے سرخ ہو رہا تھا۔
“کب تک بچو گی۔۔ جان جہاں” وہ مزيد اس کا پارہ ہائ کرتا ايک آنکھ دبا کر مسکراتا باہر نکل گيا۔
وہاں سے نکل کر سلطانہ بيگم کو ڈرائينگ روم سے باہر بلايا۔
“ميرے خیال مين ابھی اسے جتنا شاک ملا ہے وہ کافی ہے۔ آج رخصتی مت کروائيں۔۔” اس کی بات پر سلطانہ کے چہرے پر سراسيمگی پھيلی۔
“آپ فکر مت کريں ميں جلد رخصتی کرواؤں گا۔۔ ليکن ميرے خيال سے آج رہنے ديں۔ شايد کچھ دنوں ميں وہ سنبھل جاۓ تو اس فيصلے کو دل سے قبول کرلے” اسکی بات پر وہ محض سر ہلا کر رہ گئيں۔ ابھی اگر وہ کہہ ديتا کہ يہ آپ کی بيٹی کی خواہش ہے تو انہوں نے زبردستی اسے رخصت کردينا تھا۔ اسی لئے اس کا نام بيچ ميں لاۓ بغير اس نے سبھاؤ سے انہيں منع کيا۔
سميرہ سے بات کی اسے بھی يہی مناسب لگا۔
کچھ دير بعد اسے اشاذ کے ہمراہ لا کر بٹھايا۔ چند ايک تصويريں کھينچنے اور کھانا کھانے کے بعد وہ لوگ واپسی کے لئے اٹھ گئۓ۔
سميرہ نے رخصتی کے حوالے سے اپنے سسرال والوں کو کيا کہا۔ اشاذ نہيں جانتا تھا۔ بہرحال کسی نے اس کے متعلق اس سے بات نہيں کی۔
جاری ہے