“تم نے صرف دنيا کی ترس بھری نظروں سے خود کو بچانے کے لئے تنہائ کا انتخاب کيا ہے اسی لئے دنيا جب تمہيں ملتی ہے وہ تمہيں خوفزدہ کرتی ہے۔ کيونکہ تم نے اسے خود کو خوفزدہ کرنے کا موقع ديا ہے۔ ايک بار اسکی دنيا کی آنکھوں ميں آنکھيں ڈال کر اپنی محرومی کو بھلا کر يہ سوچو کہ يہاں کوئ مکمل نہيں۔
تو يقين کرو۔۔ تمہيں ان کی ترحم بھری نظريں نظر ہی نہيں آئيں گی۔ نہ يہ تمہاری ذات پر کوئ بات کرنے کے قابل رہيں گے۔
تم نے خود لوگوں کو اپنی ذاتيات مين گھسنے کا موقع ديا ہے۔۔ تم يا کوئ اور ميرے بارے ميں جانتا ہے؟” وہ اس لمحے بس خاموشی سے اسے سن رہی تھی۔ اور سننا چاہ رہی تھی۔ وہ بہت خوبصورت بولتا تھا شايد اسے خود بھی اندازہ نہيں تھا۔
اسی لئے کچھ کہنے کی بجاۓ اس نے آہستہ سے نفی ميں سر ہلايا۔ وہ اسے نہين بتانا چاہتی تھی کہ سميرہ اسے سب بتا چکی ہے۔ وہ اس کے اعتماد کو متنزلزل نہيں کرنا چاہتی تھی۔
“اسی لئے کہ ميری زندگی مين جو بھی محرومی ہے۔ ميں نے دنيا کو اس جانب ديکھنے کا موقع ہی نہيں ديا۔ لوگ کون ہوتے ہيں ميری محرومی کو ڈسکس کرنے والے۔ جب اللہ مجھے اس سب کے ساتھ قبول کرتا ہے تو لوگ ہيں ہی کون؟ مجھے انکے خود کو قبول کرنے يا نہ کرنے سے کوئ فرق نہيں پڑتا۔ کيونکہ يہ سب مجھ سے کہيں محروم ہوں گے” اشاذ کی بات پر وہ خاموشی سے سر جھکا گئ۔
“تمہاری يہ محرومی اتنی بڑی نہيں۔ خدا کا شکر ادا کرو۔۔ چھوٹے ہی مگر کام کرنے کے لئے اللہ نے ہاتھ تو دئے۔ اور جن ہاتھوں کو دنيا سے چھپا رہی ہو انہيں ميں تھامے جانے والے قلم نے آج تمہيں نام اور مقام ديا ہے” اشاذ نے ايک نظر اسکے ہاتھوں کو ديکھا۔
اسی لمحے دروازے پہ دستک اور کچھ عجيب سا شور سنائ ديا۔
اشاذ فورا اٹھ کر دروازے کی جانب بڑھا ۔
دروازہ کھولتے ہی نجانے کتنے فوٹو گرافرز اور ميڈيا کے لوگ موجود تھے۔ وہ يکدم حيرت ذدہ رہ گيا۔
“جی تو ہم آپ کو بتا رہے تھے کہ اشاذ کا نيا اسکينڈل منظر عام پر آنے والا ہے۔ تو ان کی نئ گرل فرينڈ اس وقت انہی کے روم ميں موجود ہيں” بولنے والے کے الفاظ اشاذ کا دماغ گھوما گئے۔
يکدم اسے گريبان سے پکڑا۔۔
“کيا بکواس ہے يہ” وہ غصے کے باعث اس پر پل پڑا۔
“وہ ديکھئے۔ يہ ہيں مايہ ناز رائٹر ريم۔۔۔۔ جن کا معاشقہ آجکل اشاذ کے ساتھ عروج پر ہے۔
چند دن پہلے يہ ساحل سمندر پہ بھی موجود تھے۔ اور پرسوں رات جہاز ميں بھی اکٹھے محو سفر تھے۔۔ انکی بے تکلفی کی تصويريں جلد ہی منظر عام پر آئيں گی” بھانت بھانت کے رپورٹرزکھٹا کھٹ اشاذ کی اور اسکے پيچھے آنے والی ريم کی تصويريں بنا رہے تھے۔
رپورٹر کو چھوڑ کر يکدم اشاذ ريم کی جانب مڑا جو پھٹی پھٹی آنکھوں سے يہ سب سن اور ديکھ رہی تھی۔
“اپنا چہرہ کور کرو” اشاذ کی بات پر اس نے ميکانکی انداز ميں سر پر لئے دوپٹے سے چہرہ ڈھانپا۔
“تم سب کو اس بکواس کا جواب ميں بہت جلد دوں گا” اشاذ ريم کو اپنے بازو کے گھيرے ميں لئے بھيڑ توڑ کر نکلا۔ وہ جلد از جلد ريم کو يہاں سے ہٹانا چاہتا تھا۔ مگر بہت سے کيمروں نے اس کا چہرہ قيد کرليا تھا۔
“اشاذ آپ اپنا نيا اسکينڈل کيوں چھپانا چاہتے ہيں؟” رپورٹر اس پر سوالوں کی بوچھاڑ کررہے تھے۔ شور کی آواز سن کر ارم اور سميرہ کے ہمراہ اور بھی لوگ کاريڈور ميں موجود تھے۔ رپورٹرز کے اونچی اونچی بولنے والے سوال سب بڑے واضح انداز ميں سن رہے تھے۔
ارم اور سميرہ کو ديکھ کر اس نے بے جان ہوتی ريم کو انکی جانب دھکيلا۔
سيکيورٹی پہنچ چکی تھی۔ اشاذ فورا سے پيشتر سميرہ کے کمرے ميں گھسا جہاں ريم، ارم، اور سميرہ سميت اور بھی لوگ پہلے سے موجود تھے۔
اندار جاتے ہی سيکيورٹی نے رپوٹرز کا رستہ روک ديا۔
“يہ سب کيسے ہوا ہے” وہ اشتعال بھرے انداز ميں کريو کے بندون کو ديکھ کر بولا۔
“يہ ميڈيا۔۔ يہ رپورٹرز کس نے کيا کہہ کر اوپر بھيجے تھے۔” وہ چلا رہا تھا۔
ريم تو بس ساکت بيٹھی زمين پر غير مرئ نقطے کو گھور رہی تھی۔
سر کو دونوں ہاتھ ميں تھامے وہ بالوں ميں انگلياں پھنسائے ہوۓ تھا۔ يکدم کيا سے کيا ہوگيا۔
سب حيران اور پريشان تھے۔
“يہ سب بکواس کرکے کس نے ميڈيا کو اکٹھا کيا ہے؟” ارم بھی غصے سے بولی۔
سب خاموش تھے۔ جيسے سب کو سانپ سونگھ چکا تھا۔
“جس نے بھی يہ سب کيا ہے۔۔ ہے وہ آستين کا سانپ۔۔ اور جيسے ہی مجھے پتہ چل گيا مين اسے چھوڑوں گا نہيں” اشاذ کو اچھی طرح سمجھ آگئ تھی کے يہ کوئ سازش تھی۔
وہ جو کرتا تھا ڈنکے کی چوٹ پر کرتا تھا۔ مگر ريم کو يوں گھسيٹنا اسے کسی طور گوارا نہيں ہو رہا تھا۔
“رات کی بجاۓ اگلے گھنٹے کی ٹکٹس کرواؤ۔۔” اشاذ نے ارم کو ديکھ کر کہا۔ ايک نظر ساکت ريم پرڈالی۔ اس لمحے وہ اسے کچھ نہيں کہہ سکتا تھا۔
Rang Jaon Tere Rang by Ana Ilyas Episode 4
