اگلے دن وہی ہوا جس کا اشاذ کو ڈر تھا۔ اسکی اور ريم کی بہت سی تصويريں اخبارون کے پہلے صفحات پر اس ہيڈينگ کے ساتھ تھيں ” مايہ ناز ڈائريکٹر اشاذ اور لکھاری ريم ريليشن شپ ميں قيد” اور اس ريليشن شپ کا اس انڈسٹری مين کيا مطلب تھا اشاذ بہت اچھے سے جانتا تھا۔
ساحل پر بيٹھے نجانے کس نے انکی تصويريں بنائيں تھيں۔ اور يہی نہيں۔۔ جہاز مين انکے مختلف پوز۔۔ اسکے کان سے ہينڈ فری ليتا ہوا۔۔ اسکا موبائل ہاتھ مين تھامے۔۔۔ اسے مسکرا کر ديکھتا ہوا۔۔۔ اور پھر آخری ہوٹل کے کمرے ميں اسکی اور ريم کی دروازے کے فريم مين کھڑے تصوير۔۔
اگر شاکڈ اشاذ تھا تو ريم کا تو برا حال تھا۔
“يہ يہ کيا ہے؟” سلطانہ اخبارات کا پلندہ ہاتھ ميں لئے اسکے پاس آئيں۔ صبح سے نجانے کن کن رشتے دارون کے طنز ميں بجھے فون آچکے تھے۔ محلے والے الگ لعنت ملامت کررہے تھے۔
سلطانہ تو چکرا گئيں۔
“امی يہ سب غلط ہے ايسا کچھ نہيں۔۔ يہ اسکينڈل بنايا ہے” وہ تصويريں ديکھتے روتے ہوۓ بولی۔ کل کا غبار اس وقت نکل رہا تھا۔
“مجھے وضاحت دے دے گی۔۔ مگر پوری دنيا کو کيسے وضاحتيں دے گی۔ کون کون نہيں ہے جو ہم پر آج انگلیاں اٹھا رہا ہے۔۔ ريم تو نے ساری عزت مٹی ميں ملا دی۔” وہ رو رہی تھيں۔ غصے ميں ايک دو تھپڑ بھی اسے جڑ دئے۔
“تو تو۔۔ مر کيوں نہيں۔۔ جب سے پيدا ہوئ ہے مصيبت بنی ہوئ ہے ہمارے لئے” وہ چلا رہی تھيں۔
ريم انکے الفاظ سن کر مزيد شاک ميں آچکی تھی۔
کيا اس کا وہ گناہ جو اس نے کيا ہی نہين تھا اتنا بڑا تھا کہ اسکی ماں اسکی موت کی خواہاں بن گئ تھی۔
وہ سر پکڑ کر بيٹھی تھيں۔
شام تک انکے گھر ميں عجيب سوگواری تھی۔ فخر صاحب کا بھی گھر سے نکلنا محال تھا۔ لوگ اس قدر باتيں بنا رہے تھے۔
وہ تو غصے کے مارے ريم کے سامنے ہی نہيں آۓ۔
Rang Jaon Tere Rang by Ana Ilyas Episode 4
