Uncategorized

Shab E Gham Ki Seher by Zainab Khan Episode 4

وہ تھکا ہارا اپنے کمرے میں اوندھے منہ لیٹا تھا۔ کمبل کمر تک لیے، ایک ہاتھ سے کان میں لگاۓ ائیرپوڈز ٹھیک کرتا ہوا، کسی سے بات کررہا تھا۔  بلکہ تھکی ہاری آواز میں مسلسل کسی کو تسلیاں دے رہا تھا۔
“میں پچھلے ایک ہفتے بعد گھر میں، اپنے بستر پر آیا ہوں، یہ میرے لیے ایک جنت ہے اور صرف تمہارے لیے، میں پچھلے ایک ہفتے سے خوار ہورہا ہوں ، آگے بھی یہی سوچا ہے پھر بھی تم یہ بے اعتباری دکھارہی ہو؟۔۔۔میں کیا سمجھوں یہ سب؟” تھکی سی آواز میں وہ کہہ رہا تھا۔ غصہ یا تلخی اسکے لہجے میں نہیں تھی۔ بس ایک بے بسی بھری تھکن تھی۔ آنکھیں نیند سے بوجھل تھی، مگر دوسری طرف محبوبہ تھی۔ جس کے ہزار ہا شکوے تھے، شکایات تھیں۔۔جو ختم نہ ہو کے دے رہی تھیں۔
“میرے ساتھ یہ وکٹم کارڈ مت کھیلا کرو یار، ہم دونوں جتنے پارسا ہیں میں اچھے سے جانتا ہوں۔۔۔پیار میں اندھا ضرور ہوگیا ہوں مگر بے غیرت نہیں ہوں، اگر کہا ہے تم سے نکاح کروں گا تو کرکے رہوں گا، یقین کرسکتی ہو تو کرلو، نہیں تو ابھی اور اسی وقت کال بند کرو اور مجھے سونے دو۔” نیند سے بھری آواز میں اسنے کہا تھا۔ دوبارہ کچھ کہا گیا تو کہنی کے بل زرا کا زرا اٹھا، آنکھیں گھمائیں، جیسے غصہ ضبط کررہا ہو۔
“اوہ خدایا۔۔۔نیہا تم میرا دماغ خراب کررہی ہو، کل بات ہوگی۔ اللہ حافظ!” اور پھٹک سے فون بیڈ کی دوسری جانب اچھالا۔  غصے نے بند ہوتی آنکھوں سے نیند چھین لی تھی۔ چند پل اسنے آنکھیں بند کرکے سونے کی کوشش کی۔ مگر جلد ہی اسے احساس ہوگیا کہ نیہا اسے غصہ دلانے کے ساتھ ساتھ اسکی نیند بھی خراب کرچکی تھی۔ بڑبڑاتا ہوا اٹھا اور چپل پہن کے باہر نکل آیا۔ دونوں بھائیوں کی عادت تھی، رات کو نیند نہ آتی تو کچن میں آکر کچھ نہ کچھ کھانے کو ڈھونڈتے تھے۔ زلیخہ اور فرحت دونوں کی عادت کے پیشِ نظر کچھ نہ کچھ بنا کر فریج میں رکھ دیتیں۔ کمرے سے نکلتے ہی مکینکی انداز اسکے قدم کچن کی جانب اٹھے تھے۔ فریج سے کسٹرڈ والا باؤل نکال کر، سٹینڈ سے چمچ لیا اور دو تین چمچ بھر بھر کے منہ میں ڈالے۔ پھر باؤل کو  دوبارہ فریج میں رکھنے کا ارادہ ترک کرکے باہر نکل آیا۔ تھوڑا آگے آیا تھا کہ عارب نمیر کے کمرے سے نکلتا دکھائی دیا۔ چمچ باؤل میں رکھا، اور ایک ہاتھ جیب میں ڈال کر، پلر کے ساتھ ٹیک لگاۓ اسے دیکھنے لگا۔
“خیریت ہے جناب؟” بغیر مسکراۓ، پرتبسم چہرے کے ساتھ اسنے کہا تھا۔ عارب ایک پل کو چونکا، پھر مسکراتے ہوۓ اسکے قریب آیا اور باؤل سے چمچ اٹھا کر کسٹرڈ کے دو چمچ لگاۓ۔ معیز خاموش، پرسوچ نظروں سے اپنے بڑے بھائی کو دیکھتا رہا۔
“مجھے تم سے اچھی وائب کیوں نہیں آرہی عارب؟” آنکھیں سکیڑے، اسنے قدرے الجھن سے کہا تھا۔ عارب نے چمچ واپس رکھا ، اور اسکے کندھے پر تھپکی دی۔
“تمہیں آنی بھی نہیں چاہیے، آخر کل کو بلی کا بکرا بننے جارہے ہو۔” اسکے کندھوں سے شرٹ ٹھیک کرتے ہوۓ، نجانے وہ طنزیہ بولا تھا یا معنی خیزی سے۔
“کیا مطلب؟۔۔۔۔صاف اور سیدھے الفاظ میں کہو عارب، اندر کیا بات ہوئی ہے؟” وہ بے اختیار سیدھا ہوا تھا،عارب ہنس دیا۔
“یار جو نکاح پرسوں ہورہا تھا، وہ کل ہے۔ اسلئے کہہ رہا تھا، کل دس بجے بلی کا بکرا بننے جارہے ہو تم، تیاری پکڑو۔” بہت ہی عام لہجے میں اسنے مسکراتے ہوۓ کہا تھا۔ ایسے انداز میں جیسے اکثر بہن بھائی ایک دوسرے کو مذاق میں چھیڑتے رہتے ہیں۔ گوکہ عارب اس قدر باتونی تو نہ تھا مگر معیز بھائی تھا، اور وہ تو تھا بھی لاڈلا۔۔۔اسے وہ کیوں نہ ستاتا۔ کچھ دیر قبل والی سنجیدگی کسی قدر کم ہوچکی تھی۔
“کیا بکواس ہے یہ،جو چیز ایک دن مقرر کردی گئی ہے اسے آگے پیچھے کیوں کررہے ہو تم لوگ، اور کس نے کل نکاح کا شوشہ چھوڑا ہے؟” وہ ضبط کرتے ہوۓ غرارہا تھا۔ عارب ایک پل کو ٹھٹھک سا گیا۔
“تم دونوں جن بھی ہواؤں میں ہو نا معیز سیال، ان سے نکل آؤ۔۔۔۔کل نکاح ہے اور تمہاری بھلائی اسی میں ہے کہ کوئی بدمزگی پھیلاۓ بغیر جو کہا جاۓ کرو، ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔ تم لوگوں نے حد سے زیادہ ہمیں ہلکے میں لے لیا ہے۔”عارب سنجیدہ اسکے سامنے کھڑا، بے عزت کررہا تھا۔
“تم ایسا نہیں کرسکتے عارب، تم مجھ پر اپنی مرضی مسلط نہیں کرسکتے!” انگلی اٹھا کر، اسکی آنکھوں میں جھانکتے ہوۓ وہ بولا تھا۔۔عارب کو ایک دم طیش آیا۔
“یہ تم دونوں کی مرضی سے کیے جانے والا فیصلہ تھا بے غیرت انسان، مجھے مجبور مت کرو کہ تم دونوں سے تم دونوں کے طریقے سے پیش آؤں، جہاں جہاں عشق کی پتنگیں لڑارہے ہو، انہیں کاٹو اور عزت سے جو ہورہا ہے اسے قبول کرو!” عارب نے ایک ایک لفظ چبا کر کہا تھا۔ معیز ایک پل کو شرمندہ سا ہوا، پھر اس شرمندگی کی جگہ بڑی جلدی نیہا کا تصور ابھرا تو بے بسی، اور پھر بے بسی سے غصہ آیا تھا۔ فارغ ہاتھ اپنے چہرے پر پھیرا، تاکہ اندر امڈنے والا اشتعال قدرے ہوتا، پھر قدرے ضبط کیے ہوۓ انداز میں کہنا شروع کیا۔
“دیکھ لیتے ہیں عارب سیال، جو کچھ تم بھی کررہے ہو نا وہ بھی کسی کی نظروں سے چھپا ہوا نہیں ہے۔” دوبارہ انگلی اٹھائی۔ ” تمہارے یہ الفاظ میں کبھی نہیں بھولوں گا۔” کہہ کر وہ رکا نہیں تھا، ایک تیز نظر اس پر ڈال کر واپس مڑ گیا۔
“ معیز !” عارب نے پکارا۔ آواز تیز تھی، مگر تھی آہستہ۔۔اتنی کہ چند قدم کے فاصلے پر چلتا معیز سن سکتا۔ اندر بیٹھے وجود نہیں۔
“معیز ۔۔۔میں تمہیں وارن کررہا ہوں!” اسکے پیچھے دو تین قدم بڑھا کر اسنے دوبارہ کہا تھا۔ معیز اپنے کمرے کے دروازے کے قریب پہنچ چکا تھا۔ عارب کے الفاظ نے اسے سہی طرح مشتعل کر دیا تھا۔ مارے غصے کے چلایا۔
“مرجاؤ تم!” یہ کہہ کر وہ دروازہ کھول کر اندر گیا پھر کھٹاک سے بند بھی کردیا۔۔ عارب چند لمحے وہاں کھڑا اپنا غصہ ضبط کرتا رہا تھا، وہ ان دونوں کا رویہ سمجھنے سے قاصر تھا،اچانک ہی ان دونوں کے ٹریک بدلے تھے، یا وہ پہلے ہی اپنے اپنے راستے الگ کرچکے تھے،  وہ اندازہ نہ لگاپایا تھا۔  کئی لمحے چپ چاپ بند دروازے کو گھورتے رہنے کے بعد اسنے سرجھٹکا  اور باہر نکل آیا۔

Admin2

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like

Uncategorized

Yar Yaroon sy nah Hon Juda By Zainaib Khan

  Yar yaroon sy nah hn juda by Zainaib khan season 2 Episode(1_19)   . is a Classic, Urdu, Romantic,
Uncategorized

Dil dharky tery liye By Warda makkawi

dharky dil twry liye by Warda makkawi is a Classic, Urdu, Romantic, & Social Novel.  It was published online on