علی ولا سے خاموشی کے ساتھ رخصت ہوئے رافع صاحب نے کم بخت دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر تیسرے ہی دن اپنے والدین یحییٰ صاحب اور مسز یحییٰ کو علی ولا سوالی بناکر بھیج دیا تھا۔
ان کی غیر متوقع آمد اور اس کے پیچھے کا مقصد جان کر جہاں سب حیران ہوئے تھے وہیں خوش بھی تھے۔
کیونکہ یاسر صاحب کے دوست والا رشتہ بےشک اچھا تھا لیکن انجان لوگوں میں نشوہ جیسی چنچل لڑکی کیلئے ذرا سب ہی ہچکچا رہے تھے۔
لیکن رافع تو گھر کا بچہ تھا جس کا پورا بچپن علی ولا میں ہی گزرا تھا۔
یحییٰ صاحب دا ابو کے بہت اچھے دوست کے اکلوتے بیٹے تھے۔جن کا امپورٹ ایکسپورٹ کا بزنس تھا۔اور رافع ان کا اکلوتا بیٹا تھا۔جو احتشام کی موت کے بعد حشام کی مدد کیلئے احتشام کے پارٹنر کے ساتھ آفس دیکھ رہا تھا۔
حشام کی واپسی کے بعد رافع ریزائن کرنا چاہتا تھا۔لیکن حشام نے دوستی کا واسطہ دیکر کام سمجھنے تک اسے روک لیا تھا۔اور اب بہت جلد وہ واپس اپنے والد کا بزنس سنبهالنے کا ارادہ رکھتا تھا۔
اور پھر رافع کی پوری زندگی ان کے سامنے کھلی کتاب کی طرح تھی۔
دونوں رشتوں کا موازنہ کرنے پر ہر اعتبار سے رافع کا پلڑا بھاری تھا۔
دو دن برائے نام سوچنے کی مہلت لیکر رافع کو گرین سگنل دیا گیا تھا۔اور آج رافع کی تین افراد پر مشتمل فیملی علی ولا میں ڈنر پر مدعو تھی۔۔
خوشگوار ماحول میں ڈنر کیا گیا تھا۔
جس کے بعد بڑوں نے اپنی محفل علیحدہ کر لی تھی۔
اور نوجوان چاندنی میں نہائے گارڈن میں نکل آئے تھے۔لڑکیاں ایک جانب بیٹھی تھی ان کے مقابل لڑکے جلوہ افروز تھے۔
نوری ہمیشہ کی طرح حبہ سے چپک کر بیٹھی ثوبان کو چھیڑ رہی تھی۔اس کے ساتھ بیٹھی دیبا اور پرواز آپس میں مگن تھے۔ہمیشہ ہلا گلا کرنے والی نشوہ اچانک نازل ہوئی صورت حال پر ایسی بوکھلائی تھی کہ زبان ہی تالوں سے چپک گئی تھی۔
انور ہمیشہ کی طرح آج بھی خاموش تھا۔ایک ارسلان تھا جو حد سے زیادہ چہک رہا تھا۔رافع بیچارہ یوں بھی پیدائشی مظلوم تھا۔
“کیا یار، آپ لوگ سب منہ میں دہی جماکر بیٹھ گئے ہیں، کچھ پھوٹیں،اور موٹی تم، تم تو اب صدمہ سے باہر نکل آؤ،اب تو وکٹ گر چکی ہے،یوں بھی میری بدعاؤں نے کیا خوب اثر دکھایا ہے۔۔”
ارسلان سب کی خاموشی پر زچ ہوتا آخر میں نشوہ کو چڑانے کیلئے کالر اٹھا کر تفاخر سے بولا۔
جس پر نشوہ مٹھیاں بھینچ گئی تھی۔
“اتنا اترانے کی کیا ضرورت ہے، نکیل تو اب تمہیں کسنے والے ہیں سب لوگ، ،ماشاءالله سے بد دعاؤں نے تو ہماری بھی بہت اثر دکھایا ہے پرواز کی صورت۔۔”
دیبا نے پرواز کے گرد بازو پھیلاتے ہوئے ارسلان کو زبان چرائی تھا۔
“تمہیں ضرور بولنا ہوتا ہے جعلی ڈاکٹر۔۔؟”
ارسلان سب کی مسکراہٹ دیکھ دانت پیس کر بولا۔
“اور آپ کس خوشی میں اپنے خرگوش جیسے دانتوں کی نمائش کررہے ہیں شہزادے؟”
ارسلان کو اصل آگ اس ڈیڑھ فٹ کے دشمن کے چاندنی میں چمک رہے چاندی جیسے دانتوں کو دیکھ کر لگی تھی۔۔
“تمہاری شکل گھوڑی چڑھنے والی نہیں ہے،پھر بھی تم گھوڑی چڑھنے کا ارادہ رکھتے ہو اس غم میں میرے بیٹے کے دانت نکل رہے ہیں کوئی مسئلہ ہے تمہیں،ہے بھی تو ہمیں خاک پرواہ نہیں ہے۔۔”
حشام اپنے گود میں کھلکھلارہے ثوبان کی طرفداری کرتا بےنیازی سے بولا۔
جس پر حبہ نے غور سے ہلکی شیو کی وجہ سے مزید وجیہہ نظر آرہے اپنے روٹھے مجازی خدا کو دیکھا۔جن کی ناراضگی ہنوز برقرار تھی۔
“بھائی، بےعزتی تو نہیں کریں یار، اتنی پیاری شکل ہے،کم از کم نشوہ سے تو لاکھ گنا اچھی ہے۔۔”
ارسلان اپنے چہرے کو چھوتا منہ بسور کر بولا۔
“گھوڑے جیسے بالوں کو سنوارتے ہوئے کبھی فرصت سے شکل بھی دیکھ لو، کچھ نہیں خوش فہمی ہی دور ہوجائے گی۔۔”
نشوہ کہاں ادھار رکھنے والوں میں سے تھی۔
اس کی برجستہ جوابی کاروائی پر سب کا قہقہہ پڑا تھا۔
“اپنے منہ میاں مٹھو۔۔”
دیبا نے بھی تائیدکی۔
“کہہ لو کہہ بیٹا، میرا ٹائم بھی آرہا ہے،اگر جو میں نے تم دو چڑیلوں کی لیپا پوتی والی وڈیو، ہش ٹیگ ڈینٹینگ پینٹینگ کے ساتھ وائرل نہیں کی تو میرا نام بدل دینا۔۔”
ارسلان اپنی جگہ کھڑا ہوتا انگلی اٹھاکر بولا۔۔
“بصد شوق،ہم بھی تمہاری سلون والی ویڈیو وائرل کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگائیں گے۔۔”
نشوہ فوراً دل جلانے والی مسکراہٹ کے بعد بولی۔
“بیٹا، میں تو سلون ہی گیا تھا تم لوگ تو شادی پر پوری میک کی ایک پرت چڑھالیتی ہو، ورنہ یہ شکل اور شکر توبہ توبہ۔۔”
ارسلان نے فوراً کانوں کو ہاتھ لگائے تھے۔
“ایسے تو نہیں کہیں بھائی، اتنی پیاری ہے نشوہ اپيا۔۔” نوری تڑپ کر ٹوک گئی تھی۔
آخر کو اس نے اپنے مزاج کے مطابق چنچل سی نشوہ کی شاگردی اختیار کی ہوئی تھی۔۔
“ان چڑیلوں کو چھوڑیں کیوٹ بھابھی جی، مجھے تو بس آپ پیاری لگتی ہیں،کیوں انور بھائی ہے ناں ہماری لٹل بھابھی پیاری۔۔؟”
اچانک گهسیٹے جانے پر بیچارہ انور بوکھلا کر کھڑا ہوگیا تھا۔جس پر سب نے مسکراہٹ ضبط کی تھی۔۔
“مم۔۔میرے سر میں درد ہے میں آرام کرنے جارہا ہوں۔۔”
انور پیشانی مسلتا فوراً سے پہلے وہاں سے روانہ ہوا تھا۔حشام بھی کوئی کال سننے سائیڈپر چلا گیا تھا۔
احان تو یوں بھی موجود نہیں تھا۔
“لو یہ تو شرما گئے۔۔”
ارسلان نے اپنا سرکھجایا۔۔
“تم بےشرم ہوتو ضروری ہے کیا پوری دنیا کا بےشرم ہونا؟” نشوہ حیا سے گلال ہوئی نوری کو لئے وہاں سے نکلی تھی۔ساتھ باقی سب بھی نکل گئے تھے۔اب وہاں صرف رافع اور ارسلان بچے تھے۔
رافع موقع غنیمت جان کر وہاں سے نکلنے ہی لگا تھا کہ ارسلان شریر مسکراہٹ کے ساتھ راہ میں حائل ہوا۔۔
“اب زرا تفصیل میں جاكر بتائیں رافع صاحب، کہ یہ سب کیا چکر ہے؟”
رافع برا پهسا تھا۔
“کک۔۔کیا سب؟”
رافع انجان ہوا۔
“یہی رافع صاحب، جو آپ نے شعر کے بول کو حقیقت میں ڈھالا ہے۔مطلب۔۔۔
لوگ ڈرتے ہیں قاتل کی پرچھائی سے
ہم نے قاتل کے دل میں بھی گھر کر لیا۔
ارسلان کے معنیٰ خیز انداز پر رافع بیچارہ خود کو کوس کر رہ گیا تھا۔
“تت۔۔تم غلط سمجھ رہے ہو، ایسا کچھ نہیں ہے،یہ رشتہ سراسر مما بابا کی خواہش ہے،ت۔۔تو تم میرے چکر کاٹنا بند کرو یار، اچھے خاصے بندے کا کانفڈینٹ ڈاؤن کردیتے ہو۔۔۔”
رافع ارسلان کی معنٰی خیز مسکراہٹ اور محور پر گھومنے سے اچھا خاصہ کنفیوژ ہوگیا تھا۔
“مما بابا کا فرمابردار بچہ، آپ کی شکل مبارک تو کوئی اور راز ہی افشاں کر رہی ہے،لیکن خیر ہے، ہم آپ کی سعادت مندی پر فل حال ایمان لے آتے ہیں، بعد کی خیر ہے۔۔”
ارسلان رافع کے کندھے پر ہاتھ رکھتا احسان کرنے کے انداز میں بولا۔
“مہربانی آپ کی جناب۔۔”
جان بچی سو لاکھوں پائیں کے مصداق رافع ہاتھ جوڑ کر شکریہ ادا کرتا اندر کی طرف بڑھا تھا۔اس کے پیچھے ہی ارسلان بھی حال میں داخل ہوا تھا۔
جہاں سب خوش گپیوں میں مصروف تھے۔کیونکہ سب کی باہمی مشاورت سے اگلے مہینے کی تاریخ ارسلان کی شادی اور نشوہ کی منگنی کیلئے طے پاگئی تھی۔
ⓝⓞⓥⓔⓛ ⓑⓨ ⓙ ⓝⓘⓚⓗⓐⓣ