پارٹی اپنے عروج پر تھی۔ شور و غل، قہقہے، مرد وخواتین سے بھرا خوبصورت لان الگ الگ چہروں سے جگمگا رہا تھا۔ جمیل سمیت اس کا پورا اسٹاف ایک طرف تھا۔ آج اسے ابراز نے تاکید کی تھی وہ اس کے آس پاس بھی نظر نہ آئے کیونکہ یہاں اس کے اپنے لوگ ہیں جن سے اسے کوئی خطرہ نہیں ہے۔۔
سیاست دان بھی عجیب ہوتے ہیں، دو چہرے والے، عوام کے سامنے کچھ اور ہوتے ہیں اور اپنے لوگوں میں کچھ اور چہرہ لیے ہوتے ہیں۔۔
میوزک کی آواز اور شور و غل سے بیزار ہوتی وہ ایک طرف نکلنے لگی جب چلتے چلتے اچانک ساکت رہ گئی۔ اس کا ہاتھ کسی کے ہاتھوں میں تھا۔ اس کے چہرے کے تاثرات فوراً سخت ہو گئے اور اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ پیچھے مڑ کر ایک زوردار تھپڑ چہرے پر رسید کر دیا۔۔
تھپڑ کی گونج اتنی زیادہ تھی کہ ہر طرف سناٹا چھا گیا۔ میوزک کی آواز تھم گئی جو جہاں تھا وہیں ساکت رہ گیا۔ اس لڑکی کی جرات پر جہاں کچھ لوگ حیران تھے وہیں کچھ باتیں بنانے میں مصروف تھے۔۔
“ہاتھ چھوڑو ورنہ ہاتھ توڑ سکتی ہوں۔۔!!”اس کے لہجے کی سختی پر سامنے کھڑا شخص پہلے حیران ہوا پھر غصے سے چور اس کی طرف دیکھا۔۔
وہ کوئی اور نہیں بلکہ انہیں کی پارٹی سے تھا۔ دو بار منسٹر رہ چکا تھا اس لیے اس کی ساکھ کافی مضبوط تھی۔ اس نے اسی ہفتے سنا تو تھا کہ ابراز میر لغاری نے کسی پرسنل باڈی گارڈ کو ہائیر کیا ہے۔ آج اسے دیکھ کر وہ اپنی حوس بھری نظروں کو سکون دینے کے لئے اس کا ہاتھ تھام لیا تھا لیکن چند پل میں ہی اس نے آنکھوں کے سامنے اندھیرا کر دیا تھا۔ بھری پارٹی میں تھپڑ کھانا وہ بھی ایک نوکر لڑکی سے اس کے شان کے خلاف تھا۔۔
“دو ٹکے کی اوقات والی تمہاری اتنی ہمت کہ مجھے تم تھپڑ مارو، ابھی تو میں نے صرف تمہارا ہاتھ پکڑا تھا لیکن تمہاری اوقات میرے قدموں میں لگی دھول کے برابر بھی نہیں ہے۔۔!!” غصے سے چیختے ہوئے وہ اپنا دوسرا ہاتھ تھپڑ مارنے کے لئے اٹھایا تھا کہ اس سے پہلے ہی زرگون نے گھوم کر ایک لات اس کے پیروں پر ماری جس سے وہ منہ کے بل فرش پر گر پڑا۔۔
جھگڑا بڑھتے ہوئے دیکھ کر ابراز بھاگ کر ان دونوں کے درمیان آیا۔ اپنی پیشانی سے نکلتے ہوئے خون کو صاف کرتے وہ گالی دیتا اس پر جھپٹا تھا لیکن درمیان میں ابراز کھڑا زرگون کو دیکھ رہا تھا۔ آج پہلی بار اس کے چہرے کے تاثرات میں فرق محسوس کیا تھا۔۔
“تمہاری ساری منسٹری میں نکال لوں گی، تم نے میرے باپ کو گالی کیسے دی، آج میں تمہارا منہ توڑ دوں گی جاہل منسٹر۔۔!!” وہ ابراز کو اپنے سامنے دیکھ کر غصے کو قابو کرنے لگی تھی جب اس منسٹر کے منہ سے گالی سن کر آپے سے باہر ہو گئی۔۔
وہ اس کا منہ سچ میں توڑ دیتی اگر ابراز اس کے دونوں ہاتھوں کو قابو نہ کر لیتا۔ پہلی بار اسے اتنے غصے میں دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اس کے ہاتھ پکڑ لینے پر وہ پرزور مزاحمت کرتی اب اپنے پیروں سے وار کرنا چاہتی تھی۔۔
“میرا نام بھی سراج ہے اور پوری دنیا جانتی ہے کہ سراج سے دشمنی بہت مہنگی پڑ سکتی ہے۔۔!!” اس کے منہ سے اپنے لئے دھمکی سن کر بھی اس کا غصہ کم نہیں ہو رہا تھا۔۔
اس کے اشارے پر جمیل اس منسٹر کو لے جانے لگا لیکن منسٹر بھی شاید غصے میں تھا اس لیے وہ بھی اسے مارنے کے لئے اپنے ہاتھوں کو چھڑوا رہا تھا جبکہ اب زرگون کے سرخ چہرہ اور بےقابو ہوتے ہاتھ پیر کو دیکھ کر پہلی بار ابراز اپنی حد سے باہر نکلا تھا۔ اسے پیچھے سے ابراز نے کافی سختی سے تھامے ہوئے اندر لے جانے لگا جبکہ وہ چیختی چلاتی اپنا غصہ ظاہر کرنے لگی۔۔
“چھوڑیں مجھے آج میں نے اس کا منہ نہ توڑ دیا تو میرا نام بھی زرگون نہیں، سمجھتا کیا ہے خود کو گندا آدمی۔۔!!” وہ اس سے اپنا آپ چھڑانے کی کوشش میں ہلکان تھی جبکہ ابراز لبوں کو بھینچ کر اسے لیے ہی اندر داخل ہوا۔۔
اگر اس کی جگہ کوئی عام شخص ہوتا تو وہ اس کے اس طرح بےقابو ہونے پر کبھی تھام نہ پاتا جبکہ وہ اس سے فاصلے رکھنے کی کوشش میں ہلکان تھا کیونکہ وہ اس کے دونوں بازوؤں کو اپنے گرد سے ہٹا رہی تھی۔۔
“چپ بالکل چپ، دماغ خراب ہو گیا ہے کیا تمہارا۔۔؟ جانتی بھی ہو اس شخص کے بارے میں؟ کم عقل لڑکی ہر مسلہ مار پیٹ سے کبھی حل نہیں ہوتا۔۔!!”اس کو صوفے پر پھینکنے کے انداز میں پٹک کر خود دھاڑ اٹھا تھا۔ اس کے کچھ بولنے کے لئے لب کھلے تو کھلے ہی رہ گئے۔ اپنے اعصاب کو قابو کر کے ایک لمبی سانس لیتے ہوئے اس کی طرف متوجہ ہوئی جو غصے سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔
“تو کیا اس نے جو کیا وہ ٹھیک تھا۔۔؟ اس کی ہمت کیسے ہوئی میرا ہاتھ پکڑنے کی اور اس نے گالی کیوں دی۔۔؟ کیوں ہر لڑکی ہی مردوں کو کھیلنے کا سامان لگتی ہے۔۔؟” وہ جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ چہرہ غصے سے سرخ ہو رہا تھا جبکہ آنکھوں میں نمی تیرتی محسوس ہوئی۔ ابراز کا دل تیزی سے دھڑکا تھا۔۔
“وہ بہت ہی بیکار شخص ہے۔ سطح سے اترا ہوا اور تم نے اسی سے پنگا لے لیا۔۔!!” وہ اس کے لئے پریشان تھا اور اس کے لہجے سے اس کی پریشانی عیاں تھی۔پہلی بار وہ اسے تم کہہ کر مخاطب ہوا تھا اور بہت سی اپنائیت سے جس کا احساس ابھی ان دونوں کو ہی نہیں تھا۔۔
پانچ منٹ کی خاموشی کے بعد اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ سیاست کے میدان میں نہ دوستی اچھی ہوتی ہے اور نہ زیادہ دشمنی، اسے یہ بات بخوبی معلوم تھی اس لئے خود کو پرسکون رکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ ابراز رخ موڑے خاموشی سے کھڑا کچھ سوچ رہا تھا۔۔
“معافی سر، وہ بڑے آدمی ہے غلطی کر سکتے ہیں لیکن ہم جیسے چھوٹے لوگوں کو غلطی کرنے اور نہ اسے سدھارنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ میں ان سے معافی مانگ لیتی ہوں۔۔!!” اس کے چہرے کی سنجیدگی نے ایک بار پھر اسے مڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔۔
“آپ یہیں رہیں، کوئی ضرورت نہیں ہے اس شخص سے معافی مانگنے کی، میں دیکھتا ہوں۔۔!!” وہ ایک نظر اس پر ڈال کر خود باہر نکل گیا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ وہ شخص اتنی آسانی سے ماننے والوں میں سے نہیں ہے اور نجانے کیوں وہ اسے دوبارہ اس شخص کے سامنے نہیں لے جانا چاہتا تھا۔۔
٭٭٭٭٭٭
Tamseel Episode 5

Pages: 1 2