Uncategorized

Tera Ishq Mera Junoon by ST Episode 18


“تو تمہارے حصے کی محبت بھی میں تم سے کر لوں گا اور اس کمی کو اپنی محبت سے کامل کر دوں گا۔”
ازمیر کی بات پہ بے ساختہ رباب کی نگاہیں اس کی نگاہوں سے ٹکرائیں، اس لمحے وہ اسے کسی دیوانے سے کم نہیں لگ رہا تھا۔۔وہ رباب کی آنکھوں میں اس وقت بے یقینی سی جھانک رہی تھی کہ پھر نگاہیں ہٹانا ہی بھول گئی۔
“ایک پارٹنر محبت کرنے لگے تو کہاں لکھا ہے دوسرے پہ بھی محبت واجب ہو جاتی ہے۔۔ہاں تم پہ فرض ہے کہ اس محبت کو سنبھال کے رکھو اسے سمیٹ لو۔۔میرے لیے اتنا ہی بہت ہے۔۔ویسے میں تمہاری نفرت کے ساتھ بھی جینے کو تیار ہوں۔۔یوں ہمارے رشتے کو نظر بھی نہیں لگے گی ورنہ عموماً دو پارٹنرز کی خوشحال زندگی لوگوں سے کہاں برداشت ہوتی ہے۔”
رباب مبین جو کہ اب تک خود کو ایک عام سی لڑکی سمجھتی آئی تھی، جس کی زندگی بھی عام لڑکیوں کی طرح والد کی موت کے بعد اپنوں کی نفرتوں کی نظر ہو جاتی ہے، آج قسمت اس قدر مہربان تھی، کوئی اپنی بے دریغ محبتیں اس پہ نچھاور کرنے کو اس قدر تیار تھا، یہ بات اس کے لیے خاصی حیران کن تھی۔
لمحہ بھر کو تو اسے گمان ہونے لگا جیسے وہ کسی فیری ٹیل کا حصہ ہو۔۔جہاں اتنی تکلیفوں کو جھیلنے کے بعد کوئی اسے اپنے دل میں سنبھال کر رکھنے کی ٹھان چکا ہو۔
“ازمیر کہہ دیں کہ یہ سب جھوٹ ہے۔”
وہ بے خیالی میں اس پہ نگاہیں گاڑھے ہوئے بول گئی۔
“یقین کر لو سویٹ ہارٹ! کیونکہ اب سے یہی ہماری زندگی کی خوبصورت حقیقت ہے اور اگر تمہیں مجھ پہ یقین نہیں ہے تو آنے والا وقت ثابت کرے گا۔”
ازمیر نے ٹرانس کی صورت کھڑی رباب کا ہاتھ پھر سے تھاما اور محبت پاش نگاہوں سے تکتے ہوئے گویا ہوا۔
“میں جانتا تھا تم یقین نہیں کرو گی اس لیے تمہیں وقت دے رہا ہوں کہ تم یقین کی سیڑھی پہ قدم رکھ سکو۔۔میری محبت کبھی میرے لفظوں کی محتاج ہی نہ رہے۔”
ازمیر کا لہجہ محبت سے لبریز تھا اور رباب اب بھی ٹرانس کی صورت کھڑی اسے یک ٹک دیکھ رہی تھی۔
“کتنا وقت۔۔۔؟”
رباب کے سوال پہ ازمیر کے لبوں کو مسکراہٹ نے چھوا۔۔اسے لگا وہ یقین اور بے یقینی کے درمیان جھول رہی ہے۔
“تمام عمر۔۔۔! اپنی ساری زندگی تمہارے نام کر چکا ہوں تو مطلب آخری سانس تک کا وقت دیتا ہوں۔۔کوئی زبردستی نہیں ہے رباب! تم اب سے اپنے ہر فیصلے میں آزاد ہو۔۔اب تک تم جیسے اپنی زندگی گزارنے کی خواہاں تھی، اب سے تم ویسے ہی اپنی زندگی جیو گی۔۔میں سب کچھ ہینڈل کر لوں گا۔”
ازمیر کی بات پہ فوراً سے اپنا رخ پھیر گئی۔ کیونکہ اتنی جلدی وہ اس کی دیوانگی کا حصہ نہیں بننا چاہتی تھی۔
“اب چلیں۔۔ لنچ ٹائم بھی ہونے والا ہے اور مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے۔”
ازمیر نے اس کی مشکل آسان کرتے ہوئے دروازے کی سمت ہاتھ بڑھاتے چلنے کا اشارہ کیا تو وہ خاموشی سے سر جھکائے، انیکسی سے نکل کر بنگلے کی جانب چل دی۔
“کمرے میں چلو۔۔پہلے ایک ضروری کام کر لیں۔”
لاونج میں قدم رکھتے ہی ازمیر نے سرگوشی کی تو رباب اس کی خاموشی پہ چونک سی گئی۔
“کک۔۔۔کونسا کام؟”
رباب کا دماغ اب تک اس کی باتوں میں ہی الجھا تھا اور اب اس طرح اس کا رازداری میں بات کرنا رباب کو کھٹکا۔ وہ ہکلاتے ہوئے سوال کر گئی۔
“چلو تو۔۔سب بتاتا ہوں۔”
ازمیر نے کمرے کی سمت اشارہ کرتے ہوئے خود آگے کی جانب قدم بڑھائے۔
رباب بھی مرے مرے قدموں سے اس کے پیچھے آ گئی جبکہ دماغ اس بات میں ہی اٹکا تھا کہ نجانے اب ازمیر کو اس سے کون سا ضروری کام تھا۔
وہ جیسے ہی کمرے میں پہنچی تو ازمیر نے اس کے پیچھے دروازہ لاکڈ کر دیا۔
“دروازہ لاک کیوں کیا؟”
رباب کے گلے کی گلٹی اس کی اس حرکت پہ ابھر کے معدوم ہوئی۔
“ریلیکس ہو جاؤ یار۔۔۔تمہارا شوہر ہوں اب۔۔کھا نہیں جاؤں گا۔۔صوفے پہ بیٹھو، سب بتاتا ہوں۔”
ازمیر اسے کی نگاہوں کی الجھن کو بھانپتے ہی رسان سے بولا اور پھر ساکت کھڑی رباب کو صوفے پہ لا بٹھایا۔
تھوڑی ہی دیر میں وہ ڈرار سے فرسٹ ایڈ باکس نکال کر لے آیا تھا، تب تک رباب کی سانسیں حلق میں ہی اٹکی رہیں۔
ازمیر جیسے ہی اسکے پاس بیٹھا تو وہ ہونقوں کی طرح اس کا منہ تکنے لگی جو فرسٹ ایڈ باکس لیے جانے کیا کرنے والا تھا۔
ازمیر نے اس کے دایاں ہاتھ تھاما تو وہ پھدک کے زرا پیچھے کو تو ہوئی ہی تھی، ساتھ ہی اپنا ہاتھ چھڑاتی اب اسے دیکھ رہی تھی۔
“افففف خدایا! یقین رکھو! بھوک ضرور محسوس ہو رہی ہے مگر انسان نہیں کھاتا ہوں۔”
ازمیر نے اس کا ہاتھ پھر سے پکڑا کر کھینچا تو وہ واپس اپنی جگہ پہ موجود شرمندہ نظروں سے اب چپ چاپ اس کی کاروائی دیکھ رہی تھی۔
ازمیر نے روئی پہ پایوڈین لگاتے ہی اس کی ہتھیلی پہ رکھ دی اور اب اس کے اوپر پٹی کرنے لگا۔
“ازمیر آخر یہ سب کیا ہے؟ مجھے کوئی زخم نہیں ہوا پھر اس مرہم پٹی کی وجہ؟”
رباب بھی یہ سب ہوتا دیکھ زیادہ دیر تک چپ نہ بیٹھ سکی اور اب جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتی اسے دیکھ رہی تھی کہ وہ فوراً اس کی بات کا جواب دے کہ آخر اس بے تکی حرکت کا اب کیا مقصد ہے۔
“مستقبل میں لگنے والی چوٹ سے بچانے کا انتظام کر رہا ہوں۔”
ازمیر نے پٹی کرتے ہی ہاتھ جھاڑتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
“اب اس کا کیا مطلب ہے؟”
رباب نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔
ازمیر اس کی بات کا جواب دیے بنا اٹھا۔ فرسٹ ایڈ باکس کو واپس اپنی جگہ پہ رکھا اور واش روم میں گھس گیا۔ رباب جواب کی منتظر اسی کی راہ تک رہی تھی۔
“چلو باہر چلتے ہیں، تمہیں جلد ہی تمہاری بات کا جواب بھی مل جائے گا۔”
وہ ہاتھ دھو کر باہر نکلا تو اسے اٹھنے کا اشارہ کیا۔
اب کی بار وہ خاموشی سے اسکی پیروی میں چلنے لگی لیکن دماغ میں ابھی تک وہی سوال تھا اور نگاہیں دائیں ہاتھ پہ بندھی پٹی پہ گڑھی تھیں۔
وہ جیسے ہی باہر آئے تو لاونج میں بلقیس بیگم سے سامنا ہو گیا۔
“بوا۔۔؟”
ان دونوں کو آتا دیکھ کر انہوں نے فوراً سے بوا کو آواز دے ڈالی۔
“جی بیگم صاحبہ۔۔”
بوا کچن سے اس طرف آتیں ان کے سامنے کھڑی تھیں۔
“اب سے دھونے والے کپڑے لانڈری نہیں جائیں گے بلکہ رباب سب کے کپڑے دھوئے گی۔ سب کے دھونے والے کپڑے اکٹھے کریں تاکہ یہ آج سے ہی اپنے کام پہ لگ جائے۔”
بلقیس بیگم نے مسکراہٹ کے ساتھ رباب کو دیکھتے ہوئے بوا کو حکم جاری کیا تو وہ ایک نظر رباب کو دیکھ کر سر اثبات میں ہلاتیں، وہاں سے چلی گئیں۔
جبکہ ازمیر اور رباب کی نگاہیں یکبارگی ٹکرائیں اور رباب سمجھ چکی تھی کہ ازمیر نے اس کے ہاتھ پہ بنا زخم کے پٹی کیوں لگائی تھی۔
“کس کو کام پہ لگانے کی بات ہو رہی ہے؟”
فری بھی لاونج میں داخل ہوتے ہی مام سے پوچھنے لگی۔
“تمہاری بھابھی رباب صاحبہ اب سے سب کے کپڑے دھوئیں گی۔”
بلقیس نے اسی خوشی کے ساتھ فری کی معلومات میں اضافہ کیا۔
فری نے صوفے کے پاس کھڑی رباب کو ایک نظر دیکھا اور پھر مام کو دیکھ کر نفی میں سر ہلایا جیسے کہہ رہی ہو کہ مام نہ کریں ایسے۔۔
“یہ ضرور دھوتی کپڑے لیکن اس کے ہاتھ پہ چوٹ لگی ہے، فی الحال کپڑے لانڈری ہی بھجوائیں جب تک اس کے ہاتھ کا زخم ٹھیک نہیں ہو جاتا۔”
ازمیر، رباب کو نظر انداز کرتے ہوئے، سرد تاثرات کے ساتھ صوفے پہ جا بیٹھا۔

Faryal Khan

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like

Uncategorized

Howto Determine Gallbladder Disease

17 Symptoms of Gallbladder Disease Ordering an composition is speedy and straightforward. Thus, you’ll get an essay which is totally
Uncategorized

Yar Yaroon sy nah Hon Juda By Zainaib Khan

  Yar yaroon sy nah hn juda by Zainaib khan season 2 Episode(1_19)   . is a Classic, Urdu, Romantic,