Uncategorized

Tera Ishq Mera Junoon by ST Episode 18

“رباب۔۔۔جلدی سے تیار ہو جاؤ۔ ہم باہر کھانے کے لیے جا رہے ہیں۔”
ازمیر نے اپنے کمرے میں قدم رکھتے ہی پرجوش انداز میں کہا۔
وہ خوش تھا کہ کم از کم اب اسے یہ ایکٹنگ نہیں کرنی پڑے گی۔
رباب جو صوفے کی پشت پہ سر گرائے بیٹھی تھی، ازمیر کی آواز پہ سیدھی ہو بیٹھی۔
“آپ کو میری یاد کیسے آ گئی؟ آپ جائیں آرام سے کھانا کھائیں۔۔میرا کیا ہے، نہیں بھی کھاؤں گی تو بھوکی مر نہیں جاؤں گی۔”
اس کا انداز خالصتاً بیویوں سا ناراضی سموئے ہوئے تھا۔
اس کا یوں شکوہ کرنا بھی ازمیر کو بھایا تھا کہ یہ انداز اس کے دل میں ایک امید جگا گیا تھا۔۔محبت کی امید۔۔اس کے دائمی ساتھ کی امید!
اس نے سوچا کہ رباب کے دل میں محبت پیدا نہ بھی ہوئی تو شاید اسے ازمیر کے ساتھ کی ہی عادت ہو جائے۔۔جبھی اس کے لبوں کو ایک خوبصورت مسکراہٹ نے چھوا۔
وہ مسکراتا کم تھا کیونکہ وہ جانتا تھا اس کی مسکراہٹ جان لیوا ہے اور اب رباب کو بھی اس کا یوں مسکرانا متوجہ کر گیا تھا۔ وہ انہماک سے اس کھڑوس کی مسکراہٹ کو دیکھے گئی۔
“تمہیں لگتا ہے کہ میں تم سے غافل تھا؟ میں سب کے ساتھ کھانے کی میز پہ موجود ضرور تھا لیکن میرا ارادہ تھا کہ آج تمہیں باہر کھانا کھلانے لے چلوں گا، اس لیے میں نے اس وقت فری کے سامنے کوئی بات نہیں کی اور اپنے کٹھور پن کا ثبوت دیا تاکہ وہ مام کو بتا سکے ایک کمرے میں رہتے ہوئے بھی ہمارے درمیان کس قدر کشیدگی ہے اور جانتی ہو میری وہ ٹرک کام کر گئی۔
فری نے تو غصے میں آ کر بابا کے سامنے ماما کی اور میری شکایت ہی لگا دی۔
پھر انہوں نے ہم دونوں کو ڈانٹ دیا اور مجھ سے کہا کہ میں تمہیں لنچ کے لیے باہر لے جاؤں۔
میں بہت خوش ہوں کہ اب ہمیں مزید ایکٹنگ نہیں کرنی پڑے گی بلکہ میں اپنی بیوی کا خیال رکھ سکتا ہوں، بنا کسی کی پروا کیے۔۔
تو چلو اب تیار ہو جاؤ، پھر نکلتے ہیں۔”
ازمیر نے اس کے پاس بیٹھتے ہی اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے تمام بات بتا ڈالی اور یہ بھی واضح کر دیا کہ وہ بالکل بھی نہیں بدلا بلکہ یہ سب رباب کے لیے ہی کر رہا تھا۔
اور رباب کو آج ہی حیرت کا دوسرا جھٹکا بھی لگا تھا، صبح ازمیر کے انکشافات اور اب یک دم سے ماموں کا یوں بدل جانا اس کی سمجھ سے بالاتر تھا۔
اسے لگ رہا تھا کہ شاید سب مل کر اسے بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
“مجھے سچ میں بھوک نہیں ہے ازمیر! پھر کبھی چلیں گے۔”
رباب نے پھیکا سا مسکراتے ہوئے باہر جانے سے انکار کر دیا۔
“اچھا مگر ابھی کچھ دیر پہلے تک تو تم روایتی بیویوں کی طرح اپنے شوہر سے اکیلے کھانا کھانے پہ اچھا خاصا شکوہ کر رہی تھیں، پھر اب کیا ہوا بیوی صاحبہ؟”
ازمیر اس کے پاس بیٹھتا ابرو اچکاتے اسے اپنی بات سے خفت زدہ کر گیا۔
“مذاق کر رہی تھی میں۔۔جائیں آپ۔”
وہ دھیمی آواز میں منمنائی۔
“مگر میں مذاق بالکل نہیں کر رہا۔۔اب اٹھ رہی ہو یا تمہاری شرط کو فراموش کرتے ہوئے میں تمہیں اپنے طریقے اور مرضی سے اٹھاؤں۔”
ازمیر کی مسکراہٹ اور معنی خیز بات تو اس کی جان ہوا کر گئی۔
وہ فوراً اپنی نشست چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی مگر زبان تو یوں تھی جیسے ازمیر کی گوہر افشانی پہ تالو سے چپک گئی ہو۔
ازمیر کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی، جیسا اس نے سوچا تھا بالکل ویسا ہی ہوا تھا۔
“ویسے ایک اور خوشخبری بھی ہے تمہارے لیے۔۔۔بابا کہہ رہے تھے کہ میں تمہیں ہنی مون کے لے جاؤں تاکہ ہم ایک ساتھ کچھ وقت گزار کر ایک دوسرے کو سمجھ سکیں اور اس رشتے کو دل سے قبول کر سکیں۔”
ازمیر نے اس کے روبرو کھڑے ہوتے ایک اور بم پھوڑا۔
“لیکن ابھی ہمارا رشتہ اس نوعیت کا نہیں ہے کہ ہم ہنی مون۔۔۔۔”
رباب نے نظریں جھکاتے ہی اپنی بات کو ادھورا چھوڑ دیا، مگر وہ جانتی تھی ازمیر سمجھ جائے گا۔
“ارے بیوقوف لڑکی! اب میں کھانے کی میز پہ سب کے درمیان انہیں اپنے رشتے کی وضاحت دینے سے تو رہا۔۔اس لیے میں نے حامی بھر لی تھی، جگہ تم ڈیسائید کر لو۔”
ازمیر نے بھنویں سکیڑے ہوئے اس کی کم عقلی پہ ماتم کرنا چاہا۔
“کیا کہا؟ بےوقوف۔۔۔! تو جائیں کسی عقلمند سے شادی کر لیں اور اسے ہی ہنی مون کے لیے بھی لے جائیے گا۔”
رباب تنک کر بولی۔
“پہلا حق تو پہلی بیوی کا ہی ہوتا ہے، پہلے تمہیں لے جاتا ہوں پھر واپسی پہ اس بارے میں بھی کچھ سوچتے ہیں، فی الحال تم مجھے بتاؤ کہاں جانا پسند کرو گی؟”
ازمیر نے بھی اسی ٹون میں جواب دیا۔
“کوئی بہانہ بھی تو بنایا جا سکتا تھا نا، میں نے کب کہا آپ انہیں ہر بات کی تفصیل پیش کریں۔”
رباب نے خفت مٹانے کی خاطر منہ بسورے ہوئے آنکھوں کو گھماتے ہوئے تیز تیز کہا۔
“اب نہیں بنا سکا نا، ان کی ہنی مون کی بات پہ اتنا خوش ہوا کہ بس اپنی کھڑوس بیوی کے بارے میں بھول ہی گیا کہ اسے یہ چونچلے پسند نہیں ہوں گے۔”
ازمیر نے بھی مسکراہٹ دبائے، سر کو ہلاتے ہوئے تیز تیز کہا۔
“کیا کیا کیا کھڑوس میں ہوں یا آپ؟”
رباب نے کمر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے اسے گھورا جیسے اس میں وہ پرانی رباب پھر سے لوٹ آؤ ہو۔
“بس تم جگہ طے کر لو، پھر بے شک وہاں بھی محاز کھول کے بیٹھ جانا، لیکن دنیا کی نظر میں تو ہنی مون ہو جائے گا

Faryal Khan

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like

Uncategorized

Howto Determine Gallbladder Disease

17 Symptoms of Gallbladder Disease Ordering an composition is speedy and straightforward. Thus, you’ll get an essay which is totally
Uncategorized

Yar Yaroon sy nah Hon Juda By Zainaib Khan

  Yar yaroon sy nah hn juda by Zainaib khan season 2 Episode(1_19)   . is a Classic, Urdu, Romantic,