دروازے کے باہر پہنچتے ہی وہ دستک دینے لگی تھی کہ اندر سے آتی آواز پہ اس کا ہاتھ ہوا میں ہی معلق رہ گیا۔
“یہ آج آپ کو کیا ہو گیا تھا؟ جانتے ہیں نا رباب کے رشتے کے لیے میں نے ہی رفعت کو اکسایا تھا کہ ازمیر سے ہی اس کا نکاح کرا دے، کیونکہ زندگی کا بھروسہ نہیں ہے اور ان دونوں کے بیچ جو ہو چکا ہے اسے کوئی لڑکا قبول نہیں کرے گا اور عابس کے بارے میں تم دونوں ماں بیٹیاں اگر سوچ بھی رہی ہو تو اس کا خیال دل سے نکال ہی دو، وہ رباب کے کرتوت جاننے کے بعد کبھی بھی رباب سے شادی کے لیے راضی نہیں ہو گا، ویسے بھی میں چاہتی ہوں کہ بھائی صاحب اور اپنے درمیان رنجشوں کو ختم کرنے کے لیے فری سے عابس کا رشتہ کر دوں، اس سلسلے میں بھائی صاحب سے بات کروں۔۔اس لیے تم اور تمہاری بیٹی میرے اور میرے بھائی کے بیچ مت آؤ۔۔جبھی یہ سب کچھ اتنا جلدی میں ہوا ورنہ تو رفعت اس لڑکی کی زمہ داری پوری کیے بنا ہی گزر جاتی اور پھر بھائی صاحب اسے اپنی بہو بنا لیتے۔۔جبکہ میں ایسا نہیں چاہتی! اس حویلی پہ میری بیٹی ہی راج کرے گی۔
اور اگر آپ خاموش رہیں گے تو اس لڑکی کو بھی میں جلد ہی راستے سے ہٹا کر ثانیہ کو اپنی بہو بنا کر لاؤں گی۔”
یہ بلقیس بیگم تھیں جو کریم صاحب کے ساتھ بلند آواز میں باتوں میں مصروف تھیں اور وہ ایک ساتھ کئی رازوں سے پردہ اٹھا گئیں۔
“بلقیس بیگم ماضی میں جو ہوا سو ہوا لیکن ہمیں اب اس بچی کو مزید تکلیف نہیں دینی چاہیے، خدا سے ڈرو، اس بات پہ ہماری کتنی سخت پکڑ ہو گی۔
ہم اس کے باپ کے قاتل ہیں اور اب اس کی ماں بھی اس دنیا سے ہماری ہی وجہ سے چلی گئی، اگر تم ازمیر کی وہ چین رباب کے سرہانے نہ رکھتیں تو نہ رفعت کی طبیعت بگڑتی!”
یہ انکشاف رباب کے لیے سب سے بڑا تھا، اس کے قدم لڑکھڑائے اور جیسے سانس بند ہونے لگا، مطلب ازمیر کا قصور نہیں تھا، یہ سب بلقیس بیگم ک کیا دھرا تھا۔
اسے اس لمحے ان کے انسان ہونے پہ شک گزرا جو دولت کی ہوس میں ہر حد پار کر چکے تھے۔
“پاگل ہو گیا تھا میں۔۔۔جو جائیداد کے حصول اور اس حویلی کی خاطر تمہاری ہر بات میں تمہارا ساتھ دیتا گیا لیکن آج میرا دل بہت خوفزدہ ہو گیا ہے کہ کل کو ہم مریں گے تو جانے ہمارا انجام کیا ہو گا! ہم مبین اور رفعت کا سامنا کیسے کریں گے۔
خدا کے لیے اب تم ان دونوں کے بیچ میں مت آؤ۔ ازمیر اسے پسند کرتا ہے، یہ اس نے مجھے بہت پہلے ہی بتا دیا تھا، وہ صرف اس کی پڑھائی مکمل ہونے کا انتظار کر رہا تھا، تمہیں لگتا ہے کہ تمہارا بیٹا تمہاری باتوں میں آ جائے گا تو یہ بھول ہے تمہاری۔۔اگر تم نے رباب کے ساتھ کچھ بھی برا کرنے کا سوچا تو ازمیر اس کے لیے تمہیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔۔اس لیے ابھی بھی وقت ہے سنبھل جاؤ، خدا سے اپنے کیے کی معافی مانگ لو اور اس بچی کو سینے سے لگا کر رکھو تو شاید مبین اور رفعت بھی معاف کر دیں اور میرا اللّہ بھی!
ہم نے اسے زندگی کی بہت سی محرومیاں دی ہیں، اب ان کو پورا بھی ہم ہی کریں گے۔”
کریم صاحب نے پرعزم لہجے میں کہا مگر بلقیس کے تیور بتا رہے تھے کہ وہ ہرگز ان کی باتوں کا اثر لینے والی نہیں ہے۔
رباب ساکت وجود سی کھڑی تھی اور آنسو تھے کہ لڑیوں کی صورت اس کے رخساروں پہ بہتے جا رہے تھے۔
جب باہر سے گاڑی کے ہارن کی مسلسل آتی آواز نے اسے متوجہ کیا تو وہ اپنی ہتھیلیوں سے رخسار رگڑتی مرے مرے قدموں سے بنا شکریہ کہے ہی باہر کی جانب چل دی کیونکہ اس کی طبیعت کچھ عجیب سی ہو رہی تھی۔
جاری ہے