ایئر پورٹ سے آ کر دُراب جہان سے ملا تو انہوں نے اسے فوراً مہمان خانے میں فریش ہونے کے لیے بھیج دیا تھا۔
ؓکچن سے کئی دیسی کھانوں کی خوشبوئیں آ رہی تھیں۔
میزاب نے للچاتی ہوئی نظر کچن پر ڈالی تو مہرین اس کا ہاتھ پکڑ کر سیدھا کچن میں ہی لے گئی تھی۔
“امی کیا کیا پکایا ہے؟”مہرین نے کاؤنٹر اور چولہے پر کئی دیگچی اور پتیلے دیکھے تو پوچھ بیٹھی۔
“سارا کھانا دُراب کی پسند کا۔”وہ بھی کچن میں آ گئی تھیں۔
“ہمم! نرگسی کوفتے!”میزاب ایک کڑاھی سے ڈھکن اٹھا کر اس کی خوشبو سونگھنے لگی۔
“ہاں دُراب کو پسند ہے بہت اور تم بھی تو کوفتوں کی دیوانی ہو۔”
“ہاں آنٹی اور آپ کے ہاتھ کا ذائقہ لاجواب!”اس نے ایک کوفتہ اٹھا کے چکھ لیا تھا۔”یمی!”
“بیٹھ کر کھاؤ ابی!”انہوں نے کرسی کھینچ کر اس کے قریب رکھی۔
“آنٹی میں تو بس چکھ رہی تھی۔”
“تو کیا ہوا؟ بیٹھ کر چکھ لو!”وہ جانے کے لیے مڑی تو انہیں یاد آیا کہ وہ تو چولہے پر چائے چڑھانا بھول گئی ہیں۔”اچھا ابی! مہرو کو تو ڈھنگ کی چائے بنانی نہیں آتی۔دُراب کے لیے کھڑک سی چائے بنا لینا۔لمبا سفر تھا۔طلب ہو رہی ہوگی اسے۔”انہوں نے چائے کا سامان نکال کر کاؤنٹر پہ رکھ دیا۔
“جی آنٹی!”وہ سر ہاں میں ہلا کر کیتلی میں پانی رکھنے لگی، جبھی اس کے فون پر بیل بجنے لگی تھی۔
“جی امی!”وہ چولہا لگا کر فون کان سے لگاتے ہی بولی۔”جی بس ابھی کچھ دیر میں آتی ہوں۔”اس کی بات سن کر جہان نے اس کے ہاتھ سے فون لے لیا۔
“ارے زرینہ بہن! بچی اتنے دنوں بعد آئی ہے۔میں تو سوچ رہی تھی یہ ہمارے ساتھ رات گزار لے گی۔”یہ کہہ کر وہ دوسری جانب کی بات سننے لگیں۔”اچھا ٹھیک ہے مگر شام سے پہلے تو بالکل بھی نہیں آ سکتی۔”وہ دو ٹوک لہجے میں بولیں۔”ٹھیک ہے خوش رہو بہن اور فیاض بھائی کو میری طرف سے شکریہ ادا کرنا۔”انہوں نے فون بند کرکے میزاب کو تهمایا۔
“ابی! فیاض بھائی نے تمہیں شام تک یہاں رکنے کی اجازت دے دی ہے۔میں عصر پڑھنے کمرے میں جا رہی ہوں تم دونوں دُراب کو چائے دے دینا۔”یہ کہہ کر وہ کچن سے نکل گئیں۔
“الائچی والی چائے پیتے ہیں تمہارے دُراب بھائی؟”وہ بھائی پر زور دے کر بولی۔
“ہاں انہیں پسند ہے مگر یہ تمہارے بھائی سے مطلب؟”اس نے شریر نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کمر پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔
“ہاں تو کیا نہیں ہے؟”میزاب نے نظریں چُرا کر اُبلتے ہوئے پانی میں چائے پتّی اور الائچی ڈال دی تھی۔
“کیوں نہیں ہیں مگر تم بھی انہیں بھائی بول سکتی ہو۔”
“بھلا مجھے کیا ضرورت؟”اس نے کندھے اُچکائیں۔”تمہارا مہمان ہے، تم ہی رشتہ داریاں نبھاتی پھرو۔”
“رشتہ داریاں تو اس کے بعد نبھاؤں گی ابھی تو صرف بھیّا کے دوست ہیں۔”اس نے آنکھ مار کر شامی کباب منہ میں ڈالا تھا۔
“اچھا جاؤ اپنے دُراب بھائی کو بلا کر لاؤ۔چائے تیار ہے۔”
“یار اس طرح اچھا نہیں لگے گا۔وہ تھکے ہوئے ہوں گے۔تم اس کے کمرے میں دے آؤ نا چائے۔تب تک میں سلاد کاٹ لوں گی۔”
“میں؟”اس نے تعجب سے کہا۔
“ہاں تم! اور کون ہے یہاں؟”مہرین نے بھنویں اُچکائیں۔
“نا بابا! میں کبھی کسی پرائے مرد کے کمرے میں نہیں گئی۔”میزاب نے جھٹ سے انکار کر دیا تھا۔
“چلو اپنا سمجھ کر چلی جانا۔”وہ شرارت سے بولی۔
“ایویں!”اس نے کپ میں چائے ڈال کر ساتھ شامی سے بھری پلیٹ رکھ دی۔”چلو یہ دو مجھے میں کر لوں گی۔تم چائے لے جانا۔”میزاب اس کے ہاتھ سے چھُری لینے لگی تو اُس نے سر نفی میں ہلا دیا تھا۔
“تم نے لے جانا ہے تو لے جاؤ۔میں تو نہیں لے کر جانے والی۔”
“مہرو! دیکھ لوں گی میں تمہیں۔”وہ ٹرے اٹھا کر دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ گیسٹ روم کی طرف بڑھ گئی تھی۔
،_
اس نے نیم واہ دروازہ دو دفعہ ہلکے سے بجايا مگر کوئی آواز نہیں آئی تھی، اس لیے وہ آہستگی سے دروازہ کھول کر اندر جھانکنے لگی۔
تبھی اس کی نظریں بیڈ پر اوندھے منہ لیٹے دُراب پر پڑیں۔
“اوہ! تو موصوف سو رہے ہیں۔”وہ گلا کھنکھار کر اندر آئی تھی۔اس نے میز پر ٹرے پٹخی تھی تاکہ وہ اٹھ جائے مگر اس نے تو جیسے نہ اٹھنے کی قسم کھائی تھی۔
اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اسے کس نام سے پکار کر اٹھائے؟
“سنیں!”اس نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری۔”کیا آپ جاگ رہے ہیں؟”وہ ہمّت مجتمع کرکے آہستگی سے بولی مگر جواب نداراد۔
“یہ تو شاید گھوڑے، گدھے بیچ کے سو رہے ہیں۔”وہ خود سے بڑبڑاتے ہوئے ٹرے اٹھا کر کمرے سے نکل گئی تھی۔
دُراب جاگ رہا تھا مگر میزاب کو قصداً کوئی آواز نہیں دے رہا تھا۔ اس کے جاتے ہی وہ اٹھ کر مسکراتے ہوئے کمرے سے نکل گیا تھا۔