ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔
دُراب لان میں بیٹھا کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا جب مہرین ہاتھوں میں ٹرے اٹھائے چلی آئی۔
“کیا ہو رہا ہے دُر بھائی؟”اس نے ٹرے میز پر رکھ کر اس میں سے چائے کا کپ اٹھایا اور دُراب کو تھما دیا۔
“بس سوچ رہا ہوں کہ گاؤں چلا جاؤں۔”دُراب نے پلیٹ سے پکوڑا اٹھایا تھا۔
“ارے اتنی جلدی؟”مہرہن نے اپنا کپ اٹھا کر منہ سے لگایا۔
“جانا تو ہوگا نا۔”وہ چائے سے گھونٹ بھرنے لگا تو اس کے فون پر گھنٹی بجنے لگی تھی۔
اس نے فون ریسیو کرکے کان سے لگایا۔
“ہیلو ہیلو”کیا مگر تب تک فون کٹ چکا تھا۔
“تو پھر کیا کہا اس نے؟”وہ موبائل جیب میں رکھ کر، چائے کی پیالی کے گرد انگلی پھیرتے ہوئے بے چینی سے مستفّسر ہوا۔
“کس نے؟”وہ جو موبائل میں مصروف تھی چونک اٹھی۔
“شفق نے!”دُراب نے اسے گھورا۔
“اوہ چھا! ویسے آپ کیا سننا چاہتے ہیں؟”اس نے بائیں ہاتھ میں پکڑا موبائل میز پر رکھ کر اس کی آنکھوں کو سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا۔
“ظاہر ہے، میں ہاں سننا چاہتا ہوں۔”دُراب نے اس کے سر پر ہلکی سی چپت ماری۔
“تو پھر انتظار کیجیۓ گا۔”
“کتنا؟”دُراب کتنا پر زور دیتے ہوئے کرسی میں ڈھے گیا۔
“کتنا کر سکتے ہیں؟”وہ ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر پوچھ بیٹھی۔
“انتظار تو پوری زندگی کر سکتا ہوں۔”
“چند دنوں میں اتنی محبت؟”مہرین اسے چھیڑنے لگی۔
“محبت کے لئے تو اک لمحہ ہی کافی ہوتا ہے۔”وہ ہلکا سا مسکرایا۔”اور ویسے بھی یہ چند دن کی محبت نہیں ہے۔”سانس لے کر۔”جرمنی جانے سے پہلے دیکھا تھا اسے۔تب سے دل میں بس گئی ہے۔”اس نے خالی کپ میز پہ رکھ دیا تھا۔
“سچ میں؟”مہرین حیرانی سے اسے دیکھنے لگی۔
“ہاں! ٹھنڈیانی میں بھی ملاقات ہوئی تھی۔کیا تم نہیں تھی اس کے ساتھ؟”
“اوہ آئی سی!”وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔”کیوں نہیں تھی مگر نہ جانے آپ سے ملاقات کیوں نہیں ہوئی؟”
“کیونکہ میں رات گزار کر صبح سویرے ہی وہاں سے چلا گیا تھا”
“یعنی وہ شال آپ کی تھی؟”اسے میزاب کے ہاتھ میں شال یاد آئی تھی۔
“کون سی شال؟”دُراب نے آنکھیں سکوڑیں۔