کچھ ہفتے بعد
میزاب رات گزارنے گھر آئی تھی.
مہرین کو پتا چلا تو وہ اس سے ملنے چلی آئی۔
میزاب کی خوشی دوگنی ہو گئی تھی۔
مہرین بھی خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی۔
وہ دونوں شادی کے بعد پہلی دفعہ مل رہی تھیں۔
دونوں باتوں میں مشغول ہوئیں تو زرینہ بیگم ان کے لیے کابلی پلاؤ بنانے کچن میں چلی گئیں۔
وہ دونوں کچھ دیر بعد کمرے میں جا کر بیٹھ گئیں کہ انہیں ان گزرے دنوں کی ساری رُوداد ایک دوسرے کے گوش گزار کرنی تھی۔
“اور سناؤ، شادی کے بعد والی زندگی کیسی گزر رہی ہے؟”مہرین نے کاؤچ پر بیٹھتے ہی پوچھا تو میزاب بھی اس کے ساتھ بیٹھ گئی تھی۔
“الحمدلله، زندگی بہت اچھی گزر رہی ہے۔ میں بہت خوش ہوں۔دُراب بہت زیادہ کیئرنگ ہیں۔”دُراب کا نام لیتے ہی اس کے چہرے پر خوش نُما رنگ بکھر گئے تھے۔
“یہ تو بالکل ٹھیک کہا۔دُر بھائی بہت زیادہ اچھے ہیں۔”اس نے بہت پر زور دیا۔”اور اچھے کیوں نہ ہو، آخر کو بھائی کس کے ہیں؟”اس نے نادیدہ کالر کو جھاڑا۔
“نہیں جی، وہ خود بخود ہی اچھے ہیں۔”
“ہاں تو میں نے کب کہا کہ میرے حکم پر اچھے بن گئے ہیں۔”اس نے آنکھیں چھوٹی کرکے میزاب کو دیکھا۔
“تمہارے حکم پر تو اب بس تمہارے فراز صاحب ہی سر خم تسلیم کریں گے۔”
“ویسے انہیں بھی میرے حکم کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ بھی خود بخود ہی اچھے ہیں۔”یہ کہہ کر وہ ہنسی تو میزاب کا قہقہہ چھُوٹا تھا۔
پھر دونوں خوب ہنسنے لگی تھیں اور اسی دوران زرینہ نے چائے لا کر میز پر رکھی اور واپس چلی گئیں۔
“اچھا مہرو! آنٹی اب کیسی ہیں؟”
“ماشاءﷲ! اب تو مکمّل طور پر صحت یاب ہوچکی ہیں۔فیزیو تھراپی بہترین ثابت ہوئی ہے ان کے لیے۔”وہ پيالی اٹھا کر پکوڑوں کا پلیٹ اپنی طرف سرکا گئی کیونکہ اسے پکوڑے بہت زیادہ پسند تھے۔
“تو کالج جاتی ہیں اب؟”
“ہاں جاتی ہیں اور تم بتاؤ، تم کب آؤ گی؟ ایڈمشن تو ہوگیا نا؟”
“ہاں ایڈمشن ہو گیا ہے مگر میرا دل نہیں کر رہا۔”وہ آنکھوں میں دُراب کی شبیہہ لا کر مسکرائی تھی۔
“اوو! دل نہیں کر رہا۔”مہرین او کو کھینچتے ہوئے اس کی نقل اتارنے لگی۔”بی بی دل کسی کا بھی نہیں کرتا مگر جانا پڑتا ہے۔پہلے تو بڑا اِتراتی تھی کہ پھوپھو کے بیٹے سے شادی نہیں کروں گی اور اب پھوپھو کے بیٹے کے بنا رہا نہیں جا رہا۔”
“تم میرا مذاق اُڑا رہی ہو؟”میزاب نے مصنوعی خفگی سے کہا۔
“مذاق نہیں اُڑا رہی بس یاد دلا رہی ہوں۔”وہ زیرِ لب مسکرائی۔”ویسے میں خود بھی تو آنٹی کی وجہ سے جا رہی ہوں۔ قسم سے ابی، میرا بھی دل نہیں کرتا۔”یہ کہتے ہوئے اس نے میزاب کو آنکھ ماری۔”تم کل سے جوائن کرو نا تاکہ میرا دل بھی لگ جائے۔”
“وہ تو ٹھیک ہے مگر میرا تو آگے پڑھنے کو دل ہی نہیں چاہ رہا۔”
“دماغ خراب ہوگیا ہے تمہارا۔”مہرین نے اسے گھورا۔
“دماغ ٹھیک ہے، بس کالج، یونیورسٹی سے اب ڈر لگتا ہے۔”اسے وجاہت علی کا خوفناک چہرہ یاد آیا تھا۔
“کم آن یار، ماضی کو بھول جاؤ! پتا ہے آنٹی کی کوششوں سے یہاں کے تمام تعلیمی اداروں نے مرد حضرات کو مدعو کرنے پر پابندی لگا دی ہے اور ویسے بھی، وجاہت علی علاج کے لیے انگلینڈ چلا گیا ہے۔بہت سے کیسز بھی بن گئے ہیں اس پر مجھے تو لگتا ہے علاج کے بہانے فرار ہو چکا ہے یہاں سے۔”وہ اسے ساری تفصیل بتانے لگی۔
“نہیں یار، کل ہی تو میں نے نیوز میں دیکھا کہ وہ واپس آ رہا ہے۔”میزاب خوف سے جھرجھری لے کر بولی۔
“آنے دو، کیا کر لے گا تمہارا؟”اس نے ایک گہرا سانس لیا۔”تمہارا محافظ تمہارے ساتھ ہے۔اب تو تمہیں بالکل بھی نہیں ڈرنا چاہیئے۔”
“مجھے یہی تو فکر ہے، اگر اسے پتا چلا کہ میری شادی دُراب سے ہوگئی ہے تو نہ جانے وہ کیا کرے گا؟”اس کے دل میں کئی اندیشے گھر کر چکے تھے۔
“کچھ بھی نہیں کرے گا۔چھوڑو یہ ٹینشن بھری باتیں، بتاؤ ہنی مون پر کب جا رہی ہو؟”اس نے باتوں کا رُخ دوسری طرف موڑ دیا تھا۔
“بقر عید میں۔”میزاب نے چائے کی پيالی رکھ کر اپنا فون اٹھایا، کیونکہ اسے ایک ساتھ دُراب کے کئی میسجز آئے ہوئے تھے۔
“ہمم! یعنی برتھ ڈے پر۔”
“ہاں میرا بڑا خواب تھا میری شادی اسی دن ہو مگر خیر جو نصیب میں لکھا ہو۔اب میں چاہتی ہوں برتھ ڈے اور ہنی مون ایک ساتھ منالوں۔کیا خیال ہے؟”اس نے آخر میں مہرو سے تائید چاہی۔
“خیال تو نیک ہے۔اچھا میں تمہیں کچھ دکھاتی ہوں۔”مہرو پرس کھول کر کچھ ڈھونڈنے لگی جسے میزاب منتظر نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔”یہ تمہارا موبائل! ٹھیک ہوگیا ہے۔”اس نے موبائل نکال کر اسے تهما دیا تھا۔
“ٹھیک ہوگیا؟”اس نے موبائل کے سکرین پر ہاتھ پھیرا۔
“ہاں اور تمہارے لیے ایک سرپرائز بھی ہے۔”
“کیسا سرپرائز؟”وہ بھنویں اُچکا کر بولی۔
“تمہارا افسانہ کلاسک دهنك ڈائجسٹ میں آیا ہے۔”اس نے ٹھہر ٹھہر کر اسے یہ خبر سنائی تو وہ اپنی جگہ سے اُچھلی تھی۔
“سچ میں؟”اسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔
“ہاں بالکل اور انہوں نے تمہیں آفیشل ٹیم میں شمولیت کی پیشکش بھی کی ہے۔”یہ سنتے تو وہ ہواؤں میں اُڑنے لگی تھی۔
“مہرو تم تو مجھے حیران کرتی جا رہی ہو۔کیا سیما شاہد کا میسج آیا تھا؟”اسے اب تک یقین نہیں آ رہا تھا۔
“ہاں ان کا میسج آیا تھا۔اب کیا ارادے ہیں تمہارے؟”
“یار میں تو کب سے کلاسک آفیشل ٹیم میں شامل ہونے کا خواب دیکھ رہی تھی۔میں ابھی ان کو میسج کرتی ہوں۔مجھے تو یقین ہی نہیں آ رہا۔”وہ موبائل کھول کر میسنجر دیکھنے لگی جہاں سیما شاہد کے دو میسجز تھے۔
“السلام علیکم!”
اس نے سیما شاہد کا میسج با آواز بلند پڑھا۔”کیا آپ ہمارے آفیشل ٹیم میں شامل ہونا چاہتی ہیں؟”دوسرا میسج پڑھتے ہوئے اس کے گال گلال ہونے لگے تھے۔
وہ جھٹ سے ان کو جواب لکھنے لگی تو مہرین اسے اتنا خوش دیکھ کر مسکرانے لگی تھی۔