The Last Night by Zainab Khan Episode 4

پاکستان کہنے کو ایک ترقی پزیر ملک ہے۔ غریبی، مفلسی اور بے روزگاری یہاں کی قومی وراثت بن چکی ہے۔ اندھے قانون اور زور آور سیاستدانوں نے غریب کو غریب تر اور امیر کو امیر تر بنادیا ہے۔ یہاں نہ تو انسان کی وقعت رہتی جارہی ہے نہ ہی رشتوں کی قدر۔
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا اور اہم شہر ہے۔ لیکن حالات نے آزادی کے بعد اس شہر کی رونقوں اور امن کو خراب سے خراب تر کردیا ہے۔ یہاں پر مفلسی اس قدر ہے کہ ایک سمجھ بوجھ رکھنے والا انسان تک خودکشی کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے جبکہ امیری اتنی ہے کہ ایک کم ذہن غریب بس ان امیر زادوں کو دور دور سے دیکھ ہی سکتا ہے۔ یہاں ہر فرقہ، ہر مسلک اور قریباً ہر نسل پائی جاتی ہے۔ انسان ملنسار بھی بہت ملیں گے مگر ایسے انسانوں سے پالا بھی پڑے گا جن کو دیکھ کر انسانیت رو پڑے۔
یہ منظر کراچی کے ایک پوش علاقے کا تھا۔ یہاں پر صرف بڑے بڑے اداکار، تاجر اور امیر ترین ہستیاں ہی رہائش پزیر تھیں۔ عام انسان تو صرف ملازم کے طور پر ہی یہاں آسکتا تھا۔ اور کچھ غیرت مند ایسے لوگ تھے جن کا ان سے دور دور تک کوئی تعلق واسطہ نہ تھا۔
کئی خوبصورت گھروں کے بعد ایک ایسا گھر آیا جسے دیکھ کر یقیناً دیکھنے والے کا منہ کھل جاۓ۔ اس قدر خوبصورت اور جدید طرز پر بنا یہ گھر ہر آنکھ کو بھاتا تھا۔ بلکہ وہاں رہائش پزیر کئی لوگ بھی اس گھر کی خوبصورتی کو سراہے بغیر نہ رہ سکتے تھے۔ گھر کے اندرونی مناظر کچھ اس قدر مسحور کن تھے کہ غضب خدا کا۔ جدید طرز پر بنا باغیچہ، راہداریاں، سوئمنگ پول اور اردگرد منڈلاتے پرندے۔ شاید وہ پرندے انہی کے رکھے ہوۓ تھے۔ جبھی ملازم طرح طرح کے نام پکارتے انکے پیچھے بھاگ رہے تھے۔ گھر کا اندرونی حصہ کسی بھول بھلیاں سے کم نہ تھا۔ بڑا سا ہال، راہداریاں تھیں۔ چاروں اور کمرے بنے ہوۓ تھے، پھر ایک دروازہ تھا۔۔۔۔اسے کھول کر اندر جھانکو کو وہاں ایک نئی دنیا تھی۔ بڑا سا ٹی وی لاؤنج تھا، جہاں خوبصورت ترین صوفے رکھے گئے تھے۔ عجیب عجیب مورتیاں، واز، پینٹنگز الغرض سب کچھ ہی عجیب ترین تھا۔
“واؤ! دس اس سو بیوٹی فل” پینٹگ کے سامنے کھڑے ہوکر ایک رپوٹر نے کہا۔
“میم تھوڑا پیچھے” ایک گارڈ فوراً آگے بڑھا اور بڑے مکینکی انداز میں بولا۔
“یہ پینٹنگ۔۔۔ یہ میں نے ملائیشیا سے خریدی تھی۔ جب میں صرف پچیس سال کا تھا۔” ایک ادھیڑ عمر شخص پینٹگ کے پاس آکر بولا تھا۔
“آپ کی چوائس بہت لاجواب ہے اور اس بات میں کوئی شک نہیں۔” رپورٹر چہرے پر مسکراہٹ سجا کر بولی۔
“واقعی! اینڈ دی گڈ تھنگ از میرا پوتا بھی مجھ پر گیا ہے۔”
وہ پینٹنگ کے قریب آکر بولے۔ پھر آہستگی سے گارڈ سے رومال لے کر وہ جگہ صاف کی جہاں پر رپوٹر کا ہلکہ سا ہاتھ لگا تھا۔ وہ رپورٹر بے اختیار لال ہوگئی۔ اس قدر سبکی۔
“آپ لوگوں نے کچھ کھایا؟” وہ واپس مڑے اور چہرے پر پریشانی سجاۓ بولے۔
“نہ نہیں سر۔ دراصل ہم کھا کر آئیں ہیں۔” خوش شکل رپورٹر ان کے رعب سے مرعوب ہوئی بولی۔
“ارے کیا کرتے ہو تم لوگ؟” وہ بزرگ گارڈز کو دیکھ کر افسوس سے بولے۔
“آئیں! ناشتہ کریں اور ساتھ ڈائیننگ ایریا بھی دیکھیں۔” پھر وہ اپنی چھڑی کو لیے ٹھک ٹھک کرتے باہر نکل گئے۔
رپورٹر بیچاری تھوگ نگلتی کیمرہ مین کو اشارہ کرکے انکے پیچھے لپکی۔ وہ کچن کی جانب ہوتے ہوۓ ڈائیننگ ایریا میں آگئے۔
“میم اس طرف سے نہیں۔ میرے ساتھ آئیں۔” وہ جو بزرگ کے پیچھے جا رہی تھی، گارڈ کے ایک دم روکنے پر واپس مڑی اور پھر وہ گارڈ اسے لیے دوسرے راستے سے ڈائینگ ٹیبل پر آیا۔ اب کہ ان کے منہ باعثِ حیرت میں کھلے کے کھلے رہ گئے۔ گھر کا ہر کونا اپنی تعریف آپ تھا بلکہ جس طرف جاتے وہ ایسے لگتا جیسے دنیا کا خوبصورت ترین حصہ ہو۔
“آؤ بیٹھو۔”
وہ بزرگ کسی جن کی طرح سربراہی کرسی پر بیٹھے انکا انتظار کر رہے تھے۔ ان کے سامنے پرہیزی کھانا پڑا ہوا تھا۔ کیمرہ مین اور رپورٹر آہستگی سے چلتے ہوۓ بزرگ کے اطراف رکھی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ وہ لوگ ان کا انٹرویو لینے آۓ تھے مگر گھر میں داخل ہوتے ہی ان سے کیمرے لے لیے گئے۔
ان کے سامنے پلیٹس رکھی ہوئیں تھیں۔ دونوں پلیٹس کو بوفے کی طرز سے ڈھکا ہوا تھا۔ رپورٹر اپنے ہاتھوں پر آیا ہوا پسینہ صاف کرنے لگی۔ پھر ڈرتے ڈرتے بزرگ کی طرف دیکھا جنہوں نے مسکراتے ہوۓ دونوں کو پلیٹس سے ڈھکن اٹھانے کا اشارہ کیا۔ اب کہ ان دونوں نے آہستگی سے ڈھکن کو اٹھایا تو سامنے پڑی چیز کو دیکھ کر وہ دونوں شاکڈ رہ گئے۔ ایک دم حیرت سے ایک دوسرے کو پھر اس بزرگ کو دیکھا۔
پلیٹس میں کسی قسم کا کھانا نہیں تھا بلکہ پانچ پانچ ہزار کی چار چار گڈیاں پڑی ہوئی تھیں۔ دونوں نے حیرت سے بزرگ کو دیکھا۔
“میرا نام حیدر آغا بخش ہے۔ میرے کچھ مقابل مجھے نیچا دکھانے کیلیے میڈیا کی مدد لے رہے ہیں۔” حیدر آغا اپنی گود میں نیپکن بچھاتے ہوۓ بولے۔ پھر کانٹے اور چمچ سے اپنا پرہیزی کھانا کھانے لگے۔
“لیکن ہم کیا کرسکتے ہیں؟” رپوٹر بولی۔
“سائرہ تیمور؟” آغا بخش نے نوالہ حلق میں اتارتے ہوۓ پوچھا۔ رپوٹر نے سر ہلایا۔
“کرنا کچھ خاص نہیں ہے۔ بس وہی کرو جو عفان گروپ آف کمپنیز نے کہا ہے مگر۔۔۔” وہ بات کرتے کرتے رکے اور قدرے اس کی طرف جھکے۔
“میری کمپنی کا نام خراب کیے بغیر! تم سمجھ رہی ہو نا؟” اب ان کے چہرے پر پھیلے نرم تاثرات کی جگہ سرد تاثرات نے لے لی۔ سائرہ نے تھوک نگل کر سر اثبات میں ہلایا۔وہ شخص بارعب شخصیت کا حامل تو تھا ہی، مگر اسکے بات کرنے کا انداز کچھ ایسا تھا رپورٹر میکانکی انداز میں انہیں دیکھے گئی۔
“اب آپ لوگوں کو چلے جانا چاہیے۔” وہی کروفر بھرا انداز۔ وہ جو یک ٹک انہیں دیکھ رہی تھی انکی بات پر جھرجھری لے کر رہ گئی۔ پھر وہ دونوں اٹھے، پیسوں کی گڈیاں بیگ میں ڈالیں۔
“آپ بے فکر ہوجائیں سر۔ ہمارا چینل آپ کے ساتھ ہے اور کسی اور کو ہم آپ کے خلاف ہونے نہیں دیں گے۔” سائرہ بیگ کندھوں پر ڈال کر بولی۔ بغیر کوئی تاثر دئیے وہ سر ہلا کر کھانا کھاتے رہے۔یہاں تک کہ وہ دونوں دروازہ کھول کر باہر نکل گئے۔ آغا بخش نے کھانے سے ہاتھ روکے، نیپکن سے اپنے چہرے کو صاف کیا اور چند ثانیے خاموشی سے کسی غیر مرئی نقطے کو دیکھتے رہے۔ پھر نجانے کیا ہوا کہ ایک طنزیہ مسکراہٹ نے انکے چہرے کا احاطہ کیا۔
“بلڈی **” زبان پر آنے والی گالی کو بغیر کسی تردد کے ادا کیا اور بیساکھی کی مدد سے اٹھ کھڑے ہوۓ۔


صبح نہا دھو کر وہ ناشتے کی غرض سے ڈائننگ ٹیبل پر آیا تو خالی ناشتے کی ٹیبل دیکھ کر کڑھ کے رہ گیا۔ پرویز (جو اسکا نیا شیف تھا) کا بیٹا نیا نیا نشے میں پڑا تھا اور یہی وجہ تھی کہ اسے کبھی کسی نکڑ سے اٹھانے کبھی کسی پولیس سٹیشن سے چھڑانے وقت بےوقت چلا جاتا۔
“ بی بی۔” اسنے سرد سے انداز میں کسی کو پکارا۔ اسکی آواز بہت اونچی نہیں تھی بلکہ سختی میں بھی نرمی کا ایک تاثر تھا۔ کچن سے نکل کر کوئی خاتون اس تک آئی۔
“ جی صاحب جی!۔” ادھیڑ عمر زلیخہ اپنی سفید چادر کو ٹھیک کرتے ہوۓ بلکل اسکے پیچھے آکھڑی ہوئیں۔
“ پرویز کہاں ہے؟” اسنے سنجیدگی سے کہا۔ زلیخہ بی چپ سی کرگئیں۔ جیسے شرمندگی چھپا رہی ہو۔ روحان نے گہرا سانس بھرا۔
” بیٹے کو چھڑوانے گیا ہے؟” وہ جانتا تھا یہی معاملہ ہوگا۔ زلیخہ بی نے اثبات میں سرہلاکر اسکے شک کو یقین میں بدل دیا۔ پرویز کو اسی نے نوکری پر رکھا تھا مگر پہلی دفعہ اسے اپنے فیصلے پر پچھتا وا ہوا۔ منہ چڑاتے ٹیبل کو دیکھ کر اس نے بیگ لیا اور زلیخہ بی کی طرف متوجہ ہوا۔
“ اگر بابا فون کریں تو انہیں بتادیجئیے گا کہ میں ناشتہ کرچکا ہوں۔” وہ جانتا تھا اسکے جانے کے بعد آغا بخش زلیخہ بی کو فون کرکے اسکے ناشتے کے بارے میں پوچھ گچھ ضرور کریں گے۔
“ بچہ ناشتہ تو تیار ہے، میں نے ٹیبل بھی تیار کردیا ہے آپ آجائیں، کرلیں ناشتہ۔ ” زلیخہ بی ایک ضعیف اور عمر رسیدہ خاتون تھیں۔ روحان نے منع کرنے کیلیے لب کھولے ہی تھے کہ کچھ سوچ کے رک گیا۔۔۔
“ چلیں ! میں آتا ہوں۔” نرمی سے کہہ کر گاڑی کی چابی اور آفس بیگ میز پر رکھا اور انکے پیچھے چل دیا۔ اس وقت وہ ہلکے بھورے رنگ کا تھری پیس سوٹ پہنے ہوۓ تھا، جس کے اندر گہرے بھورے رنگ کی ٹائی لگائی تھی۔ مہنگے جوتے اور گھڑی پہنے جب کچن میں آیا تو زلیخہ بی فوراً اسکی طرف آئیں۔ کرسی پر بیٹھتے ہوۓ وہ ایک دم چونک سا گیا۔ زلیخہ بی اب اسکے سر سے کچھ وار رہی تھیں۔ گلاس میں پانی انڈیلتے ہوۓ وہ اپنے ازلی نرم اور شگفتہ سے انداز میں مسکرادیا۔ وہ مسکراتے ہوۓ بڑا وجیہہ لگتا تھا۔
“ زلیخہ بی اتنی بھی نظریں نہ اتارا کریں میری کہ کسی کی نظر میں ہی نہ آؤں۔” چھری کانٹا اٹھاتے ہوۓ سنک کی طرف جاتی زلیخہ بی کو کہا۔ شہری طرز کا عجیب سا ناشتہ تھا،ابلی ہوئی سبزیاں، ساتھ کچھ پینے کیلیے بھی تھا۔ اگر کوئی عام انسان اسکے اس ناشتے کی روٹین کو دیکھ لیتا تو شاید غش ہی کھالیتا۔
“ میری اتنی نظر اتارنے کے باوجود بھی آپ سب نظروں میں ہوتے ہیں چھوٹے صاب، اور جس کی آپ بات کررہے ہیں وہ بھی ایک دن آہی جاۓ گی۔” بات کے آخر پر انہوں نے زومعنی الفاظ میں کہا ، روحان انکی بات پر کھل کر ہنسا۔
“ انہیں ڈھوڈنا شرط ہے۔” اپنی مرغوب غذا کھاتے ہوۓ وہ بڑی دلکشی سے مسکراتا رہا۔ کئی سال پہلے ایک عکس آنکھوں سے ایسا ٹکرایا کہ وہ دوبارہ کہیں اور اس نظر سے دیکھ ہی نہ پایا تھا۔
“ منگیتر کا کیا کریں گے؟” زلیخہ بی نے شرارتی انداز میں اسے دیکھا۔ اسکی مسکراہٹ ایک پل کو مرجھائی۔پھر قدرے سنبھل کر بولا۔
“ اس زندگی میں کسی اور کی گنجائش نہیں زلیخہ بی، اگر وہ نہیں !۔۔۔۔۔۔ تو کوئی نہیں۔” اب کہ وہ بڑی سنجیدگی سے بولا۔
“ کافی بناؤں؟” روحان کو کھانے سے ہاتھ کھینچتے ہوۓ دیکھ کر وہ بولیں۔
“ نہیں! آفیس میں پی لوں گا، ابھی تھوڑا لیٹ ہورہا ہوں۔” اسنے معذرت خوانہ انداز میں کہا۔ روحان کا اس قدر نرم لہجہ اور عاجزی پر انہوں نے دل کھول کر دعائیں دے ڈالیں۔ اسکے گھر میں اس وقت بیسوں ملازم تھے، ہر ایک کی پرکشش تنخواہ تھی مگر جب بھی کسی کو کام کہتا تو اس قدر عاجزی اور نرمی سے کہتا کہ سامنے والا اسکے رویے پر حیران رہ جاتا۔ انہیں کئی سال اس گھر میں کام کرتے ہوۓ ہوگئے تھے اور آج تک کسی نے بھی روحان کو غصہ کرتے ہوۓ نہ دیکھا تھا۔ وہ جب بھی کسی سے بات کرتا تو عزت و ادب کے دائرے میں رہتے ہوۓ کرتا۔
_
قریباً دوپہر کا وقت ہوا تو اس نے اپنے لیے کافی منگوائی ۔ اس کی اسسٹنٹ سونیا جو کہ مذہبی لحاظ سے کرسچن تھی، ایک پکی عمر کی خاتون تھیں، خود کو مکمل طور پر چاق و چوبند رکھا تھا۔بلاوے پر کیبن میں آئیں تو اسنے انہیں دیکھ کر سنجیدگی سے کہنا شروع کیا۔
“مس سونیا! مجھے نیکسٹ شیڈول بتائیں اور میری فلائٹ کتنے بجے کی ہے؟” الیکسونیا جسے مختصر لقب سے سب مس سونیا کہتے تھے، سے پوچھا۔
“سر کل شام چھ بجے آپ کی سی ٹی ڈی سپروائزر کے ساتھ میٹنگ ہے اور پرسوں رات یعنی ہفتے کی رات ایک بجے کراچی ائیرپورٹ سے دبئی کی فلائٹ ہے۔ اس وقت آپ کی کہیں کوئی اپائمنٹ نہیں تھی ، اس لیے آغا بخش سے آپ کی ملاقات ارینج کروادی گئی ہے۔” ڈائری سامنے کرکے سونیا نے ٹائم ٹیبل دوبارہ اس کے گوش گزار کیا۔
“ اصوب کی طرف سے کوئی کال یا میسج؟” اسنے اپنے قریبی دوست اور کزن سے متعلق کہا۔ پچھلے کافی دنوں سےوہ دونوں مل نہ پاۓ نہ اسنے روحان کو کوئی کال یا میسج کیا۔
“ سر وہ آجکل تھوڑے بزی ہیں۔” مس سونیا کے کہنے پر اسنے نظر اٹھا کر انہیں دیکھا اور سوالیہ ابرو اٹھاۓ۔
“ سر دراصل کوئی نیا وائرس آیا ہے، کورنگی میں دو مریض دیکھے گئے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ کافی خطرناک ہے۔ آپ کے دوست اصوب ابراہیم اس وقت سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مصروف ہیں۔” سونیا کی بات پر اسنے حیرت سے اسے دیکھا۔
“ اور یہ سب آپ کو کیسے پتا چلا؟” اسنے بڑی کھوجتی نظروں سے مس سونیا کو دیکھا۔ چہرے پر وہی نرمی تھی۔
“ سر نیوز چینلز ،اخبارات! ہر جگہ یہی خبر ہے۔”
“ ابھی تک کوئی تھریٹ الرٹ جاری نہیں ہوا، نہ ہی کسی ادارے نے ہم سے رابطہ کیا ہے۔” اسنے کچھ سوچتے ہوۓ کہا۔ سونیا نے آگے بڑھ کر خالی کپ اٹھایا ۔
“ جی سر!۔”
روحان حیدر بخش چند ثانیے سونیا کی بات پر کچھ سوچتا رہا اور پھر سر ہلا کر اپنے لیپ ٹاپ کی طرف متوجہ ہوگیا۔ صاف اشارہ تھا کہ اب وہ جاسکتی تھیں۔ میکانکی انداز میں وہ جیسے آئی تھیں ویسے واپس چلی گئیں۔ وہ باہر گئیں تو اس نے مزید کام کرنے بجاۓ لیپ ٹاپ شٹ ڈاؤن کیا اور چند ضروری اشیا لے کر باہر نکل آیا۔ اس کے نکلتے ہی مس سونیا اسکی طرف دوڑیں۔
“سر ڈو یو نیڈ اینی ہیلپ؟” بوتل کے جن کی طرح وہ اس کے سر پر موجود تھی۔ لاؤنج میں کام کرتے کئی ورکرز اور انٹرویو دینے آئی کئی خواتین کی نظریں اس کی جانب اٹھیں۔ کام کرنے والے تو باس کی سنجیدہ طبعیت کے باعث دوبارہ کام میں جت گئے جبکہ انٹرویو دینے آنے والے ایسے ہی اسے چور نظروں سے دیکھ کر گزارا کرتے رہے۔
“ڈرائیور کو بولیں گاڑی نکالیں۔ مجھے بابا کے پاس جانے سے پہلے کچھ خریدنا ہے۔” مصروف سے انداز میں بول کر وہ لفٹ کی جانب بڑھ گیا۔ وہ ہمیشہ آغا بخش کو بابا کہہ کر پکارتا تھا۔ بہت کم دادا لفظ کا استعمال کرتا۔مس سونیا فون پر ڈرائیور کو ہدایت دینے لگی۔ جیسے فون بند ہوا تو فوراً اسکی جانب لپکیں۔
مرد خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ امیر ہو تو نگاہیں فریفتہ ہوہی جاتی ہیں۔ سیاہی مائل بھوری آنکھیں، جو دھوپ یا چندھیا دینے والی روشنی میں اپنا بھورا رنگ ظاہر کرتیں، ورنہ دیکھنے والے اسکی آنکھوں کو سیاہ ہی سمجھتے، ہلکی ہلکی داڑھی اور سفید رنگت کے ساتھ اونچا لمبا قد، ایسی خوبیاں تھیں جو اسے کئی محفلوں میں نمایاں کرتی تھیں۔ بعض اوقات کئی رنگین محفلیں وہ یہ کہہ کر چھوڑ دیتا کہ اسے اپنی وجاہت کیش کروانی پسند نہ تھی۔ فیمیل ورکرز کے ساتھ بہت کم انٹریکشن رکھنے والا مرد تھا وہ۔ اگر ضروری ہوتا تو بھی بس چھ سات دن بعد آفس کا راؤنڈ لگاتا۔ باقی کام مینیجر اور مس سونیا کے ذمہ تھا۔
__

دوپہر کے تین بجنے والے تھے۔ ستمبر کی دوپہر میں کہیں ہلکی سی خنکی در آئی تھی، کراچی کی رواں دواں سڑکوں پر اس وقت گاڑیوں کا جمِ غفیر لگا ہوا تھا۔ ہر جگہ ہنستی کھلکھلاتی زندگی، بھاگتی دوڑتی دنیا اس قدر مسخور کن تھی کہ دیکھنے والی ہر آنکھ اس منظر کو قید کرتی، ہر مصور اس بھاگتی دنیا کو رنگوں کے امتزاج سے کینوس پر بھرتا، اور رہتی دنیا تک اس خوبصورت ٹھنڈی دوپہر کو قید کردیتا۔ وہ اپنی فارنوچر پر بیٹھا مصروف سا اردگرد دیکھتے ہوۓ ٹریفک سگنل کھلنے کا انتظار کررہا تھا۔ اچانک کہیں سے شور پیدا ہوا، اسکی گاڑی کے شیشے اوپر چڑھے ہوۓ تھے اسلیے دیکھ نہ پایا۔ لیکن چند لمحے ہی گزرے تھے کہ شور کی آواز بلکل اسکے نزدیک سے آنے لگی۔ اسنے حیرت و الجھن سے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ جہاں ایک گاڑی کے گرد کافی رش تھا۔ جب دس منٹ کے انتظار کے بعد بھی ٹریفک لائٹس نہ بدلیں بلکہ ٹریفک وارڈن سیٹی بجاتے ہوۓ اسکے پیچھے والی گاڑی کی طرف آگیا تو اس سے رہا نہ گیا ، گاڑی کو بند کرتے ہوۓ نیچے اترا۔ جب تک یہ لڑائی ختم نہ ہوتی سگنل کھلنے کے آثار تو قطعی متوقع نہ تھے۔
“ کیا تماشہ لگایا ہوا ہے تم لوگوں نے؟ ” ٹریفک وارڈن ان لوگوں تک پہنچتے ہوۓ بولا۔ روحان جب گاڑی سے اترا تو کئی لوگ اسکی شخصیت سے مرعوب ہوکر پیچھے ہٹتے گئے۔ دو فریقین گاڑی کے ٹھکنے پر جھگڑ رہے تھے۔ ایک تو گالی گلوچ پر اتر آیا جبکہ دوسرا جیسے نشے میں تھا، گالیوں پر آتا تو بکے جاتا، خاموش ہوتا تو سامنے والے کے جھنجوڑنے کے باوجود بھی شیدائیوں کی طرح ادھر ادھر لڑکھنے لگتا۔ روحان دوسرے لوگوں کی طرح وہی کھڑا الجھن سے تماشہ دیکھنے لگا۔
“ دیکھ کتنا نقصان کردیا نشیڑی کہیں کے، دیکھ اسے۔ اندھے ہوکر گاڑی چلا رہا تھا؟” اس شخص کی گاڑی واقعی بہت بری طرح ٹھکی گئی تھی۔ بونٹ سارے کا سارا جیسے پیچھے دھنس گیا تھا، ہیڈلائٹس نیچے لڑھک کر الگ بین کررہی تھیں۔
“اسکا چالان کاٹو زرا۔” وارڈن نے اپنے ساتھی اہلکار سے کہا ۔ پھر آگے بڑھ کر اس شخص کے نزدیک ہوا۔ جو ہنوز اعصاب ڈھیلے چھوڑے کبھی ادھر تو کبھی ادھر لٹک رہا تھا۔ جب کافی دیر بعد بھی وہ نہ بولا تو گاڑی والے نے اسے دوبارہ جھٹکا دیا اب کہ جیسے اسکی آنکھیں کھلیں۔
“ ابے سالے چھوڑدے۔۔۔۔میں نے کہا نا تیری ماں ناچ رہی تھی اسے دیکھتے ہوۓ گاڑی لگ گئی میری، بتا کیا کرلے گا تو؟”
“ اللہ اللہ! اس شخص کی زبان !”۔۔۔۔۔ وہاں کھڑی کئی عورتوں کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ روحان نے لب بھینچے، دل تو کیا اسکے چہرے پر ایک آدھ تھپڑ جڑھ دیتا۔
“ سالے خبیث انسان! تیری ہمت کیسے ہوئی۔” اس سے قبل کے وہ شخص دوبارہ نشیڑی کو کوئی جھٹکا دیتا اسکے لڑھکتے وجود کو نجانے کیا ہوا ، ایک دم وہ بلند آواز سے چیخا، اسکی چیخ اس قدر دلخراش تھی کہ وہاں کھڑے لوگ سہم کر پیچھے ہٹے۔
روحان جو اکتا کر واپس گاڑی میں بیٹھنے کیلیے مڑا تھا کہ ایک دم رکا اور مڑ کر ان دونوں کی طرف دیکھا۔ وہ شخص فلک شگاف چیختا ہوا سیدھا ہوا، اسکے چہرے کی رنگت یک لخت بدل گئی، وہاں کھڑے لوگ ڈر کے مارے چیختے چلاتے پیچھے ہٹے۔ وہ شخص اب گاڑی والے شخص کی گردن پر جھک گیا، ایک لمحے کی دیری تھی کہ گاڑی والے شخص کی درد بھری چیخیں، ترلے منتیں اسے سناۓ دینے لگے۔ روحان نے ڈرتے ہوۓ بے اختیار گاڑی کا سہارا لیا۔
اردگرد بھاگتے لوگوں میں سے چند ایک وہی رک گیا، ان میں روحان حیدر اور ایک کونے میں کھڑی الجھن زدہ سی دیکھتی کمالہ ہاشم بھی تھی۔ ایک آدھ شخص نے آگے بڑھ کر اس شخص کو چھڑانا چاہا تو ایک دم ٹھہر گیا، اسکی نظر بے اختیار زمین پر ٹپ ٹپ گرتے خون پر پڑی، آگے بڑھنے والے شخص نے تھوک نگلتے ہوۓ اس نشئی کو دیکھا۔ جو کہنے کو نشئی تھا مگر اس وقت کوئی درندہ لگ رہا تھا، خونخوار درندہ۔
پیش قدمی کرنے والا شخص دو قدم پیچھے ہوا۔ اب کہ اس نشئی انسان نے گاڑی والے انسان کی گردن چھوڑی اور دوبارہ سے آسمان کو دیکھتے ہوۓ دلخراش انداز میں چیخا۔ اسکا چہرہ ، ہونٹوں کے گرد اور اندر دانتوں میں خون لگا ہوا تھا۔ دور کھڑی اسنے جب اس شخص کو مزید دوسرے انسانوں کی طرف بڑھتے ہوۓ دیکھا تو فوراً اپنی گاڑی کا دروازہ کھلا چھوڑے اسکی طرف دوڑی۔ دوسری طرف روحان نے بھی لمحہ ضائع کیے بغیر قدم بڑھاۓ، اور آگے بڑھ کر اس شخص کو پیچھے سے پکڑ کر زمین پر گرایا۔
“ اسکے بازؤں کو کس کے پکڑیں، میں اسکے چہرے کو باندھتی ہوں۔ شاید اسے ریبیز ہے۔”اس شخص کی حرکات سے وہ یہی اندازہ لگاسکی۔ روحان اس شخص کو زمین پر اوندھے منہ لیٹاۓ ، اسکے بازؤں کو گرفت میں لے کر کسی طرح قابو کررہا تھا کہ کسی نسوانی آواز پر بری طرح چونکا۔
“ یہ خطرناک ہوسکتا ہے، آپ پیچھے رہیں۔” اسنے اس شخص کے جھٹکے کھاتے وجود کو دیکھتے ہوۓ کہا جبکہ وہ نظرانداز کرکے آگے بڑھی اور اپنا مفلر اتار کے اس شخص کے چہرے پر باندھنا شروع کیا۔
“ انتظار کرتے رہے تو سب کو کاٹ کھاۓ گا۔” کمالہ نے گانٹھ باندھتے ہوۓ کہا۔ روحان نے بڑی مشکل سے اس شخص کو سنبھالا ہوا تھا، ایک کڑی نظر سے اپنے سامنے اس شخص کے چہرے پر مفلر لپیٹتی لڑکی کو دیکھا اور بس وہ لمحہ جیسے تھم سا گیا، اسنے اسے دیکھا اور دیکھتا رہ گیا۔
یک ٹک، ششدر ہوکر، حیرت و بے یقینی سے!
کمالہ اب اسے کچھ کہہ رہی تھی، لیکن وہ سکتے کی کیفیت میں اسے دیکھے گیا ، بغیر پلکیں جھپکاۓ، کمالہ اسکے چہرے کو ساکت و مبہوت دیکھ کر جنھجلا سی گئی، جب بار بار بلانے پر بھی اسکا سکتہ نہ ٹوٹا تو رکھ کے تھپڑ اسکے گال پر دے مارا۔ اسکی آنکھیں جیسے کھلیں۔
“ اندھے ہو؟ یا نیا نیا مرنے کا شوق چڑھا ہے؟ میں بکواس کررہی ہوں اسکے ہاتھ باندھو۔” وہ اس قدر غصے سے دھاڑی کہ روحان اسکے تھپڑ کے صدمے میں بھی نہ جاسکا۔ کمالہ کے ہاتھ سے رسی لے کر اس شخص کے ہاتھ باندھے۔
“ آپ ٹھیک ہیں؟” اٹھتے ہوۓ اسکی نظر اپنے پیچھے گاڑی والے شخص پر پڑی، جو گردن پر ہاتھ رکھے بڑی بری طرح بلک رہا تھا۔اس شخص نے نفی میں سرہلایا اور کچھ بولنے لگا کہ زبان نے جیسے ساتھ ہی نہ دیا۔ شاید درد بڑھ رہا تھا۔
“ پریشان نہیں ہو، میں نے ایمبولینس کو کال کی ہے بس وہ لوگ آتے ہی ہونگے۔” کمالہ نے ایک دفعہ اسکی گردن دیکھنی چاہی مگر دور سے اسکی حالت دیکھ کر دل جیسے منہ کو آگیا۔ بے اختیار دو قدم پیچھے ہٹی ، جہاں وہ کھڑا ابھی بھی حیران و پریشان ضبط کررہا تھا۔ اتنے سالوں بعد وہ ملی تھی اور ایسا کرارا تھپڑ مارا کہ اسکے چودہ طبق روشن ہوگئے۔ وہ واپس مڑی تو اپنے سامنے اسے کھڑے پایا۔ اسکی آنکھوں میں ایک ناراضی سی تھی وہ کئی لمحے آنکھیں سکیڑے اسے دیکھتی رہی۔
“ جب روڈ پر کسی کی مدد کیلیے اتریں تو ہوش و حواس قائم رکھتے ہیں، جیسے آپ جاگتی آنکھوں سے سورہے تھے کچھ کہا نہیں جاسکتا مگر بہرحال اسکا اگلا نمبر آپ ہوسکتے تھے۔” اسنے سر سے لے کر پیر تک اسے دیکھتے ہوۓ کہا۔ روحان لب بھینچ کے رہ گیا۔
“بھرے مجمعے میں کسی مرد پر ہاتھ بھی نہیں اٹھاتے، محترمہ!۔” اسنے بڑے سرد سے انداز میں کہا اور ایک گہری نظر اس پر ڈال کر واپس مڑ گیا۔ اسکے بھورے رنگ کے تھری پیس سوٹ پر جابجا خون لگ چکا تھا۔
“ سنیں!” وہ گاڑی کے دروازے تک آیا تو نجانے اسے کیا سوجھی فوراً آواز دی۔ دوسری طرف ایمبولینس آچکی تھی اور دونوں مریضوں کو سٹریچر پر ڈال کر لے جایا جارہا تھا۔ روحان نے ضبط سے گہرا سانس بھرا اور مڑ کر اسے دیکھا۔ کمالہ کئی لمحے اسے دیکھتی رہی جیسے الفاظ بن رہی ہو۔
“ ایم سوری!۔۔۔دراصل !” وہ کچھ کہنے لگی کہ روحان نے فوراً اسکی بات کاٹی۔
” فار یو! اٹس ٹوٹلی اوکے۔” اسکا انداز بڑا معنی خیز اور فلرٹی سا تھا۔ اپنی بات کہہ کر آگے بڑھا اور گاڑی میں بیٹھ کر دروازہ بند کیا پھر بیک ویو مرر سے اسے دیکھا۔ کمالہ کے چہرے پر سبکی کے اثرات دیکھ کر وہ محظوظ ہوۓ بغیر نہ رہ سکا۔
“ کمینہ، زلیل کہیں کا۔۔۔۔ٹھرکی۔” اسکے آخری الفاظ پر وہ صحیح معنوں میں کڑھ کے رہ گئی۔


فون سنتے ہوۓ وہ گاڑی سے اترا اور لاک کرکے ریستوران کے صدر دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ آج جو کچھ بھی ہوا اگرچہ وہ سب اچانک اور بڑا ہولناک سا تھا۔ لیکن وہ سب کچھ جیسے بھول چکا تھا۔ نرم مزاج تو پہلے سے ہی تھا مگر آٹھ سال بعد اسکے ملنے سے ایک ایسی شادابی چہرے پر پھیلی تھی کہ اس کی مسکراہٹ پر نظریں ٹھہر ٹھہر جاتیں۔ خداحافظ کہہ کر وہ اپنے مطلوبہ ٹیبل کی طرف بڑھا۔ جہاں بیٹھا اصوب ابراہیم بھی اپنے موبائل کی سکرین سکرول کرتے جارہا تھا، جو خبر زرا توجہ کا مرکز ٹھہرتی اس پر کچھ دیر رکتا پھر آگے سکرول کردیتا۔
روحان بڑے آرام سے آکر ابراہیم کے سامنے پڑی کرسی پر بیٹھ گیا۔ اسنے ایک اچٹتی نظر اس پر ڈالی پھر دوبارہ سکرین پر نظریں جمائیں! لیکن ایک پل کو سکرین کو دیکھنے والی نظروں میں حیرت در آئی۔ اسنے اچنبھے سے روحان کی طرف دیکھا۔ جو خود موبائل کھول کر کسی کو کچھ میسج کررہا تھا۔
“ خیریت؟۔۔۔۔قصائی کی دکان پر گئے تھے؟” ایک نظر اسکے کپڑوں پر ڈال کر دوبارہ موبائل کی طرف دیکھا۔ روحان نے موبائل سے نظر اٹھا کر قدرے الجھن سے اسے دیکھا۔ اصوب نے اسکی الجھن زدہ آنکھوں کو دیکھتے ہوۓ کپڑوں کی طرف اشارہ کیا۔
“ یہ خون کیسے لگا؟” وہ بڑے آرام دہ طریقے سے پوچھ رہا تھا۔ روحان نے گہرا سانس بھرا اور موبائل ایک طرف رکھتے ہوۓ بولا۔
“ ایک روڈ ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا، وہیں شاید لگا۔” اوپری کوٹ اتار کر اسنے ایک طرف کرسی پر رکھ دیا۔
“ تمہارا؟” اسنے ابرو اٹھاۓ۔
“ نہیں ! کسی کا ہوا تھا۔ میں تو بس ہیلپ کرنے گیا تھا۔” اسنے کندھے اچکاۓ اور مزید بولا۔
” کچھ منگوایا؟”
“ہاں! ” ایک لفظی جواب دے کر وہ دوبارہ فون کی طرف متوجہ ہوگیا۔ اب کہ روحان نے اسکی سنجیدگی نوٹ کی۔
“ خیریت ہے؟”روحان کی آواز پر اسنے بے اختیار گہرا سانس خارج کیا، موبائل ایک طرف رکھا، اور شیشے سے باہر کے مناظر دیکھنے لگا۔
“وہ منگنی کرچکی ہے۔” اسکی آواز میں رچی بے بسی پر روحان کچھ بول نہ پایا۔
“ تمہیں کم از کم اپنی فیلنگز کنفیس کرنی چاہیے تھیں۔ اگر وہ منع بھی کردیتی تو یہ بعد کی بات تھی۔” کئی لمحے بعد روحان نے کہا۔ اصوب زخمی سا مسکرادیا۔
“اسنے اپنی مرضی سے منگنی کی ہے۔” باہر دوڑتے مناظر سے نظر ہٹاکر اسنے اسے دیکھا اور مزید بولا۔ ” تمہیں کیا لگتا ہے اگر میں اسے کچھ بتاتا تو یقین کرلیتی؟”
“شاید وہ تم سے ڈرتی ہو۔۔۔۔۔سات آٹھ سال بڑے ہو اس سے، ہوسکتا ہے وہ تمہیں اپنا بھائی سمجھتی ہو۔” بات کے آخر میں اسنے جیسے مسکراہٹ دبائی۔ اصوب نے زہر بھری نظروں سے اسے دیکھا۔
“غیر محرم کبھی بھائی نہیں ہوتے روحان حیدر!”
“ سمجھ سکتا ہوں بھئی۔” گہرا سانس لے کر پیچھے ٹیک لگائی۔ ” لیکن یہ شرم تمہیں ہونے چاہیے! ایسا امیج بنایا ہی کیوں جب اسے اپنا آپ کھل کر بتانہیں سکتے۔ ظاہر سی بات ہے جب آپ کسی کے ساتھ سردی سے پیش آئیں گے تو اگلا ڈرے گا ہی۔” روحان کی بات پر وہ اسے دیکھ کر رہ گیا۔
“ یار وہ مجھے بھائی کہتی ہے ۔ اب اس پر غصہ نہ آۓ تو اور کیا ہو؟ تم بتاؤ۔”
“ ہاں!۔۔۔یہ بھی سہی ہے۔ تم اس سے سینئیر ہو ، سر بھی کہہ سکتی ہے۔”روحان کی بات پر بے اختیار اسے وہ پہلی ملاقات یاد آئی جب عِزہ حسین نے آفیس کے پہلے دن ہی اسے بھائی کہہ کر پکارا تھا۔ اتنے اجنبی لوگوں میں جب اسے اصوب ابراہیم دکھائی دیا، جو وہاں ایک اعلیٰ پوسٹ پر تھا، سبھی جس سے مرعوب ہورہے تھے تو اسکی خوشی کا جیسے کوئی ٹھکانہ نہ رہا تھا۔ بے اختیار اسکے پاس جاکر کھڑی ہوئی۔ اصوب نے کسی کی موجودگی پر نظر اٹھاکر دیکھا تو سامنے عِزہ حسین، اسکی دور کی کزن تھی۔ اسکے چہرے پر بے اختیار ایک نرم سی مسکراہٹ پھیل گئی۔
“ اصوب بھائی آپ یہاں کیسے؟ ۔۔۔۔آپ تو سیکورٹی انچارج ہیں ہےنا سندھ پولیس کے۔” اکیس بائیس سالہ، منہ پھٹ عِزہ نے جب اسے بھائی کہا تو اصوب کے مسکراتے لب ایک دم سکڑے، بے اختیار ضبط کیا، ورنہ دل تو کیا کہ اسکی گردن مروڑ دیتا۔ عِزہ کے الفاظ پر اردگرد کئی لوگوں کی گردنیں مڑیں، سبھی نے اسے ستائشی انداز میں دیکھا۔ اس سے یہ بات مخفی نہ رہ سکی۔ اندر ہی اندر فلیکس کرتی شاید وہ کچھ مزید بولتی کہ اصوب بول پڑا۔
“stay in your limits miss ! “
” آپ اپنے سینئیرز سے ایسے بات کرتی ہیں؟” اسکا سخت لہجہ ایسا تھا کہ بے اختیار عِزہ کا چہرہ ہتک سے سرخ پڑگیا۔ پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ پیچھے ہوئی۔ “ایم سوری۔۔۔۔شاید!” اسکی آنکھیں جھلمل کرنے لگیں۔ اصوب نے ان میں آنے والا پانی دیکھا تو اندر ہی اندر خود کو گالی دی۔ لیکن وہ بغیر اپنے پیچھے کھڑے ہجوم کو دیکھے میٹنگ ہال کا دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔
“ میں اسے تکلیف نہیں دینا چاہتا۔۔۔لیکن وہ بس بھائی نہ کہے۔” کم گو ، چپ رہنے والا اصوب ابراہیم بولا تو روحان بے اختیار ہنس دیا۔
“ اسے کوئی سگنل دو۔۔۔۔ایسے تو شاید دو تین سالوں تک بھائی کہنے والی کے ساتھ ساتھ ماموں کہنے والے بھی آجائیںگے۔” روحان نے کہہ تو دیا مگر اصوب ابراہیم نے ایسی قہر برساتی نظروں سے اسے دیکھا کہ وہ چپ سا کرگیا۔ حالانکہ وہ جانتا تھا روحان کی بات سولہ آنے درست تھی۔ وہ لڑکی واقعی کچھ سالوں تک اسے ماموں بنانے والی تھی۔
__
تھک ہار کر وہ آج گھر پہنچی تھی۔ چھ ماہ کی نوکری کے بعد چند دنوں کی چھٹی ملتی تھی، وہ بھی اماں کی وجہ سے خراب ہونے والی تھی، اوپر سے آج والی خواری نے مزید اسکے چودہ طبق روشن کیے۔ قریباً چھ سال ہوچکے تھے انہیں اس کالونی میں شفٹ ہوۓ۔ شروع میں شاہنواز حمدان کے بتاۓ ہوۓ گھر میں وہ دونوں کافی عرصہ رہیں مگر جیسے ہی اس کے قدم مضبوط ہوۓ، اس نے فوراً سے بیشتر اپنے گھر کا بند و بست کیا۔
جہاں وہ رہتی تھیں، وہ کراچی کا ایک متوسط علاقہ تھا۔ چھوٹا سا فرنشڈ گھر تھا جہاں وہ دونوں بڑے سکون سے گزارا کررہی تھیں۔ تین کمرے، ساتھ اٹیچ واشروم ، کچن اور ایک ڈرائنگ روم پر مشتمل یہ گھر چھوٹا تھا مگر خوبصورت تھا۔
راحیلہ بیگم اس کی آمد کا محسوس کرکے وہیل چئیر پر کچن سے برآمد ہوئیں۔ ان چند سالوں نے جہاں کمالہ کو کم گو، سنجیدہ طبعیت اور اپنی ذات تک محدود کردیا تھا، وہی بہت سے زخم راحیلہ بیگم نے اپنی ذات پر بھی سہے تھے۔ بیٹی کا رشتہ ٹوٹ جانا، آبائی گھر چھوڑ دینا، طرح طرح کی آزمائشیں انہیں بیمار کرچکی تھیں۔ دو سال پہلے فالج کا اٹیک ہوا تھا جس نے ان کی دائیں ٹانگ کو معذور کردیا ۔ اس کا اثر جسم پر بھی ہوا تھا ۔ اسی لیے چلنے سے گریز کرتی تھیں۔ مگر بہرحال وہ چل سکتی تھیں۔ ہاتھوں کی مدد سے وہیل چئیر کو باہر لائیں تو سامنے دیکھا وہ اپنے نئے جوتوں کو پالش کرنے کی غرض سے بازو چڑھا رہی تھی۔
“ذرا سانس تو لے لو! ابھی باہر سے آئی ہو اور آتے ہی جوتوں کو لے کر بیٹھ گئی تم؟” وہ خفا سی بولیں مگر کمالہ ان کی بات پر خاموش ہی رہی۔ پہلے جرابیں نکال کر صاف کیں، جھاڑ پونچھ کر جوتا ایک طرف رکھا۔ پھر دوسرا جوتا اٹھا کر کپڑے سے گرد صاف کرنے لگی۔ اسنے آتے ہی احتیاطاً کپڑے بدل لیے تھے، جن پر جگہ جگہ خون لگ چکا تھا۔ مبادہ راحیلہ بیگم سے چھترول نہ ہوجاتی۔
ہاں! اگر کمالہ پر کوئی مشکل آتی تو اس میں زیادہ تر اسی کا قصور ہوتا تھا کیونکہ وہ احتیاط نہیں کرتی تھی، یہ سوچ اسکی ماں بیگم کی تھی۔۔راحیلہ بیگم خاموشی سے اس کی حرکت دیکھتی رہیں۔
“ آج خیریت رہی؟ کافی لیٹ گھر آئی ہو۔” انہوں نے کھوجتی نظروں سے اسے دیکھا۔ کمالہ کے چلتے ہاتھ رکے ،بے اختیار آج والا واقعہ، اور ساتھ وہ شخص بھی یاد آیا۔ ایک گہری سانس خارج کرکے اسنے سر اثبات میں ہلایا۔
“ جی! خیریت ہی رہی۔ آپ بتائیں کھانا کھالیا؟ ” دوبارہ سے ہاتھ چلاتے ہوۓ وہ بولی۔
“ ہاں! کیشور کی بھتیجی آئی تھی، اسی نے پھلکا بنادیا۔”
“ انسولین لگوائی تھی؟” اسنے آنکھیں سکیڑے انہیں دیکھا۔
“ ہاں !۔” انکا انداز بڑا عجیب سا تھا۔ کمالہ نے حیرت سے نظریں اٹھا کر انہیں دیکھا۔
“ اماں خیریت ہےنا؟ کوئی پریشانی ہے تو نہیں؟” کمالہ کے لہجے میں اس وقت ایک پریشانی سی تھی۔ وہ انہیں اداس نہیں دیکھ سکتی تھی۔ راحیلہ بیگم چند ثانیے اسے خاموشی سے دیکھتی رہیں پھر سنجیدگی سے گویا ہوئیں۔
“آخر ایسی کیا وجہ ہے کہ تم شادی نہیں کرنا چاہتی کمالہ؟ میں نے محسوس کیا ہے جب سے میں نے رشتے کی بات کی ہے تم خاموش ہوگئی ہو۔ نہ کوئی ہاں، نہ کوئی نہ۔۔۔” وہ اسے کھوجتی نظروں سے تک رہی تھیں۔ ان کی بات پر کمالہ چند ثانیے انہیں دیکھتی رہی۔
“اماں میری نوکری ایسی نہیں ہے کہ کسی رشتے کی جھنجھٹ پالوں۔ شادی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ جو میرے ناتواں کندھے نہیں اٹھا سکتے۔” دوسرے جوتے کو اٹھاتے ہوۓ اس نے کہا۔ جبکہ راحیلہ بیگم اس کی بات پر لب بھینچ گئیں۔
“یہ کوئی معقول بہانہ نہیں۔ زندگی کا ایک حصہ تکلیف میں گزرے تو ساری زندگی کو ایک گھٹڑی میں بند کرکے گرہ نہیں لگائی جاسکتی کمالہ! جو ہونا تھا ہوچکا۔ تمہیں اس طرح دیکھ کر میں ہی جانتی ہوں مجھ پر کیا گزرتی ہے۔ اپنے سابقہ منگیتر کو دیکھا ہے چار بچے ہوچکے ہیں اس کے۔ اور ایک تم ہو، ہر چیز سے اداس ہر چیز کو چھوڑے ہوۓ۔ ایسا بھی کیا تھا اس میں کہ اس کے بعد کسی پر دل ہی نہ آیا؟” وہ بولنے پر آئیں تو کئی لمحے بغیر رکے بولتی گئیں لیکن دوسری طرف اسکے کان سے جوں تک نہ گزری۔
“اماں کل نوکری پر جارہی ہوں۔ ہر دفعہ کی طرح اس دفعہ بھی کوئی نا کوئی شوشہ چھوڑ دیں تاکہ وہاں جاکر بھی کام کرنے کے بجاۓ آپ کی باتوں پر کڑھتی رہوں۔” دونوں جوتوں کو ایک طرف رکھ کے کپڑے سے بازو پر لگی گرد جھاڑی۔
“ہاں تو کون کہتا ہے اتنی خطرناک نوکری کرو؟ لوگ افسر بنتے ہیں۔ تم نجانے کیا بن چکی ہو۔ اللہ جانے کہاں چھپی بیٹھی یہ نوکری تھی جو تمہیں ملی۔” ہر بار کی طرح آج بھی وہ اس کی نوکری پر چوٹ کررہی تھیں۔
“اماں جس نوکری کی وجہ سے میں اپنے پاؤں پر کھڑی ہوئی اسے برا کیوں کہوں؟ میرے لیے سب سے اہم میرا کام ہے۔ مجھے میرے کام سے بہت محبت ہے اماں۔ لوگ میرے لیے یا آپ کیلئے وہ نہیں کرسکیں گے جو میں کررہی ہوں۔ زندگی تو ویسے بھی آسان نہیں اور میں چاہتی بھی نہیں ہوں کہ کسی مرد میں اپنی زندگی کی آسائش ڈھونڈوں۔”
اس نے جوتے اٹھاۓ اور اپنے کمرے کی طرف چل دی۔
“لیکن کبھی نا کبھی تو کرنی ہے نا۔” انہوں نے پیچھے سے ہانک لگائی۔
“جب کوئی ملے گا تو کرلوں گی۔ ابھی نہیں۔” اس نے اندر قدم رکھے اور دروازہ کھٹاک سے بند کردیا۔


جاری ہے

Leave a Comment