The last nightZainab nasar khan
صبح نو بجے کا وقت تھا۔ دیوار گیر کھڑکی سے چھن کر آتی روشنی اور اوپر سے فون کی بار بار بجنے والی گھنٹی نے اسے شدید بیزار کردیا۔ تنگ آکر فون اٹھایا تو سکرین پر نمبر دیکھ کر وہ جل کر رہ گئی۔”لگتا ہے ان لوگوں کی کچھ زیادہ ہی دشمنی ہے میرے ساتھ۔۔۔” سم کی جانب سے آنے والی کال پر وہ کراہ کے رہ گئی۔ اگر کال نہ آتی تو شاید تھوڑی دیر اور سو لیتی۔ منہ بسور کر وہ اٹھی اور واشروم میں گھس گئی۔آج اتوار تھا۔ اس لیے نماز پڑھ کر دوبارہ سے خواب خرگوش کے مزے لوٹنے لگی تھی۔ مگر یہ سم والوں نے الگ سے بیر پالا ہوا تھا۔ فریش ہوکر وہ نیچے اماں کی تلاش میں نکل آئی۔ کیشور بھی آچکی تھی۔ کچن میں برتنوں کی اٹھک پھٹک سے علم ہورہا تھا کہ کیشور کے کھردرے ہاتھ برتنوں کو دھو رہے تھے۔ گہرا سانس لے کر وہ باہر بنے چھوٹے سے باغیچے کی طرف آگئی۔ اماں وہی بیٹھی ہوئی تھیں۔ ساتھ ساجدہ چچی تھیں۔ حال ہی میں انہیں اس گھر کا علم ہوا تھا اور تب سے ہر اتوار کو وہ دھرنا دینے آجاتیں۔ کمالہ چند ثانیے وہی کھڑی رہی مگر پھر آہستگی سے ان کے پاس چل دی۔ کسی کیلیے اپنی سردیوں کی دھوپ کا مزہ خراب کرنا اسے سخت نامنظور تھا۔ وہ دونوں چارپائی بچھا کر بیٹھی ہوئی تھیں۔ جی ہاں! راحیلہ بیگم کا تعلق پنجاب سے تھا۔ جب سے شادی ہوئی تھی، ان کے گھر میں ان گنت ایسی چیزیں موجود تھیں۔ ان کا ماننا تھا بیس سے زائد چارپائیاں تو ہر گھر میں ہونی ہی چاہئیں۔ اچھا برا کیسا بھی وقت آسکتا ہے۔ اب اگر کوئی مہمان آجاۓ تو اسے بندہ کہاں بٹھاۓ بھلا اور ان کی اس بات پر کراچی کی پیدائش والی لڑکی کمالہ ہاشم صرف سرہلا کر رہ جاتی۔ نئے گھر میں شفٹ ہونے کے بعد ان کا یہ مشغلہ قدرے کم ہوگیا کیونکہ یہ تین کمروں پر مشتمل چھوٹا سا گھر تھا۔ کمالہ نے ساری سجاوٹ باقاعدہ ایک ڈیزائنر سے کروائی تھی۔ ہر چیز میں ایک گھریلو تاثر ملتا تھا۔ پھر چاہے وہ لاؤنج میں پڑا صوفہ ہو یا باہر باغیچے میں پڑی چارپائی۔ اس نے ہر چیز کی سجاوٹ ایسی کروائی تھی جیسے وہ لوگ کسی گاؤں میں رہتے ہو۔ کہیں بھی کچھ ایسا نہ تھا کہ راحیلہ بیگم مایوس ہوتیں۔ بلکہ سارے گھر کی سجاوٹ دیکھ کر وہ اکثر اسے کہتی تھیں کہ جیسے وہ اپنے آبائی گھر میں رہتی ہوں۔ کمالہ ان کو باتوں میں مصروف دیکھ کر اندر کی جانب مڑی، چند ثانیے بعد وہ واپس آئی تو ہاتھ میں ادب کی کوئی کتاب تھی۔ پھر ان دونوں کی طرف توجہ دیے بغیر اس نے چپل اتاری، نرم نرم گھاس پر پاؤں رکھے تو جیسے اندر تک سکون اتر گیا۔ دوپٹہ بھی اتار کر چپل کے پاس رکھا اور خود گھاس پر لیٹ گئی۔ چپل کے اوپر ہاتھ رکھا اور اسی پر سر رکھتے ہوۓ کتاب کھولی اور وہی سے پڑھنا شروع کیا جہاں سے کچھ دن پہلے چھوڑا تھا۔”کمالہ کوئی کریم لگالیا کرو میرے بچے، دیکھو رنگت کیسی متغیر سی ہوگئی ہے تمہاری۔” وہ کتاب بینی میں مصروف تھی کہ ساجدہ چچی کی مٹھاس بھری آواز کانوں کو فیض یاب کرگئی۔ حیرانی سے ان کی طرف دیکھا جیسے کہہ رہی ہو کہ “میں؟””نوکری بڑی سخت ڈھونڈی ہے تم نے کمالہ۔ اپنا خیال بھی نہیں رکھا جاتا ہوگا۔”