جس نے اخیر کوشش کی تھی مگر اس کے باوجود اپنی
جیتی ہوئی بازی ہار چکا تھا۔”Did you bite someone ? (کیا تم نے کسی کو کاٹا ہے؟)” اس نے الجھن بھری نظروں سے اسے دیکھا۔ کمالہ کچھ بول نہ پائی۔ بس آنسوؤں کا ایک ریلا جاری ہوا اور وہ ڈھے سی گئی۔ روحان جہاں کا تہاں رہ گیا۔ اسے لگا شاید وہ بہت بڑی جنگ ہار چکا تھا۔ کمالہ کی بگڑتی طبعیت اس کے سامنے تھی اور اسی کے پیشِ نظر اس نے باہر زیادہ وقت نہ لگایا۔ لیکن واپسی تک وہ مکمل طور پر وائرس کے زیرِ اثر آچکی تھی۔ وہ بہت زیادہ مضبوط تھی، بہت بہادر تھی۔ مگر اس وقت اس سے زیادہ کمزور شاید ہی کوئی ہوتا۔ روحان نے اپنی آنکھوں کی نمی صاف کرتے ہوۓ آگے قدم بڑھاۓ۔ بڑی آہستگی سے وہ اس تک پہنچا۔”سر! مجھے لگ رہا ہے آپی ابھی بھی۔۔۔” چند قدم کا فاصلہ مٹا ہی تھا کہ بخت کی آواز آئی۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے رکنے کو کہا۔ کمالہ نے ڈرتے ہوۓ اپنے چہرے پر ہاتھ رکھ دئیے۔”پلیز یہاں سے چلے جاؤ۔ میری پیاس۔۔۔ ہنوز ویسی ہے۔ اگر۔۔۔ اگر آپ لوگ سامنے رہے تو میں خود پر کنٹرول نہیں رکھ پاؤں گی۔” اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپاۓ روتی بلکتی وہ بول رہی تھی۔ جبکہ روحان کے سینے میں جیسے کسی نے خنجر گھونپ دیا۔ اس کی طبعیت بگڑ رہی تھی۔ وہ مزید ایک قدم آگے بڑھا ہی تھا کہ کمالہ دھاڑی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کے گریبان تک جاپہنچی۔ پیچھے کھڑا بختاور بوکھلا گیا۔”بختاور جلدی سے وہ سکارف دھو مجھے!” کمالہ کے خونخوار وجود کو سنبھالتے ہوۓ اس نے پیچھے کھڑے بختاور کو آواز دی۔ جس نے بوکھلاہٹ میں آگے بڑھ کر جلدی سے سکارف اسے دیا۔”اس کے دو حصے کرو جلدی۔ زیادہ آواز خطرناک ہے۔ ہمیں جلدی کچھ کرنا ہوگا۔” بخت نے فوراً اس کی تاکید پر سکارف کے دو حصے کیے۔ ایک سرا روحان نے لے کر اس کے ہاتھوں پر باندھا۔ جبکہ دوسرا سرا بختاور نے پیچھے سے آکر اس کے منہ پر باندھ دیا۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کا جھٹکے کھاتا وجود ایک طرف کو لڑھک سا گیا۔ ان دونوں نے بے اختیار گہرا سانس لیا۔”جلدی کرو نکلیں یہاں سے۔ اس سے پہلے کوئی اور بھی متوجہ ہو۔” روحان اسے اٹھا کر بولا۔