“میرے بیلٹ میں ایک ریوالور ہے۔ اسے لو اور جو راستے میں آۓ اڑاتے جاؤ۔” اس نے اپنی پینٹ کے پیچھے اڑسی ریوالور کی طرف اشارہ کیا۔ ساتھ ہی واکی ٹاکی بھی تھا۔ روحان نے اسے چلانے کو کہا اور خود آگے بڑھنے لگا۔ بختاور اپنے حواس بحال کرچکا تھا۔ پہلے جیسی بدحواسی ختم ہوچکی تھی۔ اس لیے فوراً روحان کی بیلٹ سے پسٹل نکالی، ساتھ ہی واکی ٹاکی لے کر آن کردیا۔ انہیں چلتے ہوۓ زیادہ دیر نہ گزری تھی جب واکی ٹاکی پر ظہیر احمد کی آواز گونجی۔ بخت نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔ روحان نے خاموشی سے سر اثبات میں ہلایا۔”وہ لوگ آچکے ہیں۔ ہمیں باہر نکلنا ہوگا۔” روحان نے سنجیدگی سے کہا تو بخت نے بھی بغیر کوئی احتجاج کیے سر ہلایا۔ وہ دونوں اسی راہداری سے واپس جارہے تھے، یہ ان کی قسمت تھی، معجزہ تھا یا کیا تھا کہ اس دفعہ انہیں کسی درندے کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ یا یوں سمجھ لیں کہ زندگی کے بڑے طوفان جو بڑی قربانی مانگتے ہیں، وہ دونوں ہی وہ قربانی دے چکے تھے۔ اب پیچھے صرف ان کے خستہ حال وجود تھے۔ قسمت مزید ان کے وجود کی قربانی چاہتی ہی نہیں تھی۔ وہ دونوں بغیر کوئی چاپ پیدا کیے چلتے جارہے تھے۔اندھیر گلی سے گزرتے ہوۓ ابھی چند لمحے ہی گزرے تھے کہ انہیں احساس ہوا جیسے پاس ہی کسی کمرے سے کسی کے غرانے کی آواز آئی ہو۔ پھر اچانک کوئی وجود اس دروازے کے ساتھ آ ٹکرایا اور تڑپتے ہوۓ دروازہ کھولنے کی تگ و دو کرنے لگا۔ یہ وہی کمرہ تھا جہاں سے کچھ دیر پہلے وہ لوگ نکلے تھے۔ اس اچانک افتاد پر وہ دونوں ہی تھراہ کے رہ گئے۔ بے اختیار ایک دوسرے کو دیکھا۔ اس سے قبل کہ بخت آگے بڑھ کر اندر دیکھتا روحان فوراً بول اٹھا۔”اندر مت جاؤ۔ یہ جنید کی آواز تھی۔ وہ انفیکٹڈ ہوچکا ہے۔” دوبارہ وہی دلخراش آواز سنائی دی اور ایسے لگا جیسے دروازے کی چٹکی اتری ہو۔ ساتھ ہی کمالہ کے بے سدھ پڑے وجود میں جھٹکے لگنے شروع ہوگئے۔”شاید یہ آواز کی وجہ سے ایسا ری ایکٹ کررہی ہیں۔ ہمیں جلد ہی یہاں سے نکلنا ہوگا!” بخت نے آہستگی سے کہا۔ روحان نے خاموشی سے سرہلادیا۔ پھر دونوں آگے بڑھنے لگے۔ لیکن چند قدم ہی اٹھاۓ تھے کہ ایک دم اسی کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے گرتا پڑتا جنید بوکھلاہٹ میں باہر بھاگا۔ وہ دونوں وہیں منجمند ہوگئے۔ ایسے جیسے برف کے مجسمے ہو۔ کمالہ کا وجود اب کہ کانپنے لگا تھا۔ وہ اس قدر کانپ رہی تھی کہ روحان سے اس کا جھٹکے کھاتا وجود کنٹرول کرنا مشکل ہوگیا۔ بخت نے بے اختیار آگے بڑھ کر اسے پنڈلیوں سے پکڑا۔ جنید نے پہلے ایک طرف دیکھا لیکن جیسے ان دونوں پر نظر پڑی فوراً ایک آس ایک امید لیے ان کی طرف بھاگنے کیلیے اٹھا کہ زخمی پیر مڑا اور راستے میں ہی گر پڑا۔ وہ دونوں تھوک نگلتے ہوۓ اسے دیکھ رہے تھے۔ جنید کی گردن، اور پاؤں بری طرح زخمی تھے۔ ہلکے رنگ کی شرٹ پر خون کی جیسے بالٹیاں انڈھیلی گئی تھیں۔ دوسری طرف چند ہی لمحے گزرے کہ خون سے لت پت خونخوار ارادے لیے رملہ باہر نکلی اور بغیر اردگرد دیکھے اپنے شکار پر پل پڑی اور اس وقت تک اپنا منہ اسکے ٹانگ پر گھساۓ رکھا جب تک جنید کے جسم کی آخری حرکت نہ ختم ہوگئی یا جب تک اس کے جسم میں خون کا ایک قطرہ نہ رہ گیا۔”پیچھے جاکر دروازہ کھولو۔” روحان نے بڑی آہستہ آواز میں کہا۔”لیکن۔۔۔””جاؤ!” روحان نے تنبیہی انداز میں کہا تو ناچار اسے دروازے کی سمت جانا پڑا۔ کمالہ کی طبعیت بگڑ رہی تھی۔ وہ اسے سنبھالتے ہوۓ الٹے قدم پیچھے ہٹنے لگا۔ جب دو قدم کا فاصلہ رہ گیا اور اسی وقت بخت نے دروازے کو ہلکہ سا گھسیٹا۔۔۔ آواز کی وجہ سے رملہ بہت جلد ہی ان کی طرف متوجہ ہوگئی۔ روحان نے کچھ سوچتے ہوۓ کمالہ کو وہیں لیٹایا۔رملہ کی حالت دیکھتے ہی دیکھتے خراب تر ہوتی جارہی تھی۔ روحان اسکی آنکھوں میں دیکھ رہا، بڑے محتاط انداز میں اپنے سامنے پڑی کمالہ کو پھلانگ کر اسکے مزید قریب ہوا۔ جو اس وقت گھٹنے جھکاۓ ، ہاتھ زمین پر رکھے کسی بھیڑیے کی طرح اسکا شکار کرنے والی تھی۔ اسکے منہ سے خون رالوں کی طرح ٹپک رہا تھا۔ جیسے وہ کوئی خون پینے والی چڑیل ہو۔”دروازہ کھولو!۔” اپنے سامنے کھڑی رملہ کو دیکھتے ہوۓ اسنے پھر بڑی آہستہ آواز سے کہا۔ نظریں ہنوز اسکی آنکھوں پر تھیں، شاید وہ اسے اشتعال دلانے کی کوشش کررہا تھا۔ رملہ کی تیز چلتی دھڑکن، اور اسکا تنفس پانچ سے چھ قدم کے فاصلے پر کھڑے روحان کو سنائی دے رہا تھا، اسکی آنکھوں کی حالت بڑی وحشت زدہ سی تھی۔ ایک دفعہ پلکیں جھپکتی تو آنکھوں کی پتلیاں سفید پڑ جاتیں، دوبارہ جھپکتی تو پتلیوں کے سامنے آئی سفید جھِلی چھٹ جاتی۔ بخت نے دروازے کو مزید گھسیٹ کر سارا کھول دیا۔