آواز پر رملہ جیسے چوکنی ہوئی، جیسے شکار سے پہلے بھیڑیے کی ساری توجہ ، اسکے اعصاب ایک ہی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔اسنے اپنے سامنے بیٹھے روحان سے نظریں ہٹائیں اور ایک جھٹکے سے اٹھ کر بختاور کی طرف دوڑی۔ لیکن روحان کیلیے یہی لمحہ کافی تھا۔ تنی رگوں کے ساتھ وہ اٹھا، اپنی طرف آتی رملہ کی گردن کو سامنے سے دبوچا، اس سے پہلے کہ وہ روحان پر حملہ کرنے کی کوشش کرتی روحان نے گردن سے دبوچ کر، ایک ہاتھ اسکے بائیں ہاتھ کی کہنی پر رکھا اور ایک زوردار جھٹکے سے اسکا سر دیوار میں دے مارا۔ ایک لمحے کا کھیل تھا اور رملہ کا شکار کرنے والا وجود شکار ہوکر زمین بوس ہو چکا تھا۔بختاور جو کہ دوسرا دروازہ کھولنے والا تھا ایک دم ساکت رہ گیا، ایک ان کہے احساس کے تحت اسنے گردن گھمائی۔ روحان گھنٹوں پر ہاتھ رکھے رکوع کی حالت میں کھڑا اپنا سانس استوار کررہا تھا۔ جبکہ رملہ! ۔۔۔اسنے مکینکی انداز میں نظریں گھمائیں ، وہ سامنے دیوار کے پاس گری ہوئی تھی۔ بخت نے بے اختیار تھوک نگلا۔ ایک خوبصورت لڑکی کے سر کی حالت اس وقت کسی کچلے ہوۓ تربوز کی طرح ہوچکی تھی۔ روحان نے ویسے ہی جھکے کھڑے اسکی طرف دیکھا، بخت ابھی بھی بے یقین سا تھا۔۔۔۔رملہ سے نظریں ہٹاکر اسے دیکھا جو اکھڑے سانس کے ساتھ مسکرادیا۔” سولہ!” اور بختاور جانتا تھا کہ اسنے سولہ کا لفظ کیونکر استعمال کیا تھا۔۔۔۔۔وہ ایک دم سنبھلا، ستائشی انداز میں ابرو اٹھاۓ۔ پھر جب بولا تو اسکی آواز میں ایک مصنوعی اداسی تھی۔“ آپ نے میری پہلی محبت کو ماردیا۔۔۔” ” اوہ کم آن بخت!” اسے ڈپٹتے وہ کمالہ کے ساکن وجود کی طرف آیا۔ اسے اٹھایا ، بخت نے وہاں گرا لکڑی کا ڈنڈا اٹھایا، پھر وہ دونوں وہ دروازہ پار کرگئے۔ اس ایک دروازے کو پار کرنے میں تین جانیں قربان ہوئی تھیں۔ بخت نے پیچھے مڑ کر دروازے کو دوبارہ بند کردیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ دونوں کمالہ کو لیے ایک کونے میں جاکر بیٹھ گئے ۔ اس کے ہاتھ اور پاؤں تو بندھے ہوۓ تھے مگر جسم کی کپکپاہٹ کبھی کبھی اس قدر زیادہ ہوجاتی کہ اسے سنھبالنا مشکل ہوجاتا۔ ساتھ ہی منہ سے عجیب قسم کی جھاگ نکلنے لگتی، وہ دونوں ہمت ہارے مایوسی سے ایک طرف ہوکر بیٹھ گئے اور دس دس منٹ بعد اس پر آنے والے دورے بے بسی سے دیکھنے لگے۔”سر میم۔۔۔””شٹ اپ بختاور!” وہ ڈرتے ہوۓ کچھ کہنے لگا ہی تھا کہ روحان نے درشتی سے اس کی بات کاٹ دی۔”میں تمہارے سارے ادھورے الفاظ کے مفہوم جانتا ہوں۔لیکن اسے یوں اس حالت میں چھوڑ کر نہیں جاسکتا۔ یہ میرے بس میں نہیں ہے۔” اس نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔ بخت چند ثانیے یونہی اسے دیکھتا رہا۔ یہاں پر رن وے کی روشنی آرہی تھی۔ کہیں کہیں زرد روشنی والے نائٹ پولز جل رہے تھے، وہ لوگ احتیاطاً ایک ایسے کونے میں بیٹھے تھے جہاں روشنی کم تھی اور پھر وہی بیٹھ کر ظہیر احمد کا انتظار کرنے لگے۔”آپ انہیں پسند کرتے ہیں نا؟” پرسوچ نظروں سے اسے دیکھتے ہوۓ کہا۔ روحان کچھ بول نہ پایا۔ بس خاموشی سے ائیرپورٹ کی چمکتی مدھم سی روشنیوں کو دیکھے گیا۔”کیا یہ ٹھیک ہوجائیں گی؟” کسی اندیکھے خوف کے تحت وہ بولا۔کئی لمحے خاموشی سے گزرگئے۔ بخت کچھ بول نہ پایا۔ وہ دونوں خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھ کر نظریں چراگئے۔ اس کا جسم نیلا پڑ چکا تھا، وردی کے فولڈ بازؤں سے بخوبی اس کی ابھری ہوئیں نسے نظر آرہی تھیں جو ہر دس سے پندرہ منٹ کے بعد نیلی پڑ جاتیں۔ جب بیماری کا دورہ جوش پکڑتا تو آنکھوں کی پتلیاں سفید پڑجاتیں اور ایسے لگتا جیسے نیلے رنگ سے اسکے چہرے کو دھاگا گیا ہو۔”اگر تم جانا چاہو تو جاسکتے ہو۔” روحان بڑے آہستہ الفاظ میں بولا۔”میں نہیں چاہتا میری وجہ سے تم کسی مصیبت میں پھنسو۔ کمالہ کے ساتھ رہنے کا فیصلہ میرا تھا۔ اگر تم ایسا کوئی ارادہ رکھتے ہو ، اور واپس جانا چاہتے ہو تو ابھی بھی وقت ہے۔” دوبارہ رات کی تاریکی میں اس کے شکستہ الفاظ گونجے۔ بخت کئی ثانیے اس کی اتری ہوئی شکل دیکھتا رہا۔”جب میں کچھ نہیں تھا تو انہوں نے میرا ساتھ دیا۔ آج اگر میں کچھ ہوں تو انہیں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا۔ میں آپ سے پہلے سے انہیں جانتا ہوں۔ میری والدہ کی وفات کے بعد آنٹی اور آپی واحد ایسی شخصیات تھیں جنہوں نے میرا ساتھ دیا۔ رشوت کے خلاف تھیں مگر میری وجہ سے رشوت بھی دی اور سفارش بھی کی۔ آج انہیں اکیلا چھوڑ کر بھگوڑا نہیں بن سکتا میں۔” وہ نم آواز میں کبھی آسمان کو اور کبھی کمالہ کے مردہ حالت پڑے وجود کو دیکھتے ہوۓ بات کررہا تھا۔”اس لیے اگر آپ چھوڑنا بھی چاہیں یا وقتی محبت سے دل بھر بھی جاۓ (روحان نے بڑی زہر بھری نظروں سے اسے دیکھا) تو میں کوئی اعتراض نہیں کروں گا۔ اگر آپ اپنی محبت سے سرینڈر کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں لیکن میرے لیے یہ مشکل ہے ۔ یہ آپ کی محبت ہونگیں لیکن اس سے پہلے میری ذمہ داری ہیں۔ میں پیچھے نہیں ہٹ سکتا!” آخر میں نفی میں سر ہلاکر اس نے ہری جھنڈی دکھادی۔ روحان بس خاموشی سے اسے دیکھے گیا۔ پھر مایوسی سے ہنس دیا۔ بڑی آسانی سے اس نے اس کی محبت کو وقتی جذبہ بول دیا تھا۔”اگر میری محبت وقتی ہوتی تو پچھلے آٹھ سالوں سے تمہاری بہن کے پیچھے خوار نہ ہوتا۔” اس نے جالی سے ٹیک لگا کر آنکھیں موندھ لیں۔ جبکہ بخت اس کی بات پر حیران رہ گیا۔”آٹھ سال؟””ہاں!””لیکن کیسے؟” اسے حیرانی ہورہی تھی۔”پتا ہی نہیں چلا ! یہ کسی کو ریسکیو کررہی تھیں (اسنے قصداً تھپڑ والی بات چھپائی اور ماضی کی وہ پہلی ملاقات بھی۔ اگر اسے تھپڑ والی بات بتاتا تو بخت اسکا ریکارڈ لگادیتا، اور پہلی ملاقات کا بتا کر وہ کمالہ کے نام کو خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اسلیے بات کو گول مول کردیا) اور وہاں میرے ساتھ کافی لڑائی کرکے واپس آگئیں۔” اس نے تھکے ہوۓ الفاظ میں وہ واقعہ سنایا جب دوسری دفعہ اس نے کمالہ کو دیکھا تھا۔ اس سے قبل وہ اس سے اس کی کالونی میں ملی تھی، گھبرائی ہوئی۔ زخمی سا مسکراتے ہوۓ بات جاری رکھی۔”یہ تو واپس آگئی مگر میرا دل بھی اپنے ساتھ ہی لے آئیں۔” اگرچہ اس کے الفاظ میں عقیدت تھی، سچائی تھی، ہر وہ مخلص جذبہ تھا جو ایک لڑکی چاہتی ہے مگر بخت اس کے آخری الفاظ پر کھل کر ہنس دیا۔”آپ عاشق تو نہیں لگتے!” کیسا دلگیر جملہ تھا۔”محبت میں پائیداری نہ ہو تو وہ محبت نہیں ہوتی۔ سودے بازی ہوتی ہے اور میں سودے باز نہیں بننا چاہتا۔ میرا کمفرٹ زون یہی ہیں۔” اسنے کسی غیر مرئی نقطے کو دیکھتے ہوۓ کہا۔ پھر اچانک اسکی طرف دیکھ کر بولا۔”ویسے تمہیں نہیں ہوئی محبت کسی سے؟” ۔ نہ تو وہ ایسی محبت بھری باتیں کرنے والا مرد تھا، نہ ہی اس نے کبھی کسی سے اس بابت سوال کیا تھا مگر آج نجانے کیوں پوچھ بیٹھا۔ شاید وقت گزاری کیلیے۔ بخت چند پل اسے گھورتا رہا پھر بڑی ہی آہستہ آواز میں بولا۔”تھوڑی دیر پہلے ہوئی تھی۔ لیکن وہ بھی زومبی بن گئی۔” اس نے کچھ ایسی اتری شکل بنائی کہ روحان اپنی ہنسی کنٹرول نہ کرسکا۔”یہ محبت تو نہیں تھی۔ یہ تو وقتی جذبہ تھا۔” اس نے جیسے چوٹ کرنی چاہی۔”محبت بھی ہے لیکن۔۔۔” وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا۔ الفاظ جیسے ٹوٹنے لگے۔”سر۔۔۔”روحان کے عین پیچھے کھڑے وجود کو دیکھ کر بخت کی زبان لڑکھڑائی۔ روحان نے الجھن سے اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا۔ ان سے چند قدم کے فاصلے پر کوئی وجود ننگے پاؤں کھڑا تھا۔ چونکہ وہ لوگ قدرے اندھیرے میں تھے، شاید اس لیے ابھی تک وہ ان تک پہنچ نہ پایا تھا۔ روحان نے بخت کو چپ رہنے کی تاکید کی۔”یہ ہمیں دیکھ نہیں سکتا۔ اگر آیا بھی تو آواز کی وجہ سے ہماری طرف آۓ گا۔”وہ مزید اندھیرے کی طرف خود بھی بڑھا اور ساتھ بخت کو بھی اسی طرف ہونے کو کہا۔ پھر وہ لوگ خاموشی سے اس شخص کی طرف دیکھنے لگے جو اب بار بار اردگرد دیکھ رہا تھا۔ شاید وہ سونگھ رہا تھا ۔”یہ ہے تو درندہ ہی نا؟ پاگلوں جیسی حرکتیں کیوں کررہا ہے؟۔” بخت نے پوچھا۔”خود پوچھ لو جا کے۔” روحان اس کی زبان سے بیزار بڑے کڑے تیور لیے بولا۔ بخت بس اسے دیکھ کر رہ گیا۔ پھر پاس ہی گھاس سے چھوٹا سا کنکر اٹھا کر اپنی مخالف سمت میں پھینک دیا۔ وہ شخص بری طرح چونکا اور پھر آواز کے تعاقب میں بھاگا۔”ارے واہ عقل آگئی ہے تمہیں! امپریسو۔” روحان اسے سراہے بغیر نہ رہ سکا۔
★_______________★