The last nightZainab nasar khan
___________
دروازہ کھل چکا تھا۔ وہ آگے بڑھنے لگا ہی تھا کہ کمالہ انہیں پیچھے کرتی، فوراً آگے بڑھی اور دروازے کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ ان دونوں کو اطراف میں بنے کونے جہاں گملے رکھے گئے تھے، وہاں قدرے فاصلے پر ہونے کو کہا۔ مخصوص انداز میں اس نے خطرے کا اشارہ دیا۔ عِزہ اور اصوب دونوں ہی الرٹ ہوۓ۔ روحان بھی سنجیدہ سا تیار کھڑا تھا۔ دروازہ کھل چکا تھا۔ تھوڑی ہی دیر گزری کہ ایک دم خون سے لت پت گارڈ باہر نکلا۔ اس کی شکل اس قدر ہیبت ناک تھی کہ عِزہ جو کونے میں روحان اور اصوب کے ساتھ کھڑی تھی، اس کا دل جیسے باہر آنے کو ہوگیا۔ بے اختیار چہرے پر ہاتھ رکھا۔ وہ شخص بہت دور نہ تھا، اس لیے اس کے چہرے کے خدوخال اور عجیب سی شکل نے اسے قے دلوادی۔ ایک دم اندر سے نکلنے والا عجیب لڑکھڑاہٹ والا شخص چونکا اور کرنٹ کھا کر اس نے گردن طرف گھمائی۔ وہ اپنے عین سامنے کھڑی کمالہ کی طرف نہ دیکھ رہا ہے اور نہ ہی اسے کسی قسم کی خوشبو آرہی تھی۔ اس سے قبل کہ وہ آگے بڑھ کر عِزہ پر حملہ آور ہوتا، کمالہ نے ہاتھ میں پکڑا راڈ اس شخص کے سر پر مارا اور پھر اس کا سر دیوار کے ساتھ دے مارا۔ وہ تینوں حیرت زدہ رہ گئے۔ اندر سے دوبارہ کوئی شخص باہر نکلا، وہ آغا بخش تھے۔ روحان انہیں دیکھتے ہوۓ فوراً آگے بڑھا۔ جبکہ کمالہ آنکھیں سکیڑیں، اور بڑی گہری نظروں سے انہیں دیکھنی لگی۔ بظاہر وہ ٹھیک تھے، کہیں کوئی زخم نہ تھا مگر اسے ان سے ایک عجیب قسم کی بو ضرور آئی ۔ قدرے الجھن اور چونکتے ہوۓ نیچے ان کی پنڈلیوں کی طرف دیکھا۔ “آپ ٹھیک ہیں دادا؟ مجھے پتا ہی نہیں چلا وہ شخص انفیکٹڈ ہے۔ آپ ٹھیک ہیں نا؟” روحان کی جان پر بنی ہوئی تھی۔ ان کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لے کر بےتابی سے پوچھا۔