ان کے پیچھے باقی ماندہ ٹیم ممبران بھی اندر داخل ہوتے گئے۔ کچن پار کرکے وہ لوگ مزید آگے بڑھے۔ ٹک شاپ میں داخل ہوۓ تو اس کی حالت کچن سے ابتر تھی۔ ہر چیز بکھری ہوئی تھی۔ کئی ریکس خالی ہوچکی تھیں اور ان پر لگے خون کے نشانات۔۔۔ ان دونوں نے بے اختیار ایک دوسرے کو دیکھا۔ دونوں کی آنکھوں میں اس وقت ایک خوف سا تھا۔ پھر خاموشی سے آگے قدم بڑھاۓ ہی تھے کہ اچانک کمالہ کا پاؤں کسی شاپر پر آ لگا۔ شاید وہ پیکٹ تھا۔ بھاری بھرکم بوٹوں کی وجہ سے پورا ہال ایک پٹاخے کی سی آواز سے گونج اٹھا تھا۔ سب نے بے اختیار اس کی طرف دیکھا۔ وہ بے چارگی سے انہیں دیکھ کر رہ گئی۔ قریب ہی کئی وجود ایسے تھے جن میں کرنٹ سا دوڑ گیا۔ چیخیں اور عجیب سی غراہٹ پیدا ہونے لگیں۔ ہر طرف جیسے یہی آوازیں تھیں۔”جلدی کرو۔ ہمیں یہاں سے نکلنا ہوگا!” وہ لوگ ادھر ادھر توجہ دئیے بغیر ٹاک شاپ سے باہر بھاگے۔ جیسے ہی وہ لوگ باہر آۓ تو وہاں کی حالت دیکھ کر سبھی کی حالت بری ہونے لگی۔ سامنے کئی وجود بے جان ہوۓ پڑے تھے۔ بختاور نے آگے بڑھ کر ایک کی نبض چیک کی۔ زندگی کا کوئی آثار نہ ملا تو انہیں دیکھتے ہوئے نفی میں سرہلایا۔ ایک دم وہ سبھی ساکت رہ گئے۔بخت کی پیچھے کوئی طوفان کی تیزی سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ کمالہ کی رنگت ایک دم متغیر ہوئی۔ وہ کوئی آدمی تھا یا درندہ، وہ سمجھ نہ پائی۔ نہ ہی سمجھنے کا وقت ملا۔ کیونکہ وہ شخص فوراً بختاور پر حملہ آور ہوچکا تھا۔بختاور مزاحمت کرتے ہوۓ نیچے زمین پر گرگیا۔ لیکن اس سے قبل کے وہ بلا اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی، کمالہ نے ایک گولی چلائی اور اس کے دماغ کے آر پار کردی۔ ائیر پورٹ کے باہر کھڑے وہ لوگ گولی کی آواز پر ایک دم چونکے۔