“اوہ نو نو نو۔۔۔۔” عِزہ نے روتے ہوۓ بے اختیار کہا۔ جبکہ حالات اصوب کے بھی مختلف نہ تھے۔دوسری طرف کہیں سے کوئی شور پیدا ہوا اور اندر کھڑی قیامت ان کی طرف متوجہ ہوگئی۔ وہ دونوں اس وقت بلڈنگ کی صحن نما جگہ پر موجود تھے۔ اندر ہال میں کئی سو کی تعداد میں متاثرہ افراد تھے تو مین گیٹ پر بھی کئی درندے تھے۔ وہ دونوں عجیب سی صورتحال کا شکار ہوچکے تھے۔ جہاں کہیں دیکھتے وہی وہ لوگ تھے، کہیں کوئی جاۓ فرار نہ بچی تھی۔ “ یااللہ خیر!” بے اختیار اپنے چہرے سے پسینہ صاف کرتے ہوۓ وہ بولا۔ لیکن جیسے ہی عِزہ کی طرف دیکھا۔ اس کی حالت ایسی تھی کہ انتشار کی کیفیت میں اپنے دونوں ہاتھوں سے سر کے بالوں کو جکڑا اور منتشر سی اردگرد دیکھنے لگی۔ اصوب بھی اندر سے ڈر رہا تھا، چاہے جتنی مرضی بہادری کیوں نہ ہو، ایسی صورتحال میں جہاں صرف ایک ہی حل نکلتا ہو اور وہ حل آپ کی موت ہو تو شاید ہی کوئی ہوگا جس میں بہادری باقی رہے۔ اس کے دل کو نہ جانے کیا ہوا، اس نے آگے بڑھ کر روتی بلبلاتی عِزہ کے کندھوں پر ہاتھ رکھیں۔ “میری طرف دیکھو! ۔” اس کا چہرہ سامنے کرتے ہوۓ وہ بولا۔ عِزہ نے بےبسی سے اسے دیکھا۔ چہرے پر پسینے اور آنسو کے قطرے گھل گئے تھے۔“ ہم یہاں سے نکلیں گے، صحیح سلامت!” اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ وہ سمجھ نہیں پایا کہ وہ اسے تسلی دے رہا تھا یا خود کو۔ کیونکہ اس وقت ایک ایسی قیامت ان کے اردگرد تھی کہ وہ دونوں اپنی اپنی فیلڈ کے بہادر سپاہی، جیسے ہتھیار ڈال ہی چکے تھے۔اس کا ہاتھ پکڑے وہ فیصلہ کن انداز میں اردگرد دیکھنے لگا۔ جلد ہی اسے ایک پولیس موبائل دکھائی دی، یہ گاڑی کافی دیر سے وہاں کھڑی تھی مگر وہ لوگ اس پر توجہ نہ دے سکے ۔ ابھی دیکھا تو اس نے فوراً اس کی طرف قدم بڑھادئیے۔ لیکن چند قدم کا فاصلہ طے ہوا تھا کہ ایک دم انہیں کہیں سے کانچ کے بری طرح ٹوٹنے کی آواز آئی، ایسے لگا جیسے شیشے کی دیوار میں دراڑ پڑی ہو، مڑ کر دیکھا، اور مکینکی انداز میں دونوں کی نظریں اٹھیں ۔ ایک ساتھ کئی وجود زمین پر گرتے چلے گئے، دونوں نے حیرت و بے یقینی کے ساتھ ایک دوسرے کو دیکھا اور بے اختیار تھوک نگلا۔وہ لوگ۔۔۔ وہ لوگ متاثرہ افراد تھے جو بھوکے بھیڑیوں کی طرح بلڈنگ کے اوپری مالے سے گرنے کے باوجود ، بغیر رکے ، لنگڑاتے ہوۓ اپنے شکار کی طرف بھاگ رہے
The Last Night Zainab Nasar Khan Episode#15
