سب سے آگے کمالہ اور روحان تھے، درمیان میں جنید اور رملہ جبکہ آخر میں بختاور تھا۔ وہ سب بغیر چاپ پیدا کیے آگے بڑھ رہے تھے۔ اس وقت وہ لوگ کوریڈور نما راستے سے ہوتے ہوۓ ایک راہداری میں آچکے تھے۔ جہاں بالکل سامنے اوپر کرکے ڈیپارچر اور ارائیول کی نشاندہی کی گئی تھی۔ یہاں سے نکل کر ان لوگوں نے رن وے کی طرف جانا تھا۔وہ لوگ ایک راستے سے اندر کی طرف بڑھ گئے۔ اس سے قبل شاید ہی وہ اس ائیرپورٹ کو مکمل طور پر دیکھ پاتے۔ لیکن آج تو جیسے ہر چیز کو حفظ کرلیا تھا۔ کہاں کونسا دفتر تھا، کہاں کتنی راہداریاں تھیں، لابی کس طرف تھی، جس چیز میں کبھی دلچسپی نہ ہو، آج ان چند گھنٹوں میں ان سبھی نے وہ بھی دیکھ لی تھیں۔ ڈیپارچر سے اندر داخل ہونے کے بعد انہیں ایک دفعہ پھر ایک راہداری کا سامنا کرنا پڑا۔ بس فرق یہ تھا کہ یہاں اطراف میں شیشے کی دیواریں تھیں اور ایک ہی راستہ جس سے ہوکر باہر نکلنا تھا۔ وہ لوگ بڑی خاموشی سے آگے بڑھ رہے تھے جب راہداری کے اختتام پر جہاں سے ان لوگوں نے باہر نکلنا تھا ایک دم کسی کے غرانے کی آواز آئی۔ وہ سبھی ایک پل کو منجمند ہوگئے۔ یہاں پر روشنی کافی زیادہ تھی۔ سبھی کے چہرے لٹھے کی مانند سفید پڑ گئے۔ کمالہ نے تھوک نگلا اور بے اختیار اپنی بندوق نکالی۔ جبکہ روحان نے خاموشی سے آگے بڑھ کر ذرا سا باہر دیکھا۔ وہاں کئی درندے کھڑے تھے اور عجیب عجیب سی آوازوں میں غرا رہے تھے۔ واپس مڑ کر اس نے ان سبھی کو دیکھا جو ڈرے سہمے اس کے اشارے کے منتظر تھے۔ کمالہ نے روحان کے چہرے پر پھیلی ناامیدی دیکھی، تو لب بھینچ کر بندوق پر گرفت مضبوط کی۔ لیکن اس سے قبل ہی وہ بول اٹھا۔”اگر تمہارے پاس اتنی گولیاں نہیں کہ ان سب کو ختم کر سکو تو صرف ایک گولی چلا کر اپنی موت کو بلاوا بھی مت دو! تمہاری بندوق میں اب صرف ایک گولی ہے اور اس وقت وہ لوگ تعداد میں بہت زیادہ ہیں۔ ہم لڑ بھی نہیں پائیں گے!” اس نے بڑی آہستگی سے اس کے کان کے قریب آکر کہا تاکہ شور نہ ہو۔ کمالہ کا دل کیا سب تہس نہس کردیتی۔ آخر کب تک وہ لوگ اس قیامت خیز رات کا مقابلہ کرتے رہتے۔ایک اندیکھے اشتعال نے اسکے اندر سراٹھایا۔”آخر کب تک یہ سب سہنا پڑے گا؟ یا خدا!” وہ اپنے آپ میں چلائی۔ ذہنی اور جسمانی طور پر وہ اس قدر تھک چکی تھی کہ چاہتی تھی اس رات کی جلد از جلد صبح ہوجائے۔ کیسے بھی کرکے یہ قیامت ڈھلتی۔ باقی سب کی بھی یہی حالت تھی۔ وہ سب ذہنی طور پر بہت زیادہ تھک چکے تھے۔ ہر طرف ڈر، خوف اور سراسیمگی کی کیفیت تھی۔ روحان نے اس کی حالت دیکھی تو بے اختیار آگے بڑھ کر اس کا سر اپنے کندھے پر رکھ دیا۔ وہ بہت بہادر تھی، کبھی نہ رونے والی۔ اس کا خیال تھا کہ رونا دھونا کئی سال پہلے ہی اس کی زندگی سے نکل چکا تھا۔ مگر آج اندازہ ہوا کہ وہ آج بھی ویسی ہی تھی۔ تکلیفیں حد سے زیادہ بڑھ جائیں تو پتھر دل انسان بھی ریزہ ریزہ ہوجاتے ہیں۔ روحان اسے اس وقت تک دلاسہ دیتا رہا جب تک اس کی بندھی ہوئی ہچکی ختم نہ ہوگئی۔ رملہ اور جنید بھی آنسو بہا رہے تھے، بختاور کی حالت بھی ان سے مختلف نہ تھی۔ بلکہ اس کی آنکھوں میں ابھرتی سرخ لکیریں اس بات کی وضاحت تھی کہ وہ رورہا تھا۔ روحان نے گہرا سانس بھرا۔”ششش۔ بالکل چپ۔ اب رونا نہیں۔ اگر یہیں رہے تو یہ لوگ بہت جلد ہماری طرف متوجہ ہوجائیں گے۔” تھوڑی دیر بعد اس نے کمالہ کا چہرہ اوپر کرکے آنسو صاف کیے، بالوں کو پیچھے کیا۔ اس کا حجاب بہت خستہ حال ہوچکا تھا، جا بجا بال نکل کر باہر آرہے تھے۔”پھر اب؟” بختاور نے کہا۔”قریب ہی ایک چھوٹا سا روم ہے۔ شاید کسی سٹاف ممبر کے استعمال میں تھا۔ ہم وہاں ٹھہر سکتے ہیں جب تک یہ لوگ یہاں سے نہیں جاتے۔” آتے ہوۓ وہ ادھ کھلے دروازے والا کمرہ دیکھ چکا تھا۔ “لیکن یہ لوگ کب تک یہاں سے نکلیں گے؟” کمالہ نے پوچھا۔ رونے کی وجہ سے اس کی آواز بھاری ہورہی تھی۔”یہ لوگ زیادہ دیر تک ایک جگہ پر نہیں ٹکتے، انہیں خون کی طلب جگہ بدلنے پر مجبور کرتی رہتی ہے۔ اس لیے ہوسکتا ہے ایک آدھ گھنٹے تک یہاں سے چلے جائیں۔” روحان نے اپنا اندازہ بتایا۔”چلیں؟” کمالہ کو کہتے ہوۓ اس نے باقی سب کو دیکھا۔”یہ راہداری باقی سبھی جگہوں سے سیف ہے۔ اس لیے ہم اس روم میں صبح تک بھی گزارہ کرسکتے ہیں۔” وہ کہتے ہوئے احتیاط سے آگے بڑھ کر راہداری کے اختتام پر موجود دروازے کو لاک کرنے لگا۔ ایک دروازے کو پکڑا پھر دوسرے کو پکڑنے لگا ہی تھا کہ پیچھے کھڑی رملہ کے ہاتھ سے کرسی کا ٹکڑا چھوٹ کر نیچے زمین پر گرا۔ روحان جو ایک دروازے کو پکڑے کھڑا تھا، ایک دم رک گیا۔ بے بسی سے مڑ کر دیکھا۔سامنے کھڑے کئی درندوں کی گردنیں گھومیں اور بغیر کسی لمحے کی تاخیر کیے وہ گرتے پڑتے اس کی طرف بھاگنے لگے۔ قریب ہی کھڑی وہ دیکھ چکی تھی۔”بختاور انہیں لے کر روم میں جاؤ جلدی!” اسے بول کر وہ فوراً روحان کی طرف بھاگی اور دوسرے دروازے کو پکڑ کر بند کرنے کی کوشش کرنے لگی۔ جالی دار دروازہ اگرچہ لوہے کی سیخوں سے بنا تھا، مگر ان لمبے لمبے راڈ میں کافی فرق تھا۔ وہ لوگ دروازے کو توڑنے کی سرتوڑ کوشش کرنے لگے۔ کمالہ اپنے سامنے کھڑے ہٹے کٹے درندوں کو کسی طرح سے روک تو سکتی تھی مگر وہ روحان کو اکیلا چھوڑ کر بھاگنا نہیں چاہتی تھی۔”تم پاگل ہو؟ واپس جاؤ۔” دروازے پر زور سے دباؤ ڈالتے وہ دھاڑا۔”ہمارے پاس بحث کا وقت نہیں ہے۔
The LLast Night by Zainab Nasar Khan Episode 12
