“بختاور۔” ہنوز کمالہ کو دیکھتے ہوۓ وہ بختاور سے مخاطب ہوا۔ “اس کمرے کا دروازہ کھلواؤ۔ اگر وہ نہیں کھولتے تو نزدیک کہیں اور کوئی سیف جگہ ڈھونڈو۔” اس نے ایک پل کو اسے دیکھا پھر دوبارہ کمالہ کی طرف دیکھنے لگا۔”کیا تم ٹھیک ہو؟””ہمم!۔”تھوڑی سی جدو جہد کے بعد دروازہ کھل چکا تھا۔ شاید وہ لوگ بھی ڈر چکے تھے۔ اسی لیے یوں بھاگے جیسے جان کے لالے پڑیں ہو، جن حالات میں وہ اب تک یہاں پہنچے تھے ایسے میں سروائیو کرنا ایک بہت ہی مشکل امر تھا۔ وہ دونوں کم ہمت، اور شاید بزدل بھی ہوتے مگر جب کمالہ جیسی دلیر لڑکی ڈر سکتی تھی تو جنید اور رملہ تو کچھ بھی نہ تھے۔ اور اپنی جان کسے نہیں پیاری ہوتی۔ “سر آجائیں۔””چلو!” وہ اس کے گرد بازو حمائل کیے اسے اس کمرے میں لے گیا۔ جہاں اس وقت وہ دونوں بہن بھائی ڈرے سہمے بیٹھے تھے۔ اس سے قبل کہ بختاور آگے بڑھ کر ان کی غداری پر اس لڑکے کو سبق سکھاتا جس نے انہیں دیکھ کر چٹکی چڑھادی تھی۔ روحان اس سے قبل ہی بول پڑا۔ “رہنے دو بختاور۔ یہ لوگ بھی ڈرے ہوۓ ہیں۔””لیکن سر ان کی وجہ سے آپی کو تکلیف پہنچی۔انہوں نے جان بوجھ کر ایسے کیا تھا۔”“ اوہ شٹ اپ! مجھے کوئی شوق نہیں کسی کو مروانے کا، اور نہ ہی انکے مرنے سے مجھے کوئی فائدہ حاصل تھا۔” رملہ نے تنک کر اسے کہا۔ پھر روحان کی طرف دیکھ کر بولی۔۔۔۔”سمپل سی بات ہے کہ ان لوگوں کی شکلیں اتنی ڈرراؤنی تھی کہ میرے ہاتھ سے وہ ٹکڑا نیچے گرگیا۔۔۔”“ پکڑ کے نہیں تھی رکھ سکتی؟۔۔۔۔ اتنی ہی کمزور گرفت ہے تمہاری؟” بخت کو عجیب سی الجھن ہورہی تھی اس لڑکی سے۔ نجانے کیوں پر بار بار اسے یہی لگ رہا تھا کہ اسنے جان بوجھ کر آواز پیدا کی تھی ۔ تاکہ وہ لوگ انہیں نقصان پہچانے کی کوشش کرتے۔”سٹاپ اٹ بخت! جو ہونا تھا ہوگیا۔ کسی کو بلیم مت کرو۔” کمالہ نے بیزاری سے انہیں دیکھ کر کہا۔ اس نے محسوس کیا تھا وہ شور برداشت نہ کرپارہی تھی۔روحان بس چپ چاپ انکی باتوں کو جیسے ان سنا کررہا تھا۔”صحیح کہا۔ جو حالات ہیں اس وقت کسی کو بلیم کرنا اچھی بات ہے بھی نہیں!” رملہ اپنے آپ کو کسی نتیجے پر پہنچا کر بولی۔ روحان اس کی طرف متوجہ نہ تھا۔ اس کی ساری توجہ کمالہ کی کلائی پر تھی جو دیکھتے ہی دیکھتے نیلی پڑی جارہی تھی۔ اس نے ایک دفعہ نظر اٹھا کر اسے دیکھا، کمالہ کی آنکھوں میں موجود خوف دیکھ کر اس کا دل پسیجنے لگا۔ دوسری طرف رملہ مزید بول رہی تھی۔”آپ لوگوں نے زبردستی کرکے ہم سے دروازہ کھلوالیا اور ہم نے کھول دیا مگر۔۔۔” وہ رکی۔ سب کی گردنیں اس کی طرف مڑیں۔ روحان نے ایک اچٹتی نظر اس پر ڈالی۔”یا تو آپ لوگ یہاں سے چلیں جائیں یا پھر ہم۔” اس سے قبل کے وہ مزید بولتی، جنید نے اسے ٹہوکا دیا اور بڑبڑانے کے سے انداز میں بولا۔”کیا کہہ رہی ہو؟ ہم کہاں جائیں گے ؟ انہیں ہی جانے کو کہو۔” بختاور ان کے قریب ہی تھا جنید کی بڑبڑاہٹ کو بخوبی سن چکا تھا۔ آگ بگولہ ہوکر اس کے گریبان کو جاپکڑا۔”سالے! انسان ہے یا حیوان؟ ترس نہیں ہے تیری آنکھوں میں؟ ہم نے تجھے اتنی دیر بچایا اور اب تو ہمیں یہاں سے نکال رہا ہے؟”روحان تلخی سے ہنس دیا۔ کرپشن اور غداری اداروں میں نہیں، انسانوں میں ہوتی ہے اور یہ کسی موروثی مرض کی طرح نسل در نسل چلتی ہے۔ اسے آغا بخش کی کہی گئی بات یاد آگئی۔ وہ سسٹم کو کنٹرول نہیں کرسکتا تھا، یہ بات جانے بغیر کہ سسٹم تو انسان ہی خراب کرتے ہیں۔ اسے اپنے کئی سوالوں کا جواب آج ملا تھا۔ جہاں جہاں جس جس کی گردن پر چھری رکھی گئی، جسے جسے ڈرایا گیا یا تو اس نے قدم پیچھے کو اٹھا لیے یا آگے بڑھ کر ان انسانی شکل کے درندوں کے ساتھ ہاتھ ملا لیے۔ اور ایک آدم خور کہلایا! کمالہ روحان سے اپنا ہاتھ آہستگی سے چھڑاتی ان دونوں کے مقابل آکھڑی ہوئی۔ وہ دونوں اس سے ڈرتے ہوۓ پیچھے ہٹے۔”ڈریں نہیں۔ میں ابھی ٹھیک ہوں۔ مجھے دس منٹ ہوچکے ہیں انفیکٹڈ ہوۓ۔ ہوسکتا ہے یہ پراسیس تھوڑا لمبا ہو۔ اس لیے آپ دونوں یہی پر رہیں۔ اگر مجھے کچھ ہوا تو۔۔۔”اس نے بارے باری روحان اور بختاور کو دیکھا۔ “روحان اور بخت مجھے سنبھال لیں گے۔ میں ایک ہوں اور باہر کئی زیادہ۔ نہ ہمیں بھیجیں، نہ اپنی جان خطرے میں ڈالیں۔”اس نے جیسے التجا کی۔”ہم اس کے ساتھ نہیں رہیں گے۔ کیا پتا تھوڑی دیر تک یہ بھی ہمیں کاٹنے کو دوڑے۔۔۔” رملہ کو ان کی باتوں پر مطمئن ہوتا دیکھ کر جنید فوراً بولا۔ کہیں نا کہیں رملہ بھی یہی چاہتی تھی۔ روحان انکی بات پر لب بھینچ گیا۔ کمالہ بھی اندر سے ڈر چکی تھی۔”ہاں! تم باہر چلی جاؤ اور کوئی اور جگہ ڈھونڈ لو۔ یہاں پر ہم ہیں۔ تھوڑی دیر تک تو اثر ہونا شروع ہوجاۓ گا نا! مہربانی کرو اور کسی اور جگہ جاؤ۔” اب کہ رملہ کی نظر اس کے زخم پر پڑی تو دو قدم پیچھے ہوکر بولی۔ کمالہ بے چارگی سے سر جھکا گئی اور اپنی کہنی کو دیکھنے لگی۔ وہاں دانت کے نشان تھے اور خون رس رہا تھا۔ آنکھیں جھل مل کرنے لگی۔ روحان اس کے جھکے سر کو دیکھ کر چپ سا کرگیا۔ پھر نجانے کیا سوجھی کہ فوراً اس کی طرف بڑھا۔”تمہارے پاس ہینڈ کفس(ہتھکڑی) ہیں؟” اس کے بے تکے سوال پر کمالہ نے اچنبھے سے اسے دیکھا۔ پھر سر ہلا کر بیلٹ کے ساتھ اٹکی ہتھکڑی اسے دی۔”کیا کررہے ہو؟” روحان نے اپنے بائیں ہاتھ پر باندھنی شروع کی تو وہ فوراً الجھن سے بولی۔ روحان خاموشی سے لگا رہا۔ اپنے ہاتھ پر باندھنے کے بعد اس نے کمالہ کا ہاتھ آگے کیا اور ہتکھڑی کا دوسرا حصہ اس کے دائیں ہاتھ میں باندھ دیا۔ اب کہ اسے سمجھ آئی تو بغیر پلک جھپکے اسے دیکھے گئی۔
The LLast Night by Zainab Nasar Khan Episode 12
