وہ کیا کررہا تھا۔ اپنی جان خطرے میں ڈال رہا تھا صرف اس کے لیے۔ کیا وہ شخص پاگل تھا؟ وہ اس کی نظروں کا تسلسل محسوس کرسکتا تھا۔”میرا ایک اصول ہے۔ جو میری جان بچاۓ میں اس کی جان بچاتا ہوں۔ پھر چاہے وہ کوئی خونخوار انسان کیوں نہ ہو۔” وہ مسکراتے ہوۓ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا۔”تمہیں ڈر نہیں لگ رہا؟ اگر تھوڑی دیر تک میں واقعی ان لوگوں کی طرح کاٹنے لگی تو؟” شیشے کے پار دیکھتے ہوۓ اس نے بےتاثر سے لہجے میں پوچھا۔”میں اب تک پندرہ لوگوں کی جان لے چکا ہوں۔ تمہیں لگتا ہے کہ تم سے ڈروں گا؟” اس نے ابرو اٹھا کر دوبارہ سے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔ اب کہ کمالہ زیادہ دیر ان آنکھوں میں دیکھ ہی نہ پائی۔ نظروں کا زاویہ بدل کر دوبارہ باہر دیکھنا شروع کردیا۔ زندگی میں پہلی دفعہ اس نے نظروں کا زاویہ بدلا تھا، دل کی دھڑکن بے ترتیب ہوئی تھی۔ مرد اس طرح کے بھی ہوتے ہیں اور شہریار جیسے بھی۔ بیچ راہ میں چھوڑنے والے! ۔۔۔۔۔اتنے کٹھن وقت میں، جب کمالہ سے کچھ بعید نہ تھا کہ اگلے چند لمحوں میں وہ واقعی ایک خونخوار درندہ بننے والی تھی، وہ اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر ، اپنے آپ کو اسکے ساتھ باندھ رہا تھا۔ حالانکہ اس بیماری کی شدید نوعیت یہ تھی کہ انسان اپنے سگے رشتے تک پہچان نہیں سکتا تھا۔ ماں بیٹی کو، بھائی باپ کو مار رہا تھا اور وہ؟۔۔۔۔۔وہ اسکے لیے اپنی جان داؤ پر لگا رہا تھا۔ محض اپنے اصول کی خاطر، یا کسی اور جذبے کے تحت!۔ بے اختیار اسکے اندر کچھ ڈوب کر ابھرا۔”تم لوگ میرے ساتھ سیف ہو!” اس نے ان دونوں کی طرف دیکھ کر بولنا شروع کیا۔ کمالہ بھی سنجیدگی سے اسے دیکھنے لگی۔ سبھی نے ہاں میں گردن ہلائی۔ وہ روحان ہی تھا جس کے بل بوتے پر وہ دونوں اب تک زندہ تھے۔ مس سونیا کے انفیکٹڈ ہونے سے لے کر اب تک وہ اکیلا ان دونوں کی مدد کررہا تھا۔ یہاں تک کہ اس نے دو سے تین دفعہ انہیں سیف جگہ پہنچانے کی کوشش کی لیکن وہ دونوں اس کے ساتھ رہنے پر بضد تھے۔ روحان ایک تاسف بھری نظر سے انہیں دیکھتے ہوۓ مزید بولا۔”لیکن میں ان کے ساتھ سیف ہوں۔ مجھے لگتا ہے اگر یہ میرے آس پاس رہیں تو مجھے کچھ نہیں ہوگا۔ نہ یہ مجھے کچھ ہونے دیں گی۔” اس نے دوبارہ اس کی طرف دیکھا۔”اب آپ لوگوں پر ہے۔ یا تو ہمارے ساتھ رہیں اور سیف رہیں یا پھر اگر ہم میں سے کوئی نکلا تو ہم دونوں جائیں گے، اور ہمارے ساتھ بختاور بھی۔” اس نے سنجیدگی سے کہا اور اسے لیے ایک کونے میں جاکر نیچے بیٹھ گیا۔ بخت ان دونوں کو آنکھوں ہی آنکھوں میں جتاتے ان دونوں کے پاس جاکر بیٹھ گیا۔”سر!” بختاور بولا۔ روحان اور کمالہ دونوں ہی چونکے۔”ہاں۔””یہ بیماری تو کافی خطرناک ہے۔ میں نے ایسی کئی موویز بھی دیکھی ہیں۔””اچھا!” روحان بجھی ہوۓ انداز میں بولا۔ کمالہ کو اس کی آواز کے پیچھے چھپی مایوسی کا اندازہ ہوا تو فوراً آگے ہوکر بولی۔”کیا دیکھا ہے موویز میں؟” اگرچہ اس کا پورا جسم بار بار اکڑ رہا تھا، اندر جیسے چونٹیاں دوڑ رہی تھیں۔ مگر وہ ہمت ہارے بغیر خود کو ہشاش بشاش ظاہر کرتی بولی۔ رملہ اور جنید ایک کونے میں جاکر بیٹھ چکے تھے۔”وہ تو رہنے ہی دیں آپی۔ وہ لوگ تو کچھ زیادہ ہی تلخ ہوجاتے ہیں۔ بلکہ عام انسان تو وہ فلمیں ڈرامے دیکھے الٹیاں کرکرکے اس کی مت ماری جاۓ۔” بختاور کے انداز پر وہ دونوں ہی مسکرادئیے۔
The LLast Night by Zainab Nasar Khan Episode 12
