’’اسفند، اُٹھو! رات سے صبح ہو گئی ہے اور تمہاری بیٹی کا کچھ پتہ نہیں ہے۔ ہم تو پولیس میں کمپلین بھی نہیں کر سکتے۔‘‘ وہ ناگوار لہجے میں گویا ہوئی ہوتی انھیں جھنجوڑ کر اُٹھا رہی تھیں۔۔۔
’’تو میں کیا کروں؟ کیا چراغ لے کر اُسے تلاشنے نکل جاؤں؟‘‘ وہ ناگواری سے بولتے ہوئے دوسری طرف کروٹ لے چکے تھے۔
ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی فجر ہوئی تھی، اور لائبہ اب تک گھر نہیں آئی تھی۔
’’توبہ ہے! کچھ خیال کرو، کہیں تمہاری بیٹی کو ہمارے پلین کی خبر تو نہیں ہو گئی؟ اور وہ اپنے کسی عاشق کے ساتھ بھاگ گئی ہو؟‘‘
انہوں نے خدشے کا اظہار کیا۔
’’اگر ایسا کچھ ہے تو یہ سب تمہارا قصور ہے، بیوقوف عورت!‘‘ وہ ناگواری سے غرّائے۔
’’افف! اُٹھو اور اُٹھ کر اُسے ڈھونڈو۔ اگر دو دن بعد نکاح میں وہ گھر میں نہ ہوئی تو کیا جواب دو گے تم اُس بڈھے کو؟‘‘
وہ چلائیں تو وہ تیزی سے اُٹھ کر باہر کی جانب بھاگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کمرے میں ڈھنگ کے شلوار قمیض کے لباس میں ملبوس بیٹھی، نکاح خواں کی منتظر تھی۔ یوسف دھمکا کر گیا تھا کہ اگر اس نے نکاح نہ کیا تو وہ جو کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، وہ نکاح کے بغیر بھی کیا جا سکتا ہے۔
’’افف! یہ مجھے کیا ہو رہا ہے؟‘‘ وہ اپنا گھومتا سر تھام گئی۔ اتنے میں ملازمہ کی ہمراہی میں، اس کی مرضی پوچھنے مولانا صاحب ساتھ ہی چلے آئے تھے۔
’’کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟‘‘ اس سے رضامندی لی جا رہی تھی، جبکہ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے تھے۔
’’بیٹا، کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟‘‘ اس کی خاموشی پر دوسری بار پوچھا گیا تھا۔
’’قبول ہے۔۔۔‘‘ دھڑکتے دل کے ساتھ وہ نکاح کے لیے رضامندی دے چکی تھی، جبکہ آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب جاری تھا۔
دن نکل آیا تھا۔ پتہ نہیں بابا نے اسے ڈھونڈا بھی ہوگا یا نہیں۔۔۔ وہ ابھی یہی سب سوچ رہی تھی کہ جبھی وہ بے دھڑک کمرے میں داخل ہوا تھا۔
’’ہیلو سوئیٹ ہارٹ!‘‘ اس نے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔
’’نکاح مبارک ہو۔۔۔‘‘ اس نے نکاح کے کاغذات دکھاتے ہوئے دانت باہر نکالے تھے۔
’’جانے دو مجھے یہاں سے۔‘‘ وہ تیزی سے اُٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
’’شیور، وائے ناٹ! ویسے بھی تم جیسی لڑکی کو میں مزید اپنے گھر میں افورڈ نہیں کر سکتا۔۔۔‘‘ اس کے لہجے میں کراہیت واضح تھی۔ لائبہ نے بے یقینی نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا تھا۔
وہ ایک خوبرو شخصیت کا مالک، ہینڈسم نوجوان تھا۔ دراز قد، کسرتی جسامت، بڑی بڑی گہری سیاہ آنکھیں، کشادہ پیشانی، اٹھی ہوئی ناک، اور ماتھے پر بکھرے بال، جنہیں وہ بار بار ہاتھ کی مدد سے درست کرتا، بلا کا حسین لگتا تھا۔ مگر لائبہ کو اس کے چہرے سے گھن محسوس ہو رہی تھی۔ اس کے تو صرف لہجے میں کراہیت تھی، جبکہ لائبہ کو اس کے وجود تک سے کراہیت محسوس ہو رہی تھی۔
’’کیوں کیا ہے تم نے میرے ساتھ ایسا؟‘‘ وہ غرائی۔
’’بتایا تو تھا، بھول گئیں کیا؟‘‘ وہ قریب آیا۔ وہ سہم کر دو قدم پیچھے ہوئی۔
’’ڈر لگ رہا ہے؟‘‘ وہ قدم اٹھا رہا تھا۔ وہ پیچھے ہوتی دیوار سے جا لگی تھی۔
’’کیوں کیا ہے تم نے میرے ساتھ ایسا؟ کیا بگاڑا تھا میں نے تمہارا؟‘‘ اس بار وہ آنسوؤں سے رو پڑی تھی۔
’’نو بے بی نو!‘‘ اس نے نفی میں سر ہلایا۔
’’روتے نہیں ہیں، اور رونے کا یہ صحیح وقت نہیں ہے۔۔۔‘‘ لائبہ کے سر پر موجود دوپٹہ ڈھلک کر شانو پر آ گرا تھا، جبکہ وہ پیچھے کمر پر لگے کاغذات نکالتا، پینٹ کی پاکٹ سے لائٹر نکال کر ان کاغذات کو اس کے سامنے لہرا کر شعلہ بھڑکا چکا تھا۔
’’جانتی ہو کیا ہے یہ؟‘‘ لائٹر کی آگ کاغذ کو پکڑ چکی تھی۔ وہ بے یقین نگاہوں سے اس کی جانب دیکھ رہی تھی۔
’’نکاح نامہ! جس سے ثابت ہوتا کہ تم میری بیوی ہو۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ بات صرف تم اور میں جانتے ہیں۔ کسی اور کو ثابت کرنے کے لیے میں نے کوئی ثبوت ہی نہیں چھوڑا۔۔۔‘‘
ایک منٹ سے بھی کم عرصے میں وہ کاغذ کا ٹکڑا جل کر راکھ ہو گیا تھا۔
بلکہ نہیں۔۔۔ مقابل کھڑے یوسف جہانگیر نے لائبہ اسفندیار کی ذات کی دھجیاں بکھیر دی تھیں،
جس طرح کاغذ کی راکھ ہوا میں اُڑ کر ریزہ ریزہ ہوئی تھی، بالکل اسی طرح اس کا وجود ہوا میں تحلیل ہو گیا تھا۔
’’اب تم اپنے گھر جا سکتی ہو۔۔۔‘‘ وہ چہرے پر مسکراہٹ سجائے طنزیہ لہجے میں گویا ہوا تھا۔
’’ویسے سوئیٹ ہارٹ، کافی خوبصورت ہو تم۔۔۔‘‘ اُس کے چہرے پر پھونک مارتا، وہ گال پر اپنے لب رکھ گیا تھا۔ لائبہ کے وجود میں سنساہٹ سی دوڑ گئی تھی۔
آنکھوں میں بے یقینی سی تھی۔ اس کے چہرے پر جھکا کھڑا، وہ ایک لمحے کے لیے ٹھہر گیا تھا۔
اس کا دو آتشہ حسن واقعی کسی کا بھی ایمان ڈگما سکتا تھا۔
کتابی چہرہ، روشن پیشانی، تیکھے نین نقش، ملائی سی جلد، بڑی بڑی سیاہ آنکھیں جن پر سیاہ پلکوں کا پہرا تھا۔ قد کاٹھ میں وہ مناسب سی تھی، اس کے سینے تک آ رہی تھی۔ نینوں سے ٹپکتے قطرے ایک لمحے کو اس کا دل موم کر گئے تھے۔
’’پیچھے ہٹو بے ہودہ انسان!‘‘ اس سے قبل کہ وہ بہکتا، لائبہ اسے پیچھے کو دھکا دے چکی تھی۔ وہ سٹپٹایا۔
’’اُٹھو! اور چلو میرے ساتھ۔۔۔‘‘ وہ گھسیٹ کر اپنے ساتھ لاتا، کارپورچ میں لایا تھا۔
’’کہاں لے کر جا رہے ہو مجھے؟‘‘ اسے گاڑی میں دھکا دیتا، وہ خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھال چکا تھا۔
’’تمہارے بے غیرت باپ کے پاس چھوڑنے۔۔۔‘‘ وہ تیزی سے لہجے میں غرّایا، تو لائبہ نے بے یقینی سے اس کی جانب دیکھا۔
’’چاہتے کیا ہو مجھ سے؟ کون ہو تم؟‘‘ وہ اس کو رش ڈرائیونگ کرتا دیکھ سہمی سے غرائی۔
’’جو میں چاہتا تھا، میرا وہ مقصد پورا ہو گیا۔ تمہارے بے غیرت باپ سے انتقام چاہتا تھا، میرا انتقام پورا ہوا۔‘‘
’’میرے باپ سے بدلہ لینا تھا تو ان سے لیتے نا، مجھے کس بات کی سزا دی ہے؟‘‘ وہ اذیت سے چلائی۔
’’اس بات کی، کیونکہ تم اس کی بیٹی ہو۔‘‘ وہ بولا تو اس نے حیرت سے دیکھا۔
’’یہ بدلہ ہے تمہارا؟‘‘
’’ہاں! اب ساری زندگی سب کو صفائی دیتی رہو گی کہ تم میرے نکاح میں ہو، مگر تم کبھی ثابت نہیں کر پاؤ گی۔۔۔‘‘
لائبہ کی آنکھوں میں کیا کچھ نہ تھا۔ وہ انتقام کی آگ میں اندھا ہو چکا تھا۔
’’کیسے بزدل مرد ہو تم، میرے باپ کا بدلہ مجھ سے لے رہے ہو؟
اگر میرے باپ نے تمہارا کچھ بگاڑا تھا تو ان سے بدلہ لیتے، بزدل!‘‘
یوسف کا چہرہ لہو رنگ ہوا۔
’’شٹ اپ!‘‘ وہ چیخا۔
’’چلاؤ مت! اور طلاق دو مجھے۔‘‘
اپنے گھر کی گلی دیکھ کر وہ چیخی۔
’’طلاق تو میں تمہیں ضرور دوں گا، مگر وقت آنے پر۔ دفع ہو جاؤ یہاں سے۔‘‘
وہ اسے اس کے گھر سے دو گلیاں پہلے ہی گاڑی سے دھکیل کر نکال چکا تھا۔
’’تم ہو کون؟ اپنا نام۔۔۔‘‘ وہ وِنڈ اسکرین تک آئی۔
مگر جب تک۔۔۔ وہ گاڑی بھگا لے گیا۔۔۔
اور وہ ریت اُڑاتی گاڑی دیکھتی رہ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Ye Ishq Tum Na Karna Episode 2 Online Reading
