” آپ کبھی بھی میری مرضی تھیں ہی نہیں……نا ہی میری محبت ، آپ میری ماں کی پسند تھیں ۔۔“اس کے سرد ؤ تلخ جملے اس کی سماعتوں میں تپش گھول گئے تھے ۔ بے اختیار اس نے آنکھیں میچ لیں۔۔۔کمرے کی دیواروں سے ٹکراتی اس گونج میں طنزیہ تیر اچھالا گیا تھا ۔۔
”ماں کے کہنے پر، ان کی خوشی کے لیے میں نے آپ سے شادی کی، لیکن کبھی چاہ کر بھی آپ کو اپنا نہیں پایا ۔ نہیں معلوم مجھے یہ میں سہی کر رہا ہوں یا غلط ۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں کے یہ میری بد قسمتی تھی ، یا آپ کا برا نصیب ۔۔۔پر مجھے یہ شادی کرنی پڑی میری مجبوری تھی اور اب اسے ختم کرنا بھی میری مجبوری ہی سمجھیں۔ “
کوئی دروازے پر ایستادہ تھا…ہمیشہ سے کہے جانے والے جملے کنول نے آج پھر سے سنے۔۔۔ اس نے بڑی دلیری سے … تندی و کرختگی سے یہ الفاظ ادا کیے ۔ جائے نماز پر بیٹھی کنول نے مندی آنکھوں کو دھیرے سے کھولا…. اس دن عصر کی اذان کے بعد اس نے دعاؤں کے لیے ہاتھ اُٹھائے تھے ،اور دعاوں کا سلسلہ مغرب کی اذانوں تک جا پہنچا تھا۔۔۔اور آج وہ عصر کی سنتوں میں اٹکی رہ گئی تھی ۔۔ ماضی کی بے رحم ؤ کٹھور اذیتیں کبھی پیچھا نہیں چھوڑتیں ۔۔اسے ایسا محسوس ہوا تھا اس دردناک واقعے کے اس دن کی طرح آج بھی اس کا محرم ، وارث لودھی کمرے کے وسط میں موجود تھا۔ ہاتھوں میں کچھ کاغزات دبے تھے۔کنول نے گردن موڑ کر دیکھا۔ اس کا محرم، جس نے کبھی بھول کے بھی اسے اپنایا نہیں تھا ۔۔۔ اسے حقوق زوجیت سے محروم رکھا تھا۔ وہی محرم اس کے ایک جانب کھڑا تھا، چہرے پر سپاٹ پن لیے ۔نظروں میں سختی ، لہجہ مضبوط مگر تلخ و ترش ۔
وارث لودھی کا لہجہ ہمیشہ ہی سنجیدہ و سخت نظر آتا تھا مگر وہ ضبط کے خول میں مقید رہتا شخص ایک نظر اسے دیکھنے کو گوارا نہیں تھا ۔۔
مزاج میں رکھائی و سختی نمایاں تھی درشتی واضح تھی ۔ وہ کتنے ہی مضبوط قدم اٹھاتا آیا تھا۔
” آپ کا اور میرا رشتہ، ہمارا تعلق، بس یہی تک کا تھا….میں دوسری شادی کر رہا ہوں اور۔۔“
کنول نے شاک کی کیفیت میں گردن اونچی کیئے حیرانی سے بس اسے دیکھا۔۔۔ لہجے میں نمی گھلنے لگی۔۔۔نامراد یہ شخص آگے کیا کہنے والا تھا ۔۔اور کونسی خبر اس کی منتظر تھی ۔۔خاموش کم سخن کنول اس کے سرد مہری سے ، اس کے بے لچک لہجے سے دائم مدام خائف رہتی تھی الجھی رہتی تھی مگر آج ناسمجھی سے اس کے اگلے کڑوے جملوں کی منتظر تھی۔ عصر کی سنتوں کے ادائیگی کے بعد وہ سلام پھیر رہی تھی ۔ اور وہ آوازیں۔۔۔۔۔وہ آوازیں اس کے گرد اذیتوں کے قافلے بن اس کے اطراف گھوم رہی تھیں۔۔ اس نے سلام پھیرا اور وہیں جم گئی ۔
” میں کسی اور سے محبت کرتا ہوں ،بے انتہا محبت…یہ آپ اچھے سے جانتی ہی ہیں۔.کچھ نہیں چھپایا میں نے آپ سے نہ کسی دھوکے میں رکھا ہے ۔میں تصور نہیں کر سکتا اس کے بنا جینے کا……“
عصر کے فرضوں کی نیت باندھی تو آنکھیں چھلک پڑیں ۔۔۔۔
”یہ سب جو بھی ہوا میری ماں کی خوشی کے لیے ہوا۔ میں نے ان کی فرمانبرداری کا پاس رکھا تھا ۔یہ ان کی دلی خواہش تھی کہ میں آپ …. یعنی کنول صدیقی سے شادی کروں ۔پر اب ماں اس دنیا میں نہیں تو ہمارا رشتہ بھی نہیں۔ وہ رشتہ جو ان کے لیے جڑا تھا ۔ ان کی ناسازِ طبیعت کی خاطر جڑا تھا. اب کچھ۔۔۔ کچھ بھی باقی نہیں رہا ۔کوئی فائدہ نہیں اب ہمارے اس جھوٹے ساتھ کا .آپ اور میں دونوں جانتے ہیں کہ میں نے ان اتنے لمبے عرصے میں آپ کو کبھی اس نظر سے نہیں دیکھا ۔ نا ہی کبھی کچھ غلط سوچا۔۔“
وارث لودھی کے جملوں میں ٹہراؤ تھا اور کنول کا دل بھر آیا اس کے ہاتھ میں کیا لپٹا ہے وہ جانتی تھی مگر ماننے سے انکاری تھی۔ صدمے سے نڈھال ڈبڈبائی پلکیں اٹھائیں۔پس وپیش سے نماز پر کعبہ کی سطح کو دیکھا ۔وہ کچھ توقف کو رکا ۔ اور کنول کو لگا اگلے کچھ کڑوے الفاظ کڑے انداز اس کا دل ،اس کی دھڑکنے چیر دینگے۔ ماں کی موت کو ابھی کتنے ہی دن ہوئے تھے کل ہی تو تیجا گزرا تھا اور آج …….وہ بس سن وجود اور پتھریلی نظروں سے اس بے حس ،اس بے تحاشا بے غرض انسان کو سن رہی تھی اس بے رحم شخص نے چند ماہ پہلے کئے گئے فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کو وقت بھی نہ لگایا تھا۔ ۔ اپنی سگی ماں کی موت کے چوتھے دن وہ اس کے سر پر کھڑا اسے بھی روح پرور خبر سنا رہا تھا ۔۔
Ye Manzil Asaan Nahin by Kainat Riyaz Episode 2
