“کیا ہوا کلثوم؟ کن سوچوں میں گم ہیں؟” رات کو بستر پر نیم دراز ہوتے ہی فاروق صاحب نے ان سے استفسار کیا۔
“فاروق صاحب ! زینب کو اتنا بھی سر پر مت چڑھائیں۔ کل کلاں کو اس کی شادی ہوگی۔ تو جانے سسرال والے کیسے لوگ ہوں گے۔ اس لیے بیٹیوں کو ایک حد تک پیارومحبت دیں۔ نہیں تو مستقبل میں صرف زینب کو ہی نہیں ہمیں بھی پریشانی ہوسکتی ہے۔” کلثوم بیگم سنجیدگی سے گویا ہوئیں۔
“آپ کی اس بات سے تو میں بالکل بھی متفق نہیں۔ بیٹیوں کو جتنی محبت دی جائے وہ تھوڑی ہے۔ وہ تو بنی ہی بےلوث محبت کیلئے ہیں۔ مسقبل میں کیا ہوگا، کیا نہیں۔ اس کی بجائے حال پر توجہ دی جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ پھر ان کے حصے کی توجہ اور محبت سے ان کو محروم کیوں رکھا جائے۔” فاروق صاحب ان کی بات سن کر خفا ہوئے۔
“ میرا وہ مطلب نہیں تھا۔ میں یہ کہنا چاہ رہی تھی کہ اس کی ہر خواہش پر لبیک مت کہا کریں۔ اور میں اس کی افسانے پڑھنے کی عادت سے بہت عاجز آچکی ہوں۔ آپ کو پتا ہے کہ وہ افسانوی کرداروں کو خود پر اتنا سوار کرلیتی ہے کہ حقیقت میں بھی انہیں تلاشنے لگ جاتی ہے۔ اور یہ بالکل بھی ٹھیک بات نہیں ہے۔ بھلاں افسانوی کردار بھی حقیقت میں پائے جاتے ہیں؟ اس لڑکی کا تو دماغ خراب ہے بس اور کچھ نہیں۔ ٹھیک ہے ہم بحیثیت اس کے ماں باپ اس کی شادی کو لے کر بہت کچھ سوچے ہوئے ہیں۔ مگر وہ کہتی ہے کہ شادی ایسے لڑکے سے کرے گی جو اکلوتا بھی ہو اور اس سے عمر میں کافی بڑا بھی ہو۔ یہ کوئی تُک بنتی ہے؟ ” کلثوم بیگم ابھی بھی اپنے موقف پر قائم تھیں۔
“آپ کی بات بالکل بجا ہے۔ مگر یہ بھی مت بھولیں کہ یہ افسانے ہی اسے اس وقت ذہنی دباؤ سے نکالنے کا باعث بنے تھے جب اماں جان کا انتقال ہوا تھا۔ وہ وقت ہم سب کیلئے ہی بہت بھاری تھا۔ مگر زینب اماں جان سے حددرجہ مانوس تھی۔ وہ ان کی موت کو قبول نہیں کرپارہی تھی۔ پھر یہ کتابیں ہی اسے زندگی کی طرف لوٹانے میں مددگار ثابت ہوئی تھیں۔ رہی بات ان افسانوی کرداروں کی تو کہیں نہ کہیں ایسے کردار ہمارے معاشرے میں پائے جاتے ہیں۔ تب ہی ہم ان کو کتابی صورت میں پڑھتے ہیں۔ تو یہ کوئی انہونی بات تو نہیں۔ الله نے ہماری زینب کا بھی بہترین جوڑ لکھا ہوگا۔” فاروق صاحب نے دلائل سامنے رکھ کر گویا انہیں لاجواب کردیا تھا۔ وہ دل ہی دل میں متعرف ہوئیں اور زینب کے اچھے نصیب کی دعائیں مانگ کر سونے کیلئے لیٹ گئیں۔
_______________