ایک ہفتے بعد۔۔۔۔۔۔۔
گھر میں طوفان برپا ہو گیا تھا کیونکہ ددہ نے یشل اور حنظلہ کا رشتہ پکا کر دیا تھا ایک طرف حنظلہ غصے کے عالم میں گھر سے نکل گیا تھا دوسری طرف یشل سر پکڑے بیٹھی تھی۔ ۔ ۔
” یشل تم پریشان نہیں ہو تم جا کر ددا سے بات تو کرو وہ تمہاری ہر بات مانتے ہیں تم انہیں بتا دو اور راحیل سے کہو کہ وہ رشتہ لے کر ا جائے پھر سب خود با خود ٹھیک ہو جائے گا تعبیر نے یشل کو حل بتایا تھا یشل انکھوں سے انسو صاف کرتی اُٹھ کھڑی ہوئی تھی چپ رہنے سے ویسے بھی کچھ نہیں ہونا تھا اس لیے وہ فیصلہ کرتی کمرے سے نکل گئی تھی۔۔
” ددہ میں حنظلہ سے شادی نہیں کر سکتے اپ لوگ ہمارے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتے شادی کرنا تو ہمارا اپنا فیصلہ ہے نا آپ لوگ اپنا فیصلہ ہم پر کیسے تھوپ سکتے ہیں۔ ” لاؤنج میں گھر کے سبھی افراد موجود تھے۔
” تم دونوں ابھی بچے ہو ہم بڑے ہی تمہارا اچھا برا سمجھ سکتے ہیں اور کیوں نہیں کر سکتی تم شادی حنظلہ سے۔؟ ” میر شاہ نے کہا۔ ۔
“کیونکہ میں۔ میں کسی اور کو پسند کرتی ہوں۔۔ ” حنظلہ جو واپس آیا تھا دروازے کی دہلیز پر ہی کھڑا سکت ہوگیا تھا جب کے باقی سب بھی پتھر کے ہوگںٔے تھے۔۔۔
“کیا کہہ رہی ہو یشل کمرے میں چلو واپس۔۔ “, شاہین بیگم یشل کو بازوں سے کھنیچ رہی تھیں۔۔
” نہیں جاؤنگی، ددا میں راحیل کو پسند کرتی ہوں وہ بہت اچھا لڑکا ہے آپ اُس سے ایک بار مل تو لیں۔۔ ” وہ میر شاہ کے قدموں میں بیٹھی تھی۔۔۔۔
جاری ہے