میں اپنی منزل تک پہنچ گںٔی تھی مگر مجھے جب پتا لگا تھا یہ تو میری منزل ہی نہیں تھی جس روشنی کی مجھے تلاش تھی وہ نہیں ملی تھی کیونکہ میں یشل میر غلط راستہ اختیار کر گئی تھی۔ روشنی سیدھے راستے پر چلنے سے ملتی ہے غلط راستوں پر توبس اندھیرا ہوتا ہے۔۔۔۔ ) “یشل تمھاری محبت نے ہمیں بھی برباد کر دیا اب سب کو کیا جواب دے گے۔۔ ” ددہ تو دل پر ہاتھ رکھے بالکل چپ بیٹھے تھے اُن کے پاس بولنے کو الفاظ ہی ختم ہوگئے تھے آج یشل کے نصیب کو دیکھ دل میں درد اُٹھ رہا تھا وہ اُن کی لاڈلی تھی اور جو ماں باپ کے لاڈلے ہوتیں ہیں زندگی اُن کو بہت ستاتی ہے۔۔ “میرا دل کر رہا ہے اس کو زندہ دفن کر دو۔۔ ” یوسف غصے میں ڈھاڑے تھے اور یشل سہم گئی تھی۔۔ “باہر سب کو بتا دو اس گھر میں شادی نہیں میت اُٹھے گی یوسف میرکی، اس لیے چلے جائیں جس گھر کی بیٹیاں باغی ہوجائیں وہاں سے خوشیاں روٹھ جاتی ہیں۔ ” وہ خود کے چہرے پر تھپڑ مارتے رو دیے تھے سب کی آنکھیں اکش بار تھیں۔ آج اُنھےبار بار خود کا کہا جملہ شدت سے یاد آرہا تھا (جو لوگ اپنے ماں باپ کا دل دکھاتے ہیں نا یشل ان کے گھر کبھی نہیں بستے۔) شاید اُن کی کہی بات ہی تھی جو آج اُن کی بیٹی کا بخت سیاہ ہوگیا تھا ماں باپ کو غصے میں بھی اپنے بچوں کو بددعا یا غلط الفاظ نہیں بولنے چاہیے کیونکہ کوئی بھی وقت قبولیت کا ہوسکتا ہے۔۔ “اب کون اپناںٔے گا تمہیں یشل۔۔ ” شاہین بیگم اُس پتھر کی مورتی کو ہلاتے بولی تھی یشل کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں پر ایک بھی آنسو پلکوں کی باڑ سے نکلا نہیں تھا۔۔ “میں کروگا شادی یشل سے، میں یشل میر کو اپناؤ گا۔۔ ” حنظلہ جو کب سے سب سُن رہا تھا اُس کی بس ہوگئی تھی وہ یکدم ہی بولا تھا اور سب کو ساکت کر گیا تھا یشل نے بھیگی پلکیں اُٹھاںٔی تھی اور نگاہ عنبر رنگ کی آنکھوں سے ٹکرا گئی تھی۔۔یشل ششدر کھڑی تھی”تم پاگل ہوگئے حنظلہ میں اس بدنام لڑکی کو کبھی بھی اپنی بہو نہیں بناؤگی۔” انعم بیگم تضحیک آمیز لہجہ میں بولی۔ یہ وہی تاںٔی تھیں جو یشل کو پیار کرتے کرتے نہیں تھکتی تھی۔ “ددہ آپ پریشان نہ ہوں میں یشل سے شادی کرونگا چاچو اب ان غم کے آنسوؤں کی کوئی جگہ نہیں کیونکہ اب خوشی کے آنسو نکلنے کا وقت ہے ۔۔” وہ بہت پیار سے سب کو کہہ رہا تھا حنظلہ میر سب کی روح میں ایک نئی زندگی پھونک گیا تھا۔۔ “یشل کیا تم اپنے جانی دشمن کے ساتھ ساری زندگی قدم ملا کر چلنا پسند کروگی ۔۔ ” اب وہ یشل کے سامنے آیا تھا یشل ٹھٹکی تھی حنظلہ مُسکراتے ہوئے بولا تھا یشل میر کی آنکھیں میں تشکر تھا، ندامت تھی، تعجب تھا،وہ ہلکے سے سر ہاں میں ہلا گئی تھی۔ آسودگی بھری مسکراہٹ نے لبوں پر احاطہ کیا تھا۔۔ تھوڑی دیر میں مولوی صاحب آگںٔے تھے سارے بڑے اس رشتے پر راضی تھے بس انعم بیگم ناخوش تھیں. بس کچھ لمحے لگے تھے یشل کو حنظلہ میر کے ہونے میں وہ یشل حنظلہ میر ہوگئی تھی سب ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے یشل کہ ہیزل گرین آنکھوں میں ٹھہرے آنسو اب لبالب بہنے لگنے تھے۔ جو آنسو وہ راحیل کے بیچ منجدھار پر چھوڑ جانے پر بھی روک چُکی تھی وہ حنظلہ کے ملنے والے سہارے پر آنکھوں سے نکل آئے تھے۔۔ آںٔے ہو میری زندگی میں تم بہار بن کے آںٔے ہو میری زندگی میں تم بہار بن کے میرے دل میں یو ہی رہنا تم پیار پیار بن کے یشل حنظلہ میر کو دیکھتی یہ الفاظ دل میں کہہ رہی تھی اور یہ گانا تیز آواز میں اسپیکر پر گنج رہا تھا وہ اپنے دوستوں سے مل رہا تھا۔۔ اگر میں جو روٹھ جاؤںتو تم مجھے مناناتھاما ہاتھ میراپھر عمر بھر نبھانامیرے ساتھ یوہی چلنا تارے ہزار بن کے۔ وہ حنظلہ کا یہ احسان ساری زندگی نہیں اُتار سکتی تھی یہ وہی یشل میر تھی جو حنظلہ سے کبھی شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اور یہ وہی حنظلہ جو مار تو سکتا تھا پر یشل سے شادی کا سوچ بھی نہیں سکتا مگر آج وقت نے آنھیں ایک کر دیا تھا روحوں کا ساتھی بنا دیا تھا۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔