The last nightZainab nasar khan
_____________
شام کا وقت تھا۔ ہر طرف نیلگوں روشنی کے بسیرے تھے۔ کہیں افق کی نارنجی سی روشنی آنکھوں کو حیران کرتی تو کہیں مدھم سی ڈھلتی شام آنکھوں کو تسکین بخشتی۔ ننھے پرندے اپنے اپنے گھونسلوں کی طرف اڑتے جارہے تھے۔ ان کی ہلکی ہلکی چہکار کو محسوس کرتے ہوۓ اس نے گہرا سانس بھرا اور آنکھیں بند کرکے اس پرنم شام کی ٹھنڈک ناک کی مدد سے اپنے اندر داخل کی۔”باجی آجاؤ ناشتہ کرلو۔” کیشور کی آواز پر اس نے آنکھیں کھولیں۔ ذہن کے پردوں پر ایک دم سورج کا بھولا بھالا چہرہ گھومنے لگا۔”کیشور سورج کیسا ہے؟” وہ پوری طرح سے اسکی طرف پلٹی، جبکہ اس کی بات پر کیشور چپ سی ہوگئی۔ پھر آہستگی سے مری ہوئی آواز میں بولی۔”ٹھیک ہے باجی لیکن۔۔۔” “لیکن کیا؟” کمالہ نے سوالیہ ابرو اٹھاۓ۔ “اس کی بیہوشی نہیں ٹوٹ رہی۔ سارا دن ویسے ہی پڑا رہتا ہے۔ بلکہ منگل کو تو ہماری ایک ہمسائی حلوہ دینے آئی۔ وہ لوگ اب شفٹ کرچکے ہیں مگر منگل کے منگل وہ کالونی میں واپس آتی ہے اور کچھ نا کچھ بنا کر سب میں بانٹتی ہے۔ وہ عورت اس منگل کو آئی تو سورج نے اسکی کلائی پر کاٹ لیا۔ وہ میرا بیٹا نہیں لگتا باجی۔ وہ کوئی درندہ لگتا ہے اب۔۔۔” کیشور کی ساری بات کے آخر پر کمالہ نے اسکے کندھے پر دلاسہ دینے کے انداز میں ہاتھ رکھا، اور محض سر ہلا کر رہ گئی۔ شاید چوری چھپے ہی سہی مگر پاکستان میں کوئی مہلک وبا پھیل رہی تھی اور شاید یہ پچھلی سب وباؤں سے زیادہ خطرناک تھی۔”پریشان مت ہو۔ اللہ پاک جلد ہی اسے صحت یاب کردیں گے۔” کیشور کے کندھے پر تھپکی دیتے ہوۓ وہ بولی۔”کیا کروں باجی؟ سبھی نے کہا ہے اسے پاگل کھانے (خانے) بھیج دو۔ لیکن میرا بیٹا ہے وہ۔ آپ بتائیں اپنے جگر کا ٹکڑا کیسے خود اپنے ہاتھوں سے پاگل خانے(خانے) بھیج دوں؟” اس کی تڑپتی ممتا دیکھ کر کمالہ جیسے شرمسار ہوگئی۔ “انسانیت تیل لینے چلی گئی ہے” وہ من ہی من بڑبڑائی اور اسے حوصلہ دیا۔ پھر اس کے کندھوں کے گرد بازو حمائل کرکے اسنے مسکراتے ہوۓ کہا۔”چلو میں کل فارغ ہوں تو کل کا سارا دن سورج کے ساتھ گزاریں گے۔””نہیں باجی۔ اگر اس نے آپ کو کاٹنے کی کوشش کی تو؟۔ نہیں بلکل نہیں!” کیشور ایک دم بوکھلا گئی۔”ارے پگلی! ہم لوگ اسے ستائیں گے نہیں۔ ایسے ایڈیکٹ لوگوں کو اگر ستاؤ نہیں تو وہ کچھ نہیں کہتے۔” اس نے من گھڑت بات کہی تو کیشور نے سرہلایا۔ “ہاں یہ بات تو سچ ہے باجی۔ محلے کے آوارہ لڑکے اسے تنگ کرتے ہیں۔ بار بار اسے چھیڑتے ہیں اسی لیے پھر وہ آگ بگولہ ہوجاتا ہے۔ ” کیشور معصومیت سے بولی۔ تو کمالہ فوراً بولی۔”دیکھا!””چلیں کل پھر ہم ساتھ ہی چلیں گی۔ میں یہاں سے کام ختم کرنے کے بعد آپ کو ساتھ لے جاؤں گی۔” کیشور کہتی کہتی آگے بڑھی پھر قدرے اشتیاق سے بولی۔ ” آپ کی گاڑی پر۔” اس کے کہنے کی دیر تھی، کمالہ فوراً کھلکھلا کر ہنس دی۔”جو حکم میری بہن!” کہتے ہی وہ دونوں پھر اندر بڑھ گئیں۔بقول کیشور کے شام کے وقت ناشتہ کرنے!
______________