فضاء میں چڑیوں کی چہچہاہٹ اور آسمان پر پھوٹتی روشنی کی کرن یہ سب اِس وقت کتنا بھلا اور دل کو چھو جانے والا احساس تھا اِیسے میں ایک وجود جو اپنے گھر کے صحن بیٹھا بہت محویت سے یہ سب دیکھ اور محسوس کر رہا تھا کہ اچانک سے ایک آواز نے اِس کی محویت میں خلل ڈالا تھا
باجی تم اِس وقت یہاں بیٹھی کیا کر رہی ہو وہ اِس کا سات سالا چھوٹا بھائی تھا جو اپنی بہن کی محویت نوٹ کرتا اِس کے پاس آبیٹھا تھا وہ اپنے بھائی کے آنکھوں میں دیکھتی اِس کی معصومیت محسوس کرتی کہتی ہے کچھ نہیں بس اللہ کی خوبصورت حمدوثنا دیکھ اور سُن رہی تھی یہ بتاؤ تم اتنے جلدی کیوں اُٹھ گئے بس آنکھ کھل گئی اسکول کے لئیے تیار بھی تو ہونا ہے اب آپ کو مجھے اٹھانا نہیں پڑیگا معصومیت سے کہتا وہ اِسے بہت پیارا لگا تھا۔
ماہ رُخ او ماہ رُخ کہاں ہے بھئی اماں کی آواز نے دونوں بہن بھائی کے درمیان خلل ڈالا
جی اماں اسد فوراً دوڑتا ہوا اپنی ماں کے پاس جا پہنچا ارے تو بھی یہی بیٹھا تھا ماہ رُخ بھی اُٹھ کر اِنکے قریب آگئی کیونکہ اب اماں کے ساتھ کچن میں ناشتے کی تیاری جو کرنی تھی۔
میری پیاری اماں کیا ہوا ہم دونوں بھائی بہن اُٹھ تو گئیں ہیں آپ غصے میں کیوں ہیں اماں کے شانے سے لگے ماہ رُخ نے پوچھا ۔
ارے نہیں بھئ غصہ کہاں ہوں وہ تو تمہارے ابا کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی انہیں کہ رہی ہوں آج فیکڑی نہ جائے پر میری سنتے ہی کہاں ہیں اور وہ دونوں مہارانیاں ابھی تک پڑی سو رہی ہونگی۔
اماں میری پیاری اماں آپ پریشان نہ ہوں میں ابا کو بھی دیکھتی ہوں اور اُنہیں بھی اُٹھاتی ہوں۔
ابا آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اماں بتا رہی تھی
ارے کچھ نہیں بیٹا رات نیند ٹھیک سے پوری نہیں ہو سکی سر میں درد تھا شائد اِس لئیے تمہاری اماں خوامخواہ پریشان ہو رہی ہیں تم جاؤ ہاسپٹل جانے کی تیاری کرو جی ابا۔
اب ماہ رُخ کا رُخ کچن کی طرف تھا ناشتے کی تیاری جو کرنی تھی۔
بھئی مجھے تو ناشتے میں انڈے پراٹھے کا رول بنا دو آپی میں لیٹ ہو رہی ہو یہ فرح حیات تھی جو یونیورسٹی جانے کیلیئے تیار بس ناشتہ لینے آئی تھی ۔
ہاں ہاں تمہارے ابا نے تو فیکڑیاں لگائی ہے نا کہ مہارانی صاحبہ فرمائش کرے اور ہم انہیں پیش کر دیں اماں کی آواز سُن کر فرح تو اُچھل ہی گئی اُسے کیا پتا تھا آج اماں بھی آپی کے ساتھ موجود ہونگی اماں آج تو انڈا پراٹھا کھالینے دیں کیوں بھئی آج کونسا ایسا خاص دن ہے ؟
اماں مجھے لیٹ ہورہا ہے
ہاں تو جلدی اُٹھا کرو نا نواب صاحبہ
فرح نے خاموشی میں ہی عافیت جانی اور ماہ رُخ چپ چاپ اپنی مسکان چھپاتے ناشتہ بنانے میں مصروف رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭