شہرِ اقتدار میں واقع نائٹ کلب میں نوجوان نسل نشے
میں دھت آج کی حسین رات انجوائے کرنے میں
مصروف تھے۔
ایسے میں ایک جگہ الگ تھلگ سا صوفے پر بیٹھا ایک شخص ہاتھ میں سافٹ ڈرنک کا گلاس تھامے ،ہر چیز سے بے نیازموبائل میں گم تھا۔
’’فارس!‘‘ ایک نسوانی آواز پروہ چونکا۔
’’کیا ہوا؟‘‘
اس نے سوالیہ نگاہوں سے اِسکی جانب دیکھا۔
’’لیٹس ڈانس!‘‘
وہ نیم برہنہ چست سے لباس میں ملبوس لڑکی نشے میں جھومتی اسے ڈانس کرنے کی آفر کر رہی تھی۔۔
’’نو تھینکس!‘
اس نے کہتے ساتھ ہی کھڑے ہوتے لیدر کی جیکٹ کو ذرا جھٹکا،پھرارد گرد میں اپنے دوست کی تلاش میں نگاہ دوڑائی تھی۔
جو ڈانس فلور پر کچھ حسیناؤں کی کمر میں ہاتھ ڈال کر ناچتا دنیا جہاں سے غافل تھا۔۔
’’ایک تو اس کے شوق۔۔‘‘
وہ ناگواری سے بڑبڑاتا ہوا،اس وحشت ذدہ ماحول سے
باہر نکل آیا تھا۔وہ پارکنگ میں ہی کھڑا تھا،جبھی اسے
اپنے عقب سے عجیب سی آواز سنائی دی ۔۔
’’پلیز چھوڑو مجھے!‘‘
وہ کوئی نسوانی آواز تھی۔۔
’’میں نے کہا ہاتھ چھوڑو میرا!‘‘
فارس نے بغور دیکھا،وہ دو لڑکے تھے،جو نشے میں
دھت لڑکی کے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش
کرتے گاڑی میں بیٹھا رہے تھے۔اس کی پیشانی
پر بل پڑے۔۔
’’ہئے واٹس گوئینگ آن ہئیر!‘‘وہ دو قدموں کا فاصلہ سمیٹا
نزدیک پہنچا۔
’’نتھنگ!شی از مائی گرل فرینڈ!‘‘ فارس نے دیکھا،
وہ کوئی کم عمر لڑکی تھی،جو اس وقت نشے میں
ہونے کے باعث اپنے حواس میں نہیں لگ رہی تھی۔۔
’’چھوڑو اسے!‘‘
وہ ذرا رعب دار لہجے میں بولا،مقابل دو دھان
پان سے عیاش قسم کے لڑکے تھے،وہ حلیے سے
ہی کسی بڑے گھرانے کے لگ رہے تھے۔
’’کیوں؟گرل فرینڈ ہے میری،نشے میں ہے اس لئے
نخرے کر رہی ہے۔‘‘
دوسرا چڑ گیا تھا۔
’’اچھا گرل فرینڈ ہے تمہاری!‘‘
فارس نے لب بھینچ کر سوال کیا۔
’’ہاں!‘‘
وہ یک زبان بولے۔
’’تیری یا پھر تیری؟‘‘
اب وہ انگشت شہادت اٹھا کر پوچھ رہا تھا۔
’’دونوں کی۔‘‘
وہ پھر بولے۔
’’اوہ رئیلی!‘‘
فارس نے دیکھا وہ لڑکی ہاتھوں میں جھول رہی تھی،
بس بے وہوش ہونے کے دَر پر بڑبڑائی۔
’’یہ جھوٹ بول رہا ہے،میں اس کی گرل فرینڈ نہیں ہو۔۔
ہی از آلائیر!‘‘
وہ ضرورت سے زیادہ ہی پی چکی تھی۔
’’چھوڑو اس لڑکی کو۔‘‘
اتنا تو وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ لڑکے نشے کا فائدہ اُٹھا
کر اپنے ساتھ کہیں لے جا کر یقیناً کچھ غلط
ارادھ رکھتے تھے۔
’’کیوں ہیرو تیرا بھی دل آگیا ہے کیا اس نازک حسینہ پر؟‘‘
وہ شرارت سے بولے تو فارس نے گردن کو
ترچھا کر ماتھا کھجایا۔
’’ہاں بہت بُری طرح!اور اگلے دو منٹ میں تم دونوں
غائب نہ ہوئے تو یہ دل تمہارے ساتھ بھی
کچھ کر گزرے گا۔‘‘
اس نے دھمکایا۔
’’یہ کہیں وہ تو نہیں ہے؟‘‘
دونوں معنی خیزی سے ایک دوسرے
کی طرف دیکھ رہے تھے۔
’’ہو سکتا ہے۔‘‘
دوسرے نے اظہار خیال کیا۔
’’نہیں یہ میرا ہیرو ہے۔میرا ہیرو نمبر ون۔۔۔‘‘
وہ لڑکی نشے میں زور سے گنگنائی تھی۔
’’چھوڑو لڑکی کو۔‘‘اس بار وہ سختی سے بولا،
اور ساتھ ہی ایک جھٹکے سے اس کا ہاتھ پکڑ
کر اپنی جانب کھینچا تھا۔۔
’’آہ ہ ہ!میرے ہیرو ،تم مجھے بچانے کے لئے آئے ہو۔۔‘‘
وہ مسلسل جھوم رہی تھی۔۔
’’شٹ اپ!‘‘اس کے منہ سے آتی مہک پر فارس کو
اس لڑکی سے بھی کراہیت سی آئی تھی۔
’’اوکے اوکے!‘‘اس نے بڑی بڑی آنکھیں کھول کر
لبوں پر انگلی رکھی۔
’’دیکھو برو،ایسا کرتے ہیں ڈیل کر لیتے ہیں،
ہمارے فلیٹ پر چلو پہلے تم انجوائے کرلو ،پھر ہم
دونوں کی باری۔۔‘‘وہ دونوں اسکی کسرتی جسامت
اور رعب دار شخصیت دیکھ ذرا صلح جو آنداز
میں بولے۔۔
’’ نہیں پہلے تم ،پھر یہ۔۔‘‘وہ اس آنداز میں بولا کہ
دونوں کی آنکھیں کھلیں،وہ اس لڑکی کو کمر سے
پکڑ کر گاڑی کی چھت پر بیٹھاتا ان دونوں کی
طرف بڑھا تھا۔۔
’’واہ۔۔۔۔آج میں اُپر آسمان نیچے۔۔‘‘وہ خود کو
بلندی پر محسوس کر پھر گنگنائی،فارس نے گھورا۔
’’پہلے کون آئیگا۔۔‘‘
جیکٹ اتار کر اسکی گود میں رکھتےفارس نے
شرٹ کی آستینیں کہنیاں تک اپر چڑھائی تھیں۔۔
’’بھائی پاگل ہوگیا ہے کیا!ہم ایسے ویسے لڑکے
نہیں ہیں۔۔‘‘وہ دونوں سٹپٹا کر بھاگ کھڑے
ہوئے تھے۔۔
’’الو کے پٹھے!‘‘فارس نے سر جھٹکا،ساتھ ہی اس
لڑکی کو اتارنے کے لئے ہاتھ بڑھائے جو کسی
نازک بچے کی طرح اسکی گود میں آ
سمائی تھی۔۔
’’ایڈیٹ!پیچھے ہٹو۔۔‘‘
اُسے خود سے لپٹتا محسوس کر وہ بری
طریقے سے چڑ گیا تھا۔۔
’’کیوں!!
تم میرے ہیرو،مجھ سے شادی نہیں کروگے۔‘‘
فارس نے آئی برو اٹھائے۔۔
’’بے حیا!‘‘وہ بڑبڑاتا ہوا، اُسے پیچھے گاڑی
میں لٹاتا گاڑی زن سے بھگا لے گیا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔