“مجھے تم سے ایک بات کرنی تھی سِنان۔”وسیم کے والد جو کہ رشتے میں سبین کے ماموں تھے،سِنان سے مخاطب ہوئے۔
وہ لوگ تدفین سے فارغ ہو کر واپسی کی راہ پر تھے اور وہ سِنان کے ساتھ اس کی گاڑی میں بیٹھے ہوئے تھے۔باقی سب لوگ بھی اپنی اپنی گاڑیوں میں واپسی کے سفر پر گامزن تھے مگر وہ سِنان کے ہمراہ واپس آ رہے تھے اور یہ ان کی اپنی خواہش تھی۔
“جی کہیں۔”سِنان گاڑی چلاتے ہوئے متوجہ ہوا۔
“یہ بات مجھے کچھ پریشان کر رہی ہے تبھی میں تمہارے ساتھ آیا ہوں تا کہ تم سے بات کر سکوں۔”انہوں نے گہری سانس خارج کی۔جوان اولاد کو کھونے کا سبب تھا کہ ان کے کندھے بالکل ہی جھک گئے تھے۔
“جو بھی بات کرنی ہے آپ کھل کے کریں۔آپ نے مجھ پر اعتماد کیا ہے سو بےفکر رہیں،یہ بات میرے اور آپ کے درمیان رہے گی۔”اس نے انہیں پوری تسلی کرائی تھی۔
“مجھے یقین ہے بیٹا تبھی تو تم سے یہ بات کرنے کا حوصلہ ہوا ہے۔”انہوں نے اس کے کندھے پر مان بھری تھپکی دی جس پر اس نے تعظیمی انداز میں ہلکی سی گردن جھکائی۔
“بیٹا وسیم کی موت رات میں ہوئی تھی۔ہمیں اس کی لاش صبح لان سے ملی تھی جس سے پتہ چلا کہ وہ چھت سے گرا تھا۔”ان کا لہجہ گلو گیر ہو رہا تھا۔وہ بات کرتے ہوئے ٹہرے۔
سِنان اس دوران چپ رہا۔جانتا تھا کہ یہ بیان کرنا آسان کام نہ تھا۔
“چھت سے گر کر مرنے میں انسان کی ہڈیاں ٹوٹنا اور شدید زخمی ہونا تو سمجھ آتا ہے لیکن۔۔۔وہ سنجیدگی سے کہتے ہوئے ٹہرے اور جیب سے موبائل نکال کر اس کی گیلری کھولی۔
سِنان اس کارروائی کے دوران متحمل رہا۔
انہوں نے گیلری میں موجود ایک تصویر کو چھوا اور سِنان کی نظروں کے سامنے کیا۔
“اس کے جسم پر کٹس لگے ہوئے تھے۔”انہوں نے تصویر کو دو انگلیوں کی مدد سے واضح کیا۔اب تصویر کی ایک ایک باریکی نگاہوں کے سامنے تھی۔سِنان نے ایک نظر دیکھ کر چہرہ سامنے کر لیا۔وہ آگے بڑھے اور ایک اور تصویر سامنے کی۔
“اور کہنی کے قریب،مچھلی نما شکل بنی ہوئی تھی۔یہ دیکھو۔”اگلی تصویر بھی بغور دکھائی گئی۔اب کی بار سِنان نے تصویر دیکھ کر کہا۔
“یہ مچھلی ہی ہے۔”
“مجھے ان سب چیزوں کی سمجھ نہیں آئی تو میں نے سوچا کہ تم سے ڈسکس کروں یہ معاملہ۔تمہارا کیا خیال ہے اس بارے میں؟”انہوں نے ٹہرتے ٹہرتے پوری بات سِنان کے سامنے رکھی اور آخر میں اس کی رائے مانگی۔
وہ کچھ دیر سوچے گیا پھر گویا ہوا۔
“دیکھیں انکل وہ ایک ٹین ایجر تھا یعنی وہ اس عمر میں تھا کہ جب نہ بچپن ہوتا ہے اور نہ جوانی اور یہ دور سب سے زیادہ نازک ہوتا ہے۔اس عمر میں جوش بڑھتا ہے سو اولاد کو زیادہ تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔والدین سمجھتے ہیں انہوں نے بچے کو بڑا کر دیا سو ذمہ داری ختم مگر ایسا نہیں ہے۔ٹین ایجز میں انسان کو زیادہ ضرورت ہوتی ہے والدین کی۔”سِنان بہت تحمل سے وضاحت کر رہا تھا۔
“سب سے پہلے اگر میری بات بری لگے تو پہلے ہی معذرت لیکن آپ کی باتوں سے مجھے لگ رہا ہے کہ معاملات کچھ مختلف تھے۔”سِنان نے بات کا باقاعدہ آغاز کرنے کیلیے تمہید باندھی۔
انہوں نے اثبات میں گردن ہلا کر اجازت دی۔
“یہ عمر لا ابالی ہوتی ہے۔اس عمر میں ایسی غلطیاں کر دیتے ہیں بچے۔مجھے لگتا ہے کہ یہ کسی لڑکی کا معاملہ ہے۔اس عمر میں دوسری جنس میں اٹریکٹ ہونا بہت کامن بات ہے اور پھر آج کل فیس بک کا دور ہے،بچے بالکل غیر لوگوں سے رابطہ کر سکتے ہیں۔”وہ بڑی باریکی سے بات کو بیان کر رہا تھا۔وسیم کے والد بغور اسے دیکھ رہے تھے اور محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اس کی باتوں سے کسی قدر متفق بھی تھے۔
“مطلب کہ وسیم کسی کے ساتھ انوالو تھا؟”انہوں نے سوال کیا۔
“ضروری نہیں ہے کہ ایسا ہی ہو مگر جس طرح کی سچویشن آپ نے بیان کی ہے،ایسے بہت سے کیسز میں نے خود دیکھے ہیں۔لڑکا لڑکی ایک دوسرے میں انٹرسٹ لینے لگتے ہیں پھر کسی کا دل بھر جاتا ہے تو وہ دوسرے کو دھوکہ دے دیتا ہے اور یوں دوسرا بندہ ڈپریشن میں چلا جاتا ہے پھر نتائج اسی طرح کے نکلتے ہیں۔”سِنان کی جانب سے مزید وضاحت کی گئی تھی۔
“ڈپریشن؟یہ کیا ہوتا ہے؟”انہوں نے اچھنبے سے سوال کیا۔
سِنان کو حیرت نہیں ہوئی۔دو ہزار سولہ میں لوگ ٹینشن سے واقف تھے مگر ڈپریشن ابھی ان کے درمیان رچا بسا نہیں تھا۔ابھی یہ مغرب کی گلیوں میں سکونت پذیر تھا اور وہیں اپنی دہشت پھیلائے ہوئے تھا مگر اب آہستہ آہستہ یہ مسلمانوں میں بھی اپنی جگہ بنانے میں کوشاں تھا۔
“ڈپریشن دین سے دوری کا نام ہے۔”سِنان نے اپنے تجزیے کے مطابق جواب دیا۔