بات سنیں ڈاکٹر سب کچھ یاد ہے نہ آپکو کہ کب کیا کہنا ہے – یہ نا ہو کہ کوئ گڑبڑ کردیں آپ _ ایک گریس فل سی بوڑھی سی خاتون آنکھوں پر نظر کا چشمہ لگاۓ کھڑیں تھیں – اور اپنے سامنے کھڑی بیچاری سی ڈاکٹر کو ناجانے کون کون سے پلین بتا رہی تھیں – اور وہ مجبور سی بس سر ہاں میں ہلا رہی تھی _
دیکھیں لیڈی مجھے لگتا ہے کہ ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے وہ ہمارا جھوٹ پکڑلے گا – اور اگر ایسا ہوگیا تو توبہ کتنا ایمبیریسینگ ہوگا – مجھے تو سوچ سوچ کر ہی شرم محسوس ہورہی ہے _
جبکہ وہ اسکی بات کو اگنور کرتیں چاۓ کا کپ منہ کو لگا گئیں _ تم چپ کرو تمہیں کچھ نہیں پتا میرا پوتا ویسے نہیں مانے گا میری بات – اگر اس کو یہ ڈر ہوا کہ بوڑھی دادی کو کچھ ہوجاۓ گا تو یقیناً وہ اپنی شادی کے بارے میں سنجیدہ ہوکر سوچے گا – تم نے بھی تو شادی کر لی ہے ورنہ تمہیں ہی اپنی بہو بنا لیتی میں – کیا ہوگیا جو ایک دو سال بڑی ہواس سے – ہوتو پیاری نا _
جی – وہ اور کہتی بھی تو کیا بس انہیں دیکھ کر رہ گئ جو بلکل ہیلدی اور فٹ تھیں اس عمر میں بھی بس زرا سا کبھی بی_پی ہائ ہوجاتا – اور اسی کے لیے انکے پوتے نے اسے اپوئینٹ کررکھا تھا- وہ مہینے میں تین چار دفعہ ضرور چیک اپ کرنے آیا کرتی تھی – یا یوں کہا جاۓ کہ دادی جان خود ہی اسے فون کرکے بلا لیا کرتی تھیں –
چلو چلو وہ آگیا ہے شروع کرتے ہیں – پورچ میں گاڑی رکنے کی آواز پر وہ جلدی سے اٹھتیں بیڈ پر جالیٹیں اور ساتھ ڈاکٹر کو اشارہ کیا کہ جلدی کرو-
“اسلام علیکم دادو…!!! “
وہ اونچی آواز میں سلام کرتا گھر میں داخل ہوا لیکن اسکا استقبال فقط خاموشی نے کیا – اس نے کچھ حیرانگی سے آس پاس دیکھا کہ آخر دادو کہاں ہیں – آج تو وہ لیٹ بھی نہیں تھا
دادو — دادو —- دادو کدھر ہیں آپ _ وہ لمبا سانس لیتا لاؤنچ کو کراس کرتے کچن میں گیا لیکن وہاں بھی کوئ نہیں تھا – شاید ورکرز بھی کواٹرز میں جا چکے تھے _
کچھ سوچتے ہوۓ وہ دادو کے کمرے کی جانب بڑھا اور دروازہ کھولتے ہی اسے جو منظر دیکھنے کو ملا اس نے سکون کا سانس لیتے آنکھیں بھی ساتھ ہی گھمائیں _
اوہ تو یہاں ہیں آپ __؟
دروازے کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑے ابراہیم کو دیکھتے انہوں نے پھر سے آنکھیں بند کر لیں – جبکہ ڈاکٹر اب ان پر کمبل سہی کر رہی تھی اور ابراہیم کی جانچتی نظروں کو دیکھتے اس نے بناوٹی سی مسکراہٹ دی _
تمہاری دادو بیمار ہو گئ ہیں ابراہیم _ انہیں توجہ اور دیکھ بال کی ضرورت ہے –
اچھا اور — وہ ہنوز دروازے کے ساتھ ٹیک لگاۓ کھڑا تھا _
اور – – خدیجہ خاتون کے آنکھیں دکھانے پہ وہ تیزی سے اگلی لائن بولی _ اور یہ کہ کوئ ایسا انسان لے کے آؤ جو ان کی خدمت کرسکے – سمجھ رہے ہو نا –
” اور بھی کچھ کہنا ہے یا بس _ ” کچھ ہے تو کہہ دیں _
اور ہاں – – مجھ سے اور نہیں ہوگا _ مسٹرابراہیم پلیز شادی کرلیں – خدیجہ میم کو آپکی بہت فکر ہے – آپکی بیوی آئے گی تو انکا دل بھی بہل جاۓ گا اور یہ خوش رہے گیں اور اگر یہ خوش رہے گیں اور صحت مند رہے گیں – ہاں یہی کہنا تھا – آئ ہوپ آپ سمجھ گئے ہیں ہے نا _ میں چلتی ہوں اللہ حافظ – وہ بنا کسی کو دیکھے روم سے بھاگ کر نکلی جبکہ ابراہیم سر نفی میں ہلاتا اس کے پیچھے اسے پورچ میں کھڑی اسکی کار تک چھوڑنے گیا _
ایم سوری ڈاکٹر _ دادو کبھی کبھی ایسی ہوجاتی ہیں –
ارے نہیں اٹس اوکے اور تو کوئ بات نہیں ہے میں بس زرا کنفیوز ہوجاتی ہوں ہاہاہا – وہ کھسیانا سا ہنسی _
جی جی وہ تو آپکی بےڈھنگی ایکٹنگ دیکھ کر سمجھ آہی گیا ہے ہاہاہاہاہا _ توبہ کیا بکواس ایکٹنگ تھی _
شٹ اپ اوکے _ ویسے ایک بات تو بتاؤ – وہ اب گھر سے نکلتے پورچ میں جا کھڑے ہوۓ تھے –
ہمم بولو __!!!
یہ میم خدیجہ کیا کہہ رہی تھیں – –
کیا کہہ رہی تھیں وہ __؟
وہ کہہ رہی تھیں کہ میری شادی ہوچکی ہے – جبکہ ایسا نہیں ہے انہیں ایسا کس نے کہا ہے کہ میں شادی شدہ ہوں _
ہاہا اچھا وہ _ وہ بےتکہ سا ہنسا تو ڈاکٹر ثمن نے آنکھیں چھوٹی کرتے ہوۓ اسے گھورا _ کیا کچھ کیا ہے کیا تم نے –
ارے ایسی بات نہیں ہے – اصل میں دادو کہہ رہی تھیں کہ تم سے شادی کرلوں تو میں نے کہہ دیا کہ تم آلریڈی شادی شدہ ہو
اوہ اچھا چلو پہلی بار تم نے کچھ اچھا کام کیا ہے نہیں تو تمہاری دادو ہماری شادی کروا کر ہی دم لیتیں _
” بلکل _ ”
اوکے میں نکلتی ہوں دیر ہو رہی ہے –
” اوکے اللہ حافظ ” اس کی گاڑی گیٹ سے باہر نکلنے پر وہ لمبی سانس لیتا اندر بڑھا جہاں یقیناً اسکی دادو اسکا انتظار کررہی تھیں _
دادو…!!!!
وہ انکے روم میں آیا تو وہ کمبل کو سر تک اوڑھے لیٹی ہوئ تھیں – یہ اس بات کا اعلان تھا کہ وہ خفا ہیں _ دادو بات تو کریں یار _
تمہیں کیا پرواہ ہے میری چاہے مر بھی جاؤں میں تو – مرضی تو تم نے اپنی ہی کرنی ہے _
کیسی باتیں کررہی ہیں آپ جانتی ہیں کہ میرے پاس آپکے سوا اور کوئ نہیں ہے – ایسی باتیں نہ کریں _
تو پھر شادی کر لو ابراہیم _ تم شادی کرلو اور کچھ نہیں چاہیے _
” دادو اتنی جلدی لڑکی کہاں سے لاؤں گا میں _ “
مجھے نہیں پتا یہ تمہارا کام ہے _ وہ بلکل سائیڈ پر ہوگئیں _
لیکن ___
سوچ لو پراپرٹی کے پیپرز دےدوں اینجیو والوں کو _ بولو
آپ ایسا نہیں کر سکتیں – –
میں ایسا ہی کروں گی اگر تم نے میری بات نہ مانی تو _ ہمم تو بولو کیا فیصلہ ہے تمہارا
اففففف _ ٹھیک ہے منظور ہے مجھے – لیکن شادی میری پسند کی لڑکی سے ہوگی اور آپ کو قبول کرنی پڑے گی _
بس لڑکی ہی ہو لڑکا نہ ہو _ باقی مجھے کسی بات سے کوئ اعتراض نہیں ہے _ اب تم جاؤ چینج کرو تھک گئے ہوگے
وہ بچوں کی طرح پاؤں مارتا کمرے سے نکلتا چلا گیا _ اور وہ مطمئن سی ہوتی مسکرا دیں _
” انسان یقیناً بہت بےصبرا ہے – تھوڑا سا صبرو تحمل بگڑی بات کو بناسکتا ہے – پر انسان یہ سمجھے تو نہ _ ”
⭐________________ ⭐