فصیح جیسے ہی زیاد کے آفس میں داخل ہوا اُس نے زیاد کو لیپ ٹاپ پر مصروف پایا اُس نے اُس کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے کے لیے اپنا گلا کنکھارا سر وہ مس ماہ رُخ باہر انتظار کر رہی ہیں جی بلکل میں اُن سے ابھی مل کر آیا ہوں مسٹر فصیح زیاد نے ٹکا سا جواب دیا مجھے یہ بتائیں جب آپ نے اُنکو بلا ہی لیا تھا تو مجھے بتایا کیوں نہیں سر وہ میں آپ کو سر پرائز دینا چاہتا تھا فصیح نے کان کھجاتے ہوئے کہا وہ زیاد کے ساتھ پچھلے پانچ سالوں سے تھا اُس کا تعلق خیبر پختون خواہ کے ایک گاؤں سے ہے وہ اچھے کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتا تھا پر پھر اُس کے باپ نے اپنی زمین گروی رکھ کر پیسے لے کر شہر لے گیا اپنے بیوی بچوں کو وہاں کاروبار کیا پر سارا کاروبار ڈوب گیا تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے جب وہ لوگ واپس گاؤں آئیں تو اُنکے پاس کچھ نہیں تھا اُس کی ماں کا کوئی کزن سعودی میں رہتا تھا اُس کے ذریعہ فصیح سعودی عرب آگیا پھر وہ زیاد سے ملا اور تب سے وہ زیاد کے ساتھ ہے زیاد نے اُس کی زمین چھوڑوائی اور بھی بہت سی مدد اُس نے فصیح کی کی ہے تو زیاد کے لیے تو فصیح کی جان بھی حاضر ہے وہ اپنے مالک کا بہت وفادار ہے تو وہ یہ کام کیسے نہ کرتا مجھے تمہارا یہ سرپرائز پسند آیا کیا تم مجھے بتانے پسند کروگے کہ یہ سب کیسے کیا تم نے زیاد کہ پوچھنے پر فصیح نے اُسے سب کچھ بتا دیا جسے سُن کر زیاد کو زیادہ خوشی نہیں ہوئی تم نے اپنی جان خطرے میں کیوں ڈالی بے وقوف اگر کچھ ہوجاتا تو پاگل ہو تم بلکل سر کچھ نہیں ہوتا وہ میل نرس میرا جاننے والا تھا وہ میرے ساتھ ہی تھا اور اگر میں اتنا سا بھی کام آپ کا نا کر سکا تو میرے ہونے کا فائدہ اچھا بس اب زیادہ ڈائیلاگ مت مارو جاؤ بھیجو اپنی میڈم کو اندر اب انڑویو لینا تو بنتا ہے سر وہ تھوڑا گھبرا رہی ہے باہر جو اتنا کچھ بول دیا ہے اُنہوں نے ارے اب تو کام ہی میرے ساتھ کرنا ہے تو پھر گھبرانا کیسا جاؤ بھیجو محترمہ کو اندر ذرا میں بھی تو دیکھو کتنا دم خم ہے جو مجھے دیکھتے ہی لڑنے کو تیار ہوجاتی ہے یہ بات اِس نے اتنی کم آواز میں کہی تھی کہ خود ہی سُن سکے فصیح یس سر کہتا روم سے باہر آگیا مس ماہ رُخ آپ کو سر بلا رہے ہیں
Antal Habib Ul Qalb by Rameen Khan Episode 16
