خان حویلی کے پچھلے گارڈن میں اِس وقت سجاوٹیں اپنے عروج پر تھیں۔”یار جلدی کرو تم لوگ اتنی سُستی سے کام کررہے ہو۔” ماہیر نے خفا خفا انداز میں کہا۔”بھائی یار ہم کوشش تو کررہے ہیں ہوجائے گا پینک تو نہیں ہوں۔” بلال نے غبارہ پُھلاتے ہوئے اسے ٹوکا۔”دیکھو مجھے سب کچھ پرفیکٹ چاہیے، اور گڑیا کے لیے کچھ بھی کروں کنفیوز ہوجاتا ہوں۔” ماہیر نے قریب پڑی کرسی پر بیٹھتے کہا۔”ویسے نینا خود آئے گی یا اس کو لینے جانا پڑے گا؟” رافع نے ٹیبل سیٹ کرتے ہوئے پوچھا۔”میں لینے چلا جاؤں گا۔” بلال نے جھٹ سے جواب دیا تھا۔”ویسے تم باز آجاٶ ہم سے چُھپی نہیں ہیں تیری حرکتیں۔” ماہیر نے اسے وارن کیا جس پر بلال کی بتیسی نے شو آف کیا۔”ویسے یہ خیالی پلاؤ کھارہا ہے آغا جان کے آگے بولنے میں اس کی جان جاتی ہے اور آیا بڑا لوَ میرج کرنے والا۔” رافع کو بلال کی حرکتیں کچھ خاص پسند نہیں تھیں جس کا وہ آج اظہار کرگیا۔”آغا جان سے ماہیر بھیا بات کرلیں گے۔” بلال نے ماہیر کے گرد بازو پھیلاتے کہا۔”کیوں ماہیر تمہارا اور گڑیا کا وکیل ہے جو ہر وقت آغا جان سے سفارشیں کرتا پھرے۔” رافع نے برا مناتے کہا۔”خیریت بھائی آج کچھ زیادہ بپھر رہے ہیں۔” بلال نے اپنے بھائی کے انداز پر کہا۔”جب ہمت ہی نہیں تو پھر دوسروں کی بہنوں کے لیے ایسی فضولیات سوچنے کا کیا فائدہ۔” رافع چھری پر ربن باندھ کر میز پر پھٹکتا دانت چبا چبا کر بولا۔”وقت آنے پر سب کچھ ہوجائے گا ٹینشن کیوں لے رہے ہیں۔” بلال نے رافع کا گال کھینچتے کہا۔”آج تم محبت کے دعویدار ہو کل کو تمہارے ایکٹ سے اس لڑکی کو بھی محبت ہوگئی اور آغا جان نہ مانے پھر کیا کروگے بتاٶ ذرا؟ تکلیف ہوگی دونوں کو۔” رافع ہر طرح سے اسے آگے آنے والے خطروں سے آگاہ کرنا چاہ رہا تھا۔”بہت کچھ جانتا ہوں لیکن۔۔گڑیا بھی ہوگی وہ بھی میرا ساتھ دے گی۔” بلال نے ایک اور دلیل پیش کی۔”بہت اچھا مذاق کرتے ہو جس کو ڈرائیونگ کرنے کی اجازت نہیں مل رہی وہ تمہیں آغا جان کو رضامند کرکے دے گی۔” رافع نے اس کی دلیل پر اسے ٹوک دیا۔”بات تو ٹھیک کر رہا ہے آگے تم خود سوچ سمجھ کر آگے بڑھو۔” ماہیر بلال کا کندھا تھپتھپاتے حویلی کے اندرونی حصے کی طرف بڑھ گیا۔بلال نے دل ہی دل میں نئی تجویز سوچتے ہوئے واپس دھیان ڈیکوریشن پر دینا شروع کیا۔ماہیر اُن دونوں کو چھوڑ کر واپس اپنے کمرے میں آگیا تھا۔آج رات اس کی گڑیا کی بیسویں سالگرہ تھی لیکن اس کے چہرے پر وہ رونق نہیں تھی جو پہلے گزرے سالوں میں رہ چکی تھی۔گھر کی خواتین اس وقت کچن میں کام کررہی تھیں۔”دادی جان آپ سے بات ہوسکتی ہے؟”ماہیر نے کچن کے دروازے سے جھانکتے کہا۔”جانتی ہوں یہ بات انابیہ سے تعلق رکھتی ہے اس لیے یہیں کرسکتے ہو۔” سلمہ بیگم نے سبزی کاٹتے ہوئے کہا۔”دادی جان میں چاہتا ہوں جو بات آغا جان نے آپ کو انابیہ کو سمجھانے کو کہی تھی وہ اسے نہ سمجھائیں۔” ماہیر سنجیدگی سے گویا ہوا۔”ماہیر۔۔۔۔وہ لڑکی ذات ہے اگر آج اسے نہیں ٹوکا تو پھر نتیجے تمہیں پہلے ہی پتا ہیں۔” سلمہ بیگم نے اس کی بات پر چڑ کر کہا۔”لازمی نہیں ہے جو ماضی میں ہوا وہ اب بھی ہو۔” ماہیر نے ان کی بات رد کردی۔”ہم بڑے ہیں اس کے اور ہمارا فرض ہے اسے سیدھی راہ دکھائیں۔” مہرالنساء نے بیٹے کو ٹوکا۔”اماں یہ بات بات پر اسے ٹوکنا سیدھی راہ دکھانا نہیں ہے بلکہ اس کو بدگمان کرنا ہے۔” ماہیر نے خود پر قابو پاتے تحمل کا مظاہرہ کرتے کہا۔”ماہیر تم بیچ میں مت پڑو ہم اس کے بڑے ہیں ہمیں ہی اس کی تربیت کرنے دو۔” سلمہ بیگم نے بات ختم کرنا چاہی۔”انابیہ کا بڑا میں ہوں وہ میری ذمیداری ہے، میں نہیں چاہتا کوئی بھی میری بہن کے معاملے میں دخل اندازی کرے۔” ماہیر کی آواز تھوڑی اونچی ہوگئی تھی۔”یہ کس لہجے میں بات کررہے ہو تم وہ بڑی ہیں تمہاری۔” حیات خان جو باہر سے آرہے تھے ماہیر کی آواز سن کر اسے ٹوکا۔”معافی چاہتا ہوں میں ایسا نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن۔۔” ماہیر نے جلدی سے اپنے کیے کی معافی مانگی۔”لیکن کیا ماہیر صاحب آپ اتنے بڑے ہوگئے ہیں جو بڑوں کو ایسے جواب دینے لگے ہیں۔” حیات خان نے اسے ڈانٹا۔”میں انابیہ کا بڑا ہوں اگر کوئی اور اس پر اپنی مرضی تھوپنے کی بات کرے گا تو میرا لہجہ یہی ہوگا۔” ماہیر نے ہمت کرتے بول دیا۔”تم شاید بہن کی محبت میں کچھ زیادہ ہی اندھے ہوچکے ہو بالکل اپنے باپ کی طرح دھول جھونک کر چلی گئی تو سر اٹھاکر جی نہیں سکوگے۔”
Ishq Ki Baazi by Hadisa Hussain Episode 5
