Uncategorized

Dilbar Miyane by Sara Urooj Episode 6

رات کا سناٹا تھا، جیسے کسی خوفناک منظر کا پیش خیمہ ہو، امانی ملک رات کی شفٹ سے فری ہوتی اپنی گاڑی میں بیٹھ کر گھر واپس جا رہی تھی۔ اس وقت رات کے تقریباً تین بجے تھے، سڑک پر گاڑیاں انگنت کم ہو چکی تھیں اور ان کی آنکھوں کے سامنے ایک خالی سڑک تھی۔ امانی نے اپنی گاڑی کی رفتار آہستہ کر لی تھی، لیکن اس کا دل بہت تیز دھڑک رہا تھا۔ جب وہ ایک سنسان روڈ کے قریب پہنچی، اچانک اس کے سامنے ایک اور گاڑی آ کر رکی۔
“یہ کیا؟” امانی نے چونک کر گاڑی کی کھڑکی سے باہر جھانکا۔
تین افراد، جن کے چہرے ماسک سے ڈھکے ہوئے تھے، تیزی سے اس کی گاڑی کے قریب آئے اور ایک ہی لمحے میں ان لوگوں نے اپنی گاڑی کے دروازے کھولے۔ امانی کی سانسیں رک سی گئیں۔ دل میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اس کے ہاتھ دروازے کی لاک پر تھے، لیکن اسے سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کرے۔
“شور نہ مچانا!” ایک شخص کی آواز آئی جو خاصا دھمکی آمیز تھی۔
“بس خاموشی سے پیسے، فون اور گاڑی کی چابی دو!” دوسرے نے بندوق دکھاتے ہوئے کہا۔
امانی نے تیزی سے اپنے ہاتھ کی طرف دیکھا، اور پھر اس کے دماغ میں ایک خوفناک خیال آیا، وہ خود کو بھیانک صورت حال میں پھنسا ہوا محسوس کر رہی تھی۔ اُس کی نظریں منتشر ہو رہی تھیں۔ وہ سن دماغ کے ساتھ گاڑی میں بیٹھی ہوئی تھی ، ذہن کچھ سوچنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن ناکارہ۔۔۔۔
”جلدی کرو“۔۔۔۔ وہ آدمی یک دم غرایا ،اس نے جھٹکے سے اپنا فون ان کے ہاتھ میں دے دیا۔
”گاڑی کی چابی کے لئے الگ سے دعوت نامہ دیں“۔۔۔؟؟
ان لوگوں کی بات سن کر وہ چونکی یکدم گھبرا کر دیکھا اور پریشانی سے بولی
”دیکھیں رات کا وقت ہے میں گھر کیسے جاؤں گی“۔۔۔؟ آواز میں لرزش تھی ، دماغ مفلوج سا ہو رہا تھا دل تو کر رہا تھا کہ ان کے ہاتھ سے بندوق لے کر ان ہی لوگوں کو شوٹ کر دے مگر ، رات کی سیاہی اور تنہائی نے اسے کسی بھی ایسے قدم کو اٹھانے سے روکا۔
”دیکھو بی بی ہوشیاری نہ کرو ، جتنا بولا گیا ہے وہ کرو یا سیدھا اوپر پہنچا دیں“۔
ایک آدمی نے بندوق اس کی جانب کرتے تمسخر انداز میں کہا جس پر وہ لب بھینچ کر رہ گئی ، اور خاموشی سے گاڑی کی چابی نکالی اور ان کے حوالے کر دی۔
“اب جاؤ!” ایک ڈاکو نے سخت آواز میں کہا اور تینوں افراد فوراً پیچھے ہٹ گئے۔ وہ تینوں اس وہاں سے جا چکے تھے۔ اب وہ وہاں بالکل تنہا تھی۔
اس کی آنکھوں کے سامنے جو کچھ ہوا، وہ سب ایک برا خواب لگ رہا تھا۔اس کا دل اتنی تیز دھڑک رہا تھا جیسے وہ ابھی کسی بھی لمحے بے ہوش ہو جائے گی۔
سڑک پر کم ہوتی ہوئی روشنی اور سرد ہوا کا لمس، سب کچھ اس کے ذہن میں اب بھی گونج رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک لمحے کے لیے اندھیرا سا آیا۔
رات کے سناٹے میں اپنے سر کو تھامے بیٹھی تھی، دل میں خوف اور بے چینی کی ایک لہر دوڑ رہی تھی۔ تین بجے کا وقت تھا، سڑک پر گاڑیاں بھی گنتی کی چل رہی تھیں، اور اس کے دماغ میں خوف کی گھنٹیاں بجنے لگی کہ اگر یہاں پھر کوئی خطرہ آ گیا تو کون ان کی مدد کرے گا؟ ابھی یہ خیالات سوچ ہی رہی تھیں کہ ایک کالے رنگ کی کرولا ان کے سامنے آ کر رکی۔
گاڑی کے اندر سے ایک شخص کا چہرہ دکھائی دیا، جو کہ بظاہر بہت متین اور پراعتماد لگ رہا تھا۔ اس نے کھڑکی نیچے کی اور نرم لہجے میں کہا، “آپ اکیلے یہاں؟
امانی کا دل تیز دھڑک رہا تھا، لیکن سامنے موجود کائد غزنوی کو دیکھ کچھ حوصلہ ہوا بے اختیار گہرا سانس بھرتی وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
”ڈاکٹر امانی خیریت سے رات کے اس پہر یوں سنسان سڑک پر۔۔۔۔“ کہتے کہتے وہ اپنا جملا ادھورا چھوڑ گیا ، اسے کافی زیادہ حیرانی ہوئی تھی اس کی یہاں موجودگی سے۔
“ہاں، واک کرنے آئی ہوں، آپ کو کوئی مسئلہ ہے؟” اب کی بار وہ تپ کر بولی ، کچھ دیر پہلے ہوا حادثہ اور اوپر سے ان کا مسلسل ایک سوال ان کو تپا کر رکھ گیا۔ جب کہ ان کی بات سن کر
کائد غزنوی پڑا اور بولا
“اِس وقت؟ واک؟ ڈاکٹر صاحبہ، مجھے تو لگتا ہے آپ کو صحت کے بارے میں کچھ زیادہ ہی فکر ہو گئی ہے کہ رات کے تین بجے واک کرنے نکلی ہیں وہ ڈاکٹرز کوٹ میں“۔۔۔۔
وہ کائد کے طنز کو بالکل نظر انداز کر گئی اور آگے بڑھتے بولی ، ” اگر برا نہ مانیں تو مجھے میرے گھر تک چھوڑ دیں کیونکہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی میرے ساتھ سنیچنگ ( ڈکیتی جس میں ڈکیت قیمتی چیزیں لوٹ کر کے جاتے ہیں) ہو گئی ہے۔
کیسے“۔۔۔؟
اس کی سنیچنگ والی بات سن کر وہ تھوڑا پریشان ہوئے تب ہی حیرانی کے عالم میں بولے اور ساتھ گاڑی کا دروازہ کھولا تا کہ وہ اندر بیٹھ سکے۔
”پتہ نہیں ، ایک انجانا حادثہ جو مجھ سے میرا فون ، اور گاڑی چھین گیا ، میری پسندیدہ گاڑی“۔۔۔ وہ آسودگی سے بولی
کائد نے حیرت سے اسے دیکھا، “پسندیدہ گاڑی؟
امانی ہلکا سا مسکرائی، مگر اس کی آنکھوں میں ایک گہری چمک تھی، “ہاں، وہ میری پسندیدہ گاڑی تھی ، مگر اصل مسئلہ گاڑی کا نہیں، عادت کا ہوتا ہے۔”
کائد نے بھنویں سکیڑیں، “عادت؟ کیسی عادت؟”
امانی نے نظر باہر آسمان پر دوڑائی، جیسے کہیں دور کچھ تلاش کر رہی ہو، پھر دھیرے سے بولی، “ہمیں چیزوں کی نہیں، ان سے جُڑے احساسات کی عادت ہو جاتی ہے۔ چیزیں چھن جائیں تو ہم سمجھے بغیر افسوس کرنے لگتے ہیں، جبکہ اصل نقصان وہ نہیں ہوتا جو چھن گیا ، بلکہ وہ ہوتا ہے جو ہم اپنے اندر کھو دیتے ہیں۔
کائد خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔ وہ ہمیشہ لوگوں کو چیزوں کے لیے تڑپتے دیکھتا آیا تھا، مگر یہ پہلی بار تھا کہ کسی نے کھونے کی حقیقت کو اس زاویے سے دیکھا تھا۔
امانی نے سر جھٹکا اور مسکرا کر کہا، “تو گاڑی گئی، کوئی بات نہیں۔۔۔ مگر میں اس کے ساتھ اپنا صبر، اپنی خوش مزاجی اور اپنی عقل نہیں کھونا چاہتی، کیونکہ آخر میں یہی ساتھ رہتی ہیں، فرضی چیزیں نہیں۔”
کائد نے گاڑی کا دروازہ کھولا، ایک گہری سانس لی اور دھیرے سے کہا، “تم عجیب ہو اور شاید اسی لیے خاص بھی۔”
کائد غزنوی نے اس کے حسین چہرے کی جانب دیکھتے کہا ، اس نے چونک کر ان کی طرف دیکھا جو ”تم” کہہ کر مخاطب کر گئے تھے۔
گاڑی آہستہ آہستہ رکی، اور امانی نے ایک لمحے کے لئے اس کے چہرے کو دیکھا۔ وہ کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن پھر خاموشی اختیار کر لی، دل میں ایک الجھی ہوئی سوچ، ایک غمگین مسکراہٹ تھی۔
“کبھی کبھار، انسان کے جذبات صرف لفظوں میں نہیں، بلکہ خاموشیوں میں بھی چھپے ہوتے ہیں،” امانی نے خود سے کہا، اور پھر شکریہ کہتی گاڑی سے اترتی اندر گھر کی جانب چل دی۔
❤️👀

امانی ملک گھر کی طرف قدم بڑھاتی ہوئی آئی، اس کا دل ابھی تک تیز دھڑک رہا تھا۔ ہر قدم کے ساتھ وہ خود کو تھکا ہوا محسوس کر رہی تھی، جیسے وہ اپنی جسمانی تھکن کے ساتھ کسی بے آرامی میں ڈوبی ہوں۔ جب اس نے لاونچ کا دروازہ کھولا، اندر نورا کھڑی تھی، اور اس کی آنکھوں میں ایک واضح تشویش اور فکر نظر آ رہی تھی۔
“پھوپھو آپ کہاں تھیں؟ میں کب سے آپ کا انتظار کر رہی تھی، کیا ہوا؟ آپ ٹھیک تو ہیں؟  نورا نے فوراً اس کی طرف دوڑتے ہوئے پوچھا۔
“کیا ہوا؟ آپ ٹھیک تو ہیں“۔؟
نورا نے امانی کے چہرے پر سنجیدگی دیکھی ، جو معمول سے ہٹ کر محسوس ہوئی۔
امانی کا دماغ ابھی تک وہ سارے خوفناک لمحے گزارنے کے بعد کچھ ٹھیک سے سوچنے کی حالت میں نہیں تھا۔ اس نے ایک گہری سانس لی اور کہا، “نورا وہ راستے میں سنیچنگ ہو گئی۔۔۔ اور پھر وہ شروع سے لے کر آخر تک تمام بات اسے تفصیل سے بتاتی گئی جسے سن کر نورا کا رنگ فوراً بدلا، اور وہ ڈر کے عالم میں امانی کے قریب ہو گئی۔ “کیا؟ ڈاکو؟ آپ کو کچھ کہا تو نہیں؟”
اس کی بات سن امانی نے اثبات میں سر ہلایا، اور پھر اس کے اندر ایک تلخ ہنسی اُبھری۔ “نہیں، کچھ کہا تو نہیں۔ بس وہ سب کچھ لے کر چلے گئے۔ گاڑی، فون، پیسے، سب کچھ۔ اور مجھے سڑک پر چھوڑ کر چلے گئے۔” اس کے الفاظ میں ایک سرد خالی پن تھا، جیسے وہ اس تجربے کی شدت کو ابھی تک اندر میں محسوس کر رہی ہو۔
”پھوپھو ہمیں پولیس میں رپورٹ کروانی چاہیے“۔۔۔
ہممم۔۔۔۔ وہ آہستگی سے بولی۔
”کراچی کے جیسے حالات ہیں ہمیں اپنے ساتھ ایک بندوق رکھنی چاہیے“۔
”صحیح کہہ رہی ہو“۔۔۔۔
امانی نے نورا کی بات سن کر جوابا آہستگی سے کہا اور اٹھ کر کمرے کی جانب چل دی۔
❤️✨

شہر کے سب سے بڑے اوٹو شو کا دن تھا۔ روشنیوں سے جگمگاتے وسیع و عریض ہال میں دنیا بھر کی مشہور گاڑیاں اور موٹر بائیکس چمک رہی تھیں۔ مختلف اسٹالز پر نئے ماڈلز، جدید ٹیکنالوجی اور رفتار کے دیوانوں کے لیے ہر وہ چیز موجود تھی جو ان کے دل کی دھڑکن تیز کر دے۔
کائد غزنوی اور الیکزینڈر غزنوی جیسے ہی گیٹ سے اندر داخل ہوئے، ہال کی فضاء میں تیز دھنیں بج رہی تھیں، مختلف گاڑیوں کے انجن کی گڑگڑاہٹ اور بائیکس کے ریسنگ ساؤنڈز ماحول کو مزید جوشیلا بنا رہے تھے۔
“واہ! کیا زبردست جگہ ہے، ڈیڈ!” الیکزینڈر کی آنکھیں چمکی۔ وہ جوش میں ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔
کائد غزنوی، جو خود ایک پختہ مزاج اور سنجیدہ شخصیت کے مالک تھے، مسکراتے ہوئے بولے، “ہاں، واقعی! یہاں تو گاڑیوں کی ایک جنت آباد ہے!” ان کی نگاہیں فوراً سامنے کھڑی ایک نئی ماڈل کی اسپورٹس کار پر جا ٹھہریں۔
الیکزینڈر نے ایک نظر گاڑی پر ڈالی، مگر جلدی سے بائیکس کے سیکشن کی طرف لپکا۔ “ڈیڈ، آپ گاڑیوں کو دیکھیں، میں ذرا ان موٹر بائیکس کا نظارہ کرتا ہوں!”
کائد غزنوی نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ سر ہلایا
وہ،  دھیرے دھیرے چلتے ہوئے اسپورٹس کار کے قریب گئے۔ گاڑی کی چمکدار باڈی، ایروڈائنامک ڈیزائن اور طاقتور انجن نے انہیں مسحور کر دیا۔
“یہ دیکھیں، سر! یہ جدید ترین ماڈل ہے، 600 ہارس پاور کے ساتھ، 0 سے 100 کلومیٹر فی گھنٹہ صرف 3.2 سیکنڈ میں!” وہاں کے نمائندے نے پرجوش انداز میں بتایا۔
کائد غزنوی نے غور سے گاڑی کے اندر جھانکا، “یہ واقعی شاندار ہے، انٹیریئر بھی بہت لگژری ہے۔ لیکن کیا یہ روزمرہ کی ڈرائیونگ کے لیے موزوں ہوگی؟”
“سر، یہ ہائبرڈ ماڈل بھی دستیاب ہے، جو فیول اکانومی کے ساتھ اسپیڈ کا زبردست امتزاج فراہم کرتا ہے!” نمائندہ جلدی سے بولا۔
کائد غزنوی نے سر ہلایا، اور موبائل نکال کر گاڑی کے کچھ قریبی شاٹس لینا شروع کیے۔
دوسری طرف الیکزینڈر ایک سے بڑھ کر ایک جدید اور طاقتور موٹر بائیکس کو دیکھ رہا تھا۔ وہ ایک جگہ رک گیا جہاں ایک مشہور کمپنی کی اسپورٹس بائیک رکھی تھی۔ چمکدار نیلے اور سیاہ رنگ میں، اس کا اسٹائل اتنا شاندار تھا کہ الیکزینڈر کی آنکھیں چمکنے لگیں۔
🥰✨

Admin2

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like

Uncategorized

Yar Yaroon sy nah Hon Juda By Zainaib Khan

  Yar yaroon sy nah hn juda by Zainaib khan season 2 Episode(1_19)   . is a Classic, Urdu, Romantic,
Uncategorized

Dil dharky tery liye By Warda makkawi

dharky dil twry liye by Warda makkawi is a Classic, Urdu, Romantic, & Social Novel.  It was published online on