”تم آج کل یونی ورسٹی کیوں نہیں جا رہے قیام؟“ صاعقہ نے چھت پر قدم رکھا تو وہاں رکھے جھولے پر اسے اداس و پریشان سا بیٹھا دیکھ کر اس کے پاس چلی آئی تھی۔ یہ بختاور کے جانے کے تین دن بعد کی بات تھی۔ ان تین دنوں میں اس نے قیام کو گھر پر ہی دیکھا تو آج پوچھ ہی لیا تھا۔”بس یوں ہی دل نہیں کرتا۔“ بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے اس نے سادا سا جواب دیا تھا۔”دل کیوں نہیں کرتا؟“ اس نے سر اٹھا کر صاعقہ کو دیکھا جو آج اس سے اتنے اچھے طریقے سے بات کر رہی تھی۔”وہ۔۔ پڑھائی اب اتنی ہو نہیں رہی۔ سلیبس مکمل ہو چکا ہے اکثر پروفیسروں نے فری کر دیا ہے تو جانے کا فائدہ بھی نہیں ہے۔“ نظریں دوبارہ نیچی کیے اس نے تھوڑے سے جھوٹ کی ملاوٹ سے سچ بولا تھا۔”کہیں باہر بھی نہیں گئے، تین دن سے گھر ہی بیٹھے ہو۔ سب ٹھیک ہے؟“ بید کی کرسی گھسیٹ کر اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے بولی تھی۔”بس دل نہیں کر رہا۔“ اسے ان کا یوں سوال جواب کرنا عجیب لگ رہا تھا۔”بختاور نے کب واپس آنا ہے؟ کیا تمھاری بات ہوئی اس۔۔۔“ ”آپ مجھ سے جاننا کیا چاہتی ہیں؟ کرید کیوں رہی ہیں؟ صاف صاف بات کیوں نہیں کرتیں؟“ اس کے سوال جواب سے گھبرا کر قیام نے اسے ٹوک دیا تھا۔”جیسے تم مجھ سے براہ راست بات کرنے سے کتراتے تھے ایسے ہی مجھے بھی لگا کہ شاید صاف بات کروں تو کہیں تم برا نہ مان جاؤ۔“ اب کے اس نے انتہائی صاف گوئی سے کہا تھا۔”آپ کو غلط لگا۔ شاید آپ کو یاد ہو تو ایک دن آپ جب اپنی بہن سے بات کرنے کے بعد کچھ پریشان تھیں تو اسی دن بلکہ اسی وقت میں نے براہ راست آپ سے بات کرنے کی کوشش کی تھی، تب آپ نے بات کرنا مناسب نہیں سمجھا تھا۔“ قیام نے تمام تر جزئیات سمیت بتایا تو اسے یاد آیا تھا۔”ہاں! تب تم پہ اعتبار کم غصہ زیادہ آتا تھا۔“ وہ مزید صاف گوئی سے بولی تھی۔”اب نہیں آتا یا اب نہیں آ رہا؟“ قیام نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا جو اپنے ایک ہاتھ کے ناخنوں سے دوسرے ہاتھ میں پہنی چوڑیوں پہ لگی کسی چمک دار سی شے کو کھرچ رہی تھی۔”نہیں! تم پر غصہ بس تمھاری عادتوں یا رویے کی وجہ سے ہی آتا تھا۔ ورنہ مجھے تم سے کبھی عناد یا بغض محسوس نہیں ہوا تھا۔“ قیام کو پھر اپنا اتنے سالوں کو اس سے روا رکھا رویہ یاد آیا تو وہ تاسف میں گھر گیا تھا۔”میں نے ان سے شادی ان کی دولت کی خاطر یا تمھاری مما کی جگہ ہتھیانے کے لیے نہیں کی تھی قیام! اس وقت بس میں ایسی مشکلات میں۔۔۔“ وہ رندھی ہوئی سی آواز میں کہتی بات ادھوری چھوڑ کر خاموش ہوئی تھی۔ آنسوؤں نے حلق میں پھندہ بنایا تھا کہ وہ بات مکمل کرنے کی حالت میں نہ رہی تھی۔”کچھ مت کہیے ممی پلیز! میں پہلے ہی بہت شرمندہ ہوں اب یہ سب بتا کر مجھے مزید شرمندہ مت کریں۔“ اس کے روئے ہوئے چہرے سے نظریں چراتا وہ درحقیقت شرمندہ تھا۔”بلکہ ہو سکے تو مجھے معاف کر دیجیے گا۔ میں نے آپ سے بہت ناروا سلوک رکھا۔“ اتنی سب زیادتیوں کے جواب میں صرف ایک معافی کا لفظ بہت چھوٹا تھا لیکن غلطی کا احساس ہو جانے پر درست وقت پر معافی مانگ لینے سے یہ لفظ چھوٹا نہیں رہتا تھا۔ معافی مانگنے والا دوسرے شخص کو یہ احساس دلاتا ہے کہ وہ اس کی زندگی میں اہمیت رکھتا ہے تبھی وہ اپنی عادتوں کے برخلاف جا کر نہ صرف اس سے معافی مانگ رہا ہے بلکہ آنے والے وقت میں اس کی تلافی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہی احساس قیام ہارون نے اپنی معافی سے صاعقہ کو دلایا تھا۔ اب اسے تلافی بھی کرنی تھی۔”تم نے بتایا نہیں قیام! کیا بختاور سے تمھاری بات ہوئی تھی؟“ چند ثانیے خاموشی کے بعد صاعقہ نے سوال دہرایا تھا۔”نہیں! ابھی تک نہیں ہوئی۔“”تم اسے پسند کرتے ہو نا قیام؟“ وہ اچانک پوچھے گئے اس سوال پر گڑبڑا سا گیا تھا۔ دل میں ایک ہوک اٹھی تھی البتہ چہرے سے اندرونی انتشار کو عیاں نہ ہونے دیا تھا۔”نہیں! وہ پروفیسر عباد بدر کو پسند کرتی ہے۔“ ”اور تمھیں اس سے محبت ہے۔“ اس نے سوال کو نیا جامہ پہنا کر دہرایا تھا۔”اسے سچ مچ پروفیسر صاحب سے محبت ہے۔“”محبت سچ مچ یا جھوٹ موٹ نہیں ہوتی قیام! محبت بس ہوتی ہے جیسے تمھیں اس سے ہے جیسے مجھے ہارون سے ہے۔“”مجھے بختاور سے محبت ہے۔“ وہ چپ ہوا تھا۔مری زندگی میں بس اک کتاب ہے، اک چراغ ہےایک خواب ہے اور تم ہویہ کتاب و خواب کے درمیان جو منزلیں ہیں، میں چاہتا تھاتمھارے ساتھ بسر کروںیہی کل اثاثۂ زندگی ہے، اسی کو زاد سفر کروںکسی اور سمت نظر کروں تو مری دعا میں اثر نہ ہومرے دل کے جادۂ خوش خبر پہ بجز تمھارے کبھی کسی کا گزر نہ ہومگر اس طرح کہ تمھیں بھی اس کی خبر نہ ہو(افتخار عارف) ”جیسے اسے پروفیسر عباد سے محبت ہے۔“ چابی والے کھلونے کی طرح وہ ایک ہی راگ الاپ رہا تھا۔”وہ محبت نہیں سراب ہے۔ جو سوائے اسے اذیت اور تکلیف کے کچھ نہیں دے گی۔“ صاعقہ اس کی ایک ہی رٹ سے زچ ہوئی مگر خود پر قابو کیے رہی تھی کہ اس وقت اسے نرمی سے ہی سمجھانا ضروری تھا۔”محبت میں یہ سب چیزیں یہ اذیت یہ تکلیف یہ بلائیں تو ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔“؎ اذیت مصیبت ملامت بلائیںترے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا(خواجہ میر درد)”آپ نے بھی تو یہی سب دیکھا ہے۔“”میری بات اور تھی۔ تمھارے ڈیڈی نے مجھے خود شادی کی پیش کش کی تھی۔ ہماری شادی محبت کی شادی نہیں تھی قیام!“”تو بختاور اور پروفیسر صاحب کی شادی تو محبت کی شادی ہو گی۔“”یک طرفہ محبت قیام! اور یاد رکھو! یک طرفہ محبت کا دکھ محبت میں ملنے والی اذیت سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔“ قیام کچھ دیر کے لیے چپ ہو رہا تھا۔ کچھ بول نہیں پایا تھا۔”کیا تم چاہو گے کہ وہ اس اذیت میں مبتلا رہے؟“ اس کا سر بے ساختہ ہی نفی میں ہلا تھا۔ وہ تو اسے ہمیشہ خوش دیکھنا چاہتا تھا۔”پروفیسر عباد کبھی اس سے شادی تو دور اس کی طرف توجہ کی ایک نظر تک نہیں ڈالیں گے۔ وہ تا عمر اس یک طرفہ محبت کی آگ میں جلے اس سے اچھا ہے کہ ابھی اسے روک لیا جائے۔ وہ ناسمجھ ہے۔ اور عمر ایسی ہے کہ سمجھانے والا ہر فرد برا لگتا ہے۔ تمھیں تو ہر چیز کا اندازہ ہے قیام!“ اس نے پھر سر ہلایا تھا۔”اور میں اس کا ساتھ دینے کا وعدہ کر چکا ہوں۔“ اس نے آہستگی سے کہا تھا۔ صاعقہ سمجھ گئی تھی کہ وہ کن معاملات میں اس کا ساتھ دینے کا وعدہ کر چکا ہے۔ ”تو تمھیں اس کا ساتھ ہی تو دینا ہے۔ ساری زندگی!“ اس نے قیام کی بات کو اپنی مرضی کا رنگ دیا تھا۔ قیام سر جھٹک کر رہ گیا تھا۔”اچھا سنو! کل میں اور تمھارے ڈیڈی سرگودھا جا رہے ہیں۔“ اس نے سن کر حیرت سے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔”بختاور کے لیے تمھارا رشتہ لے کر۔۔۔“ اس نے مسکرا کر وضاحت کی تھی۔ اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھیں۔”پہلے مجھے لگا تھا کہ تمھیں بھی ساتھ جانا چاہیے لیکن اب میں سوچ رہی ہوں کہ ابھی تمھیں نہیں جانا چاہیے۔“”یہ سب بہت جلدی۔۔۔ آپ کو اتنی جلدی کیا ہے؟“ وہ جھنجھلا کر بولا تھا۔”میں اب اس گھر میں اکیلے رہ رہ کر تھک چکی ہوں۔“”تو کیا اپنی تنہائی میرے گلے میں پھندا ڈال کر ختم کرنی ہے؟“ وہ خفگی سے بولا تھا۔”ہاں کَہ سکتے ہو۔“”ممی پلیز! ابھی نہیں!“”میرا اس میں کوئی اختیار نہیں ہے قیام! تمھیں بات کرنی ہے تو اپنے ڈیڈی سے کرو۔“ وہ بات مکمل کر کے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔”وہ اب میری نہیں سنتے۔“ وہ جھنجھلایا تھا۔”اور میری شروع سے نہیں سنتے۔“ ”ممی آپ۔۔!!“”جب کوئی راستہ سجھائی نہ دے تو خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دینا چاہیے۔ یقیناً اللہ ہمارے لیے سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا ہے۔“ قیام بڑی بے بسی سے چپ ہوا تھا۔ صاعقہ اسے اکیلے میں سوچنے کی خاطر اکیلا چھوڑ کر نیچے چلی گئی تھی۔ اس کے چاروں اور عجب سناٹا سا پھیلا ہوا تھا۔ وہ ڈیڈی کے وہاں جانے سے پہلے بختاور سے بات کرنا چاہتا تھا۔٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
Dil O Janam Fida E Tu By Aniqa Anaa Episode 65
