ساگر کی ہنسی اور کھلکھلاہٹ کی آواز پورے گھر میں گونجتی سنائی دیتی تھی اس کی شرارتوں سے ریشماں بی کے آنگن میں خوب رونق لگی رہتی تھی ریشماں بی تو اس کے صدقے واری جاتی وہ پیارا ہی اتنا تھا کہ سب خواجہ سراؤں کے آنکھ کا تارا تھا..چمکیلی نے خود اس کا نام ساگر رکھا تھا اس نے کسی بھی طرح سے ساگر کی پرورش میں کمی نہیں آنے دی تھی چمکیلی نے سچ میں ثابت کردکھایا کہ وہ ساگر کو ماں بن کر پالے گی اور واقعی اس نے ساگر کو ماں بن کر پالا تھا… وہ جتنا اسے پیار دیتی ساگر اس سے کئی زیادہ اپنے لاڈ اٹھواتا..دن پر دن گزرتے گئے سالوں پر سال بیت گئے جیسے جیسے ساگر بڑا ہوتا گیا اس کی سمجھ بوجھ میں اضافہ ہوتا گیا وہ اب پوری طرح سے اپنے ساتھ رہنے والے خواجہ سراؤں کی حقیقت سے واقف ہوچکا تھا لیکن اسے ایک بات ہمیشہ سے ڈسٹرب کرتی تھی کہ وہ کس کا بیٹا ہے اور چمکیلی نے اسے کیسے پالا وہ جاننا چاہتا تھا ساری سچائی لیکن اس کی کھبی ہمت ہی نہیں ہوئی چمکیلی سے ساری سچائی جاننے کی..چمکیلی اسے اتنا پیار کرتی تھی کہ وہ اس کے پیار کے آگے بے بس ہوکر چپ کرجاتا کہ کہیں وہ اس کے پوچھنے پر ہرٹ نہ ہوجاۓ..وہ اس بات کو لے کر اندر ہی اندر اذیت میں مبتلا رہتا لیکن چمکیلی کے سامنے کھبی ظاہر نہ ہونے دیتا.. جب وہ پندرہ سال کی عمر تک پہنچا.. ریشماں بی اس دنیا فانی سے رخصت ہوگئیں اور ان کی جگہ پر چمکیلی کو سب خواجہ سراؤں کی سرپرستی کا حق دیا گیا…:::::::::::::::::::::::::::::::::