دن بھر گرمی بہت زیادہ رہی تھی گرمی سے اس کا برا حال تھا بدن سے پسینہ پھوٹ پھوٹ کر خشک ہوچکا تھا لیکن وہ پھر بھی اپنے کام میں مگن لوہے ، کاغذ کو اکھٹا کرنے میں لگا تھا..وہ روز صبح نیند سے بیدار ہوکر تھیلا اٹھا کر اس میں کاغذ لوہے گتے وغیرہ کی چیزیں جمع کرکے کباڑیںٔے والے فروخت کرتا.. جو پیسے آتے اس سے ہوٹل پر ناشتہ کرکے اپنا پیٹ بھرتا اور دوبارہ سے اپنے کام پر لگ کر شام گئے تک مصروف رہتا..اکثر جب اس کے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے تب وہ ایسے ہوٹل پر جا کر اپنا پیٹ بھرتا جہاں کھبی کھبار کسی اللہ کے بندے کی مہربانی سے غریبوں کو کھانا مفت میں تقسیم کیا جاتا تھا..ہوٹل سے مفت کا کھانا لیتے ہوۓ اسے دلچسپ منظر دیکھنے کو ملتاجیسے ہی کھانا بٹتا مختلف فقیر ایک دوسرے سے لڑ پڑتے ایک دوسرے کو دھکا دے کر پیچھے دھکیلتے پہلے خود کھانا حاصل کرنے کی کوشش کرتے..کھانا تقسیم کرنے والے ان کی عادتوں سے خوب واقف تھے اس لئے جب وہ ان فقیروں کو باہم لڑتا دیکھتے تو فورا کھانا بند کرکے کہتے کہ سب کو باری باری کھانا ملے گا اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے رہو.. اور اس حکم پر وہ لڑنا ایسے بھول جاتے جیسے انہوں نے یہ کام زندگی میں کیا ہی نہ ہو…:::::::::::::::::::::::::::::::::