وہ پل کے نیچے فٹ پاتھ پر لیٹا ماضی کے تلخ یادوں میں کھویا ہوا تھا..ایک سال پہلے ہوۓ حادثے میں اس کی ساری فیملی جل کر مرگںٔی تھی..وہ کتنا خوش تھا اپنی بہن کو لے کر جو اس سے چودہ سال چھوٹی تھی..اس ننھی سی جان کو دنیا میں آۓ چند ہی گھنٹے ہوۓ تھے کہ اچانک ہی گھر میں لگنے والی آگ نے پورے گھر کو اپنی لپیٹ میں لے کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا تھا.. اگر اس دن وہ اپنے دوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے نہ گیا ہوتا تو آج وہ بھی شاید زندہ نہ ہوپاتا یہ اس کی بدنصیبی تھی یا خوش نصیبی جو اس دن وہ گھر پر موجود نہ ہوکر اس حادثے کا شکار ہونے سے بچ گیا تھا…کاش وہ بھی اس حادثے میں اپنے پیاروں کے ساتھ ہی جل کر مر جاتا ایسی در بدر کی زندگی تو اسے نہ جینی پڑتی.. اس نے گہری سانس لے کر اذیت سے اپنی آنکھیں میچ لیں آنکھ کے کنارے سے آنسو پھسل کر کنپٹی پر بہتا ہوا بالوں میں کہیں جذب ہوگیا..وہ انہی اذیت بھری سوچوں میں غرق نہ جانے کب نیند کی وادیوں میں گم ہوگیا اسے خبر نہ ہوئی..وہ پندرہ سالہ لڑکا دن بھر کی مزدوری کے بعد تھکن سے چور وجود لئے فٹ پاتھ پر سر رکھے سورہا تھا جب نیند میں اسے کسی لڑکی کے رونے کی آواز سناںٔی دی..نجانے رات کا کون سا پہر تھا اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا گھپ اندھیرے کی وجہ سے کچھ بھی ٹھیک سے دکھاںٔی نہیں دے رہا تھا شاید لاںٔٹ چلی گئی تھی جس کی وجہ سے کچھ خاص نظر نہیں آرہا تھا..اس نے اٹھ کر خوف سے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں اطراف دیکھنا شروع کیا مگر وہاں کوئی ہوتا تو نظر آتا وہ مایوس ہوکر دوبارہ لیٹ گیا مگر رونے کی آواز مسلسل آرہی تھی.. اس نے کروٹ بدلی تو اسے کچھ فاصلے پر لڑکی نظر آئی جو وہاں سے گزرتے رکشے کی لاںٔٹ کی روشنی میں اسے نظر آئی..اس نے آہستہ سے اس کی جانب قدم بڑھائے..کون ہو تم اس نے اس لڑکی کے زرا فاصلے پر کھڑے ہوکر پوچھا..انسان ہوں..آپ اتنی رات کو اکیلے بیٹھی کیوں رو رہی ہیں..اپنے کئے پرپچھتا رہی ہوں..لڑکی نے سسکیاں لیتے ہوۓ کہا..اسے تجسس ہوا وہ اس کے زرا فاصلے پر بیٹھ گیا..باجی..ایسا بھی کیا ہوا ہے جس پر آپ پچھتارہی ہیں ..میں کم عقل پیار کر بیٹھی جس کی یہ سزا مجھے ملی ہے..وہ اتنا کہہ کر پھر سے رونے کا شغل فرمانے لگی..جب آپ نے پیار کیا تو اس میں رونے والی کیا بات ہے.. اسے اس لڑکی کی بات کچھ سمجھ میں نہ آںٔی..رونے والی بات ہی تو ہے..جس انسان سے میں نے پیار کیا اس پر اندھا اعتماد کیا اس نے مجھے بیچ راہ میں یوں اکیلا چھوڑ دیا..جس کی خاطر میں نے اپنے گھر والوں کو چھوڑا اس شخص نے مجھے میری زرا سی نادانی پر اکیلا چھوڑدیا..آپ نے ایسی کون سی غلطی کی جس کی وجہ وہ آپ کو چھوڑ کر چلا گیا..اسی وقت لاںٔٹ بھی آگئی اسٹریٹ لاںٔٹ کی مدہم روشنی میں لڑکی نے گردن موڑ کر اس پندرہ سالہ لڑکے کو دیکھا جو معصومیت سے تجسس بھری نگاہوں سے اس کی جانب دیکھ رہا تھا اس نے گہری سانس بھری اور پھر اس نے اپنے بارے میں بتانا شروع کیا..میرا نمرہ ہے میں اپنے ماں باپ کی بڑی بیٹی ہوںمیں گھر سے روز رکشے میں کالج جایا کرتی تھی اس دن رکشہ ڈرائیور بیمار ہونے کی وجہ سے مجھے لینے نہیں آیا پھر مجھے کچھ دنوں کے لئے بس سے کالج جانا پڑا..جس اسٹاپ سے میں بس میں چڑھتی تھی اس اسٹاپ اشرف نامی نوجوان بھی سوار ہوتا تھا پہلے دن سے مجھے محسوس ہونے لگا کہ اس کی نظریں مسلسل مجھ پر ٹکی رہتی ہیں وہ اس وقت تک وقفے وقفے سے مجھے دیکھتا رہتا جب تک میں بس سے اتر نہ جاتی اس کا اس طرح دیکھنا مجھے ایک آنکھ نہ بھاتا تھا مگر میں بے بس تھی وہ صرف دیکھتا رہتا تھا اس نے کھبی ایسی ویسی حرکت کرنے کی کوشش نہیں کی تھی.. کچھ دنوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور مجھے بھی اس کی بھولی بھالی صورت پر رفتہ رفتہ پیار آنے لگا مجھے اس کا دیکھنا اچھا لگنے لگا میں بھی اسے کن آنکھیوں سے دیکھنے لگی تھی..ایک دن اس نے میرے پیچھے پیچھے چلنا شروع کیا ایک پل کو مجھے خوف آیا کہ کہیں وہ غلط حرکت نہ کر بیٹھے لیکن وہ اپنے قدم تیزی سے آگے بڑھاتا مجھ سے آگے آگے چلنے لگا اور پھر پھرتی سے وہ میرے جانب مڑا اور میرے ہاتھ میں کارڈ تھماکر آگے بڑھ گیا میں اس کی ہمت پر حیرت زدہ رہ گئی میں نے اپنے اردگرد نظر دوڑائی وہاں پر کوئی نہیں تھا میں نے اطمینان کا سانس لیا میں نے کارڈ پر نگاہ ڈالی کارڈ سادہ سا تھا مگر اس پر صرف نمبر لکھا تھا میں سمجھ گئی کہ ہو نہ ہو یہ اسی کا نمبر ہے میں نے کارڈ بیگ میں ڈالا اور کالج کا گیٹ عبور کرتی اندر داخل ہوگئی.رات کو سوتے وقت مجھےکارڈ کا خیال آیا اور بیگ سے کارڈ نکال کر اس نمبر پر میسج سینڈ کیا…اسی طرح موبائل پر ہماری بات چیت ہونے لگی اور دھیرے دھیرے میں اس کے پیار میں پڑنے لگیاکثر ہم کالج کے قریبی پارک میں بھی ملنے لگے اور اسی طرح چھپتے چھپاتے ہمارے پیار کو دو مہینے کا عرصہ گزر گیا..ایک دن بابا نے مجھے مزید آگے پڑھنے سے منع کیا اور انہوں نے یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ وہ میرا رشتہ اپنے کسی دوست کے بیٹے سے طے کرچکے ہیں اور وہ لوگ اپنے بیٹے کی شادی اگلے ماہ کی دوسری تاریخ کو کرنا چاہتے ہیں..میں بابا کے اس اچانک فیصلے سے میں پریشان ہوگئی میں کسی بھی صورت اشرف کو کھونا نہیں چاہتی تھی پھر میں نے اشرف کو کال ملا کر اسے ساری صورتحال سے آگاہ کیا..اس نے مجھے کالج کے قریب ہی اسی پارک میں ملنے کو بلایا جہاں ہم اکثر چھپ چھپ کر ملا کرتے تھے ..صبح میں نے کالج جانے کی ضد کی اور کالج جانے کے بجاۓ پارک چلی گئی جہاں اشرف پہلے سے ہی موجود میرے آنے کا انتظار کررہا تھااس نے مجھے بے ہوش کردینے والی گولیاں دیں کہ رات کو گھر سے نکلنے پہلے یہ گولیاں سب کے کھانے میں ملادوں جس سے گھر والے بے ہوش ہوجاںٔیں گے اور ساتھ ہی اشرف نے مجھے یہ بھی تاکید کی کہ میں گھر سے نکلتے وقت رقم اور زیوارت ضرور لے کر آؤں لیکن میں رقم تو لے آئی لیکن زیورات لے کر نہیں آںٔی اس نے جب بیگ میں دیکھا کہ میں زیورات لے کر نہیں آئی تو وہ غصے میں مجھے چھوڑ چلاگیا اس نے یہ بھی نہیں سوچا کہ میں اس رات کی تاریکی میں تنہااکیلی لڑکی کہاں جاؤں گی.. تب مجھے سمجھ آیا کہ جسے میں نے اپنا سب کچھ مانا وہ مجھے نہیں چاہتا بلکہ اس نے مجھ سے زیورات حاصل کرنے کے لئے محبت کا ڈھونگ رچایا..اس نے مجھے چھوڑ دیا اب مجھے میرے گھر والے بھی قبول نہیں کریں گے..وہ اپنی کہانی سنا کر سر ہاتھوں میں گراۓ پھوٹ پھوٹ کر روپڑی..آپ سے بہت بڑی غلطی ہوئی ہے اور یہ سبق آپ کو ہمیشہ یاد رہے گا کہ کسی انجان شخص پر یوں آنکھیں بند کرکے بھروسہ نہیں کرتے..ماں باپ کھبی اپنی اولاد کا برا نہیں سوچتے ابھی بھی وقت ہے آپ گھر واپس چلی جائیں..کس منہ سے گھر واپس چلی جاؤں نہیں میں یہی جان دے دوں گی لیکن گھر نہیں جاؤں گی..دیکھیں باجی گھر جیسا آرام و تحفظ کہیں بھی نہیں مل سکتا یہ مجھ بے گھر سے پوچھو.. یہ کہتے ہوۓ اس نے اپنی کہانی مختصر سنا ڈالی..نمرہ اس کی کہانی سن کر اپنی نم آنکھوں سے اس کا معصوم چہرہ تکنے لگی ..اب آپ کو گھر واپس چلے جانا چاہیے آپ کے گھر والے بیہوشی کی دوا سے بے ہوش ہوں گے اسی طرح انہیں آپ کے گھر سے چلے جانے کا کوئی پتہ بھی نہیں چلے گا..مگر میں اکیلی کیسے گھر جاسکتی ہوں اگر اس تاریک اندھیری رات میں کوئی بھیڑیا نما انسان میرے پیچھے پڑ گیا تو..ابھی تو سڑک پر جان دینے کی بات کررہی تھی اور اب اکیلے گھر جانے سے ڈر رہی ہیں..خیر ڈرو نہیں آپ کو آپ کا چھوٹا بھائی گھر تک چھوڑنے جاۓ گا..نمرہ نے پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھا.. قد کاٹھ میں وہ پندرہ سال کا لڑکا نہیں بلکہ انیس بیس سال کے عمر کا بھرپور نوجوان نظر آرہا تھا..نمرہ آنکھوں سے آنسو پونچھتی اٹھ کھڑی ہوئی..ویسے تمہارا نام کیا ہے..نمرہ اس کے ساتھ ساتھ چلتے ہوۓ پوچھ بیٹھی..میرا نام عالمگیر ہے اور میرے والدین مجھے پیار سے عالم کہہ کر پکارتے تھے..یہ کہتے ہوۓ عالم کے ہونٹوں پر آسودگی بھری مسکراہٹ آٹھہری اور آنکھوں میں نمی چمکی تھی..جسے نمرہ نے بغور دیکھا تھا..:::::::::::::::::::::::::::::::::::نمرہ گھر کے اندر داخل ہونے سے گھبرا رہی تھی لیکن عالم نے یہ کہہ کر اسے گھر کے اندر جانے کو کہا کہ اگر کوئی مسئلہ ہوا تو مجھے آواز دے کر اندر بلالے..نمرہ کے اندر جانے کے بعد وہ پندرہ منٹ تک وہی رکا رہا جب وہ سمجھ گیا کہ سب ٹھیک ہے تو وہ واپس اپنی جگہ پر لوٹ آیا..::::::::::::::::::::::::::