آج یہ موقع میسر آیا تو اس کا پرانا مزاج بھی عود کر آیا تھا۔ بچپن سے مزاج میں رچی بسی عادتیں، جو انسان کی فطرتِ ثانیہ بن جاتی ہیں ان کا بدلنا ناممکنات میں سے ہوتا ہے تا وقت یہ کہ انسان خود ان عادتوں سے چھٹکارا نہ پانا چاہے۔ بختاور نے کبھی ایسی کوئی کوشش کی ہی نہیں تھی اور نہ کرنے کا سوچا ہی تھا۔”یہ تمھاری یونی ورسٹی کی مائیگریشن یا لندن پیرس جانے جیسا معمولی معاملہ نہیں ہے کہ تم نے ذرا سا رونا دھونا مچایا اور میں تُمھارے آنسوؤں سے پگھل کر مان جاؤں گا۔“ ان کی آواز نیچی لیکن لہجہ سخت تھا۔”یہ تمھاری زندگی اور میرے خاندان کی عزت کا سوال ہے اور میں تمھیں اپنی زندگی اور ہماری عزت داؤ پر لگانے نہیں دوں گا۔“”اور اگر میں اپنی جان سے ہی چلی جاؤں تو۔۔؟؟؟“ اس نے بڑے ٹھنڈے لہجے میں انتہائی سکون سے دریافت کیا تھا۔”ایسا کچھ ہو اس سے پہلے میں خود تمھیں جان سے مار دوں گا۔“ وہ اس کا بازو دبوچتے ہوئے سختی سے اسے تنبیہ کرتے ہوئے بولے:”اگر ایسا کچھ بھی کرنے کا سوچا تو یاد رکھنا اس پروفیسر کو غائب کروانا میرے لیے کچھ مشکل نہیں ہو گا۔“ وہ آنکھوں میں حیرت سموئے بے یقینی سے انھیں دیکھتی چلی گئی تھی۔ شفاف آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہونے لگی تھیں۔”تم تو میری بہت ناک والی اور بڑی انا پرست بیٹی تھی بختاور! کہ جو ایک بار تمھیں منع کرتا تھا تم دوبارہ اس کی شکل دیکھنا گوارا نہیں کرتی تھی اب کہاں گئی تمھاری وہ ضد وہ انا؟؟“ وہ اسے جھنجھوڑ کر بولے تھے کہ شاید ایسے ہی اس کے دماغ سے یہ خیال نکل جائے۔”محبت ساری عزت نفس ساری انا اور ضد ختم کر دیتی ہے ڈیڈی! محبت میں سدھ بدھ کھو جاتی ہے۔“ وہ دور خلا میں غیر مرئی نکتے پر نظر ٹکائے بولی تھی۔”محبت ایک پھانس ہے جو سینے میں تیر کی مانند گڑ جاتی ہے اور کسی پل قرار نہیں لینے دیتی۔ ایک خار ہے جو دل میں چبھتا ہے، یہ ایک ایسا خار ہے جو پھولوں کی طرف دھیان نہیں جانے دیتا۔“ وہ حق دق سے اسے بولتے ہوئے سن رہے تھے اور وہ ان کے خیالات سے قطع نظر اپنی ہی دھن میں مگن بولے چلی جا رہی تھی۔”محبت ایک خلش ہے جو ہر لمحہ بے چین رکھتی ہے، ”نہ دن کو قرار ملتا ہے نہ رات ہی کو سکون میسر آتا ہے۔ انسان ہوش و حواس، چین و قرار اور اپنی سدھ بدھ کھو بیٹھتا ہے۔“”تمھیں شرم نہیں آتی اپنے باپ سے اس قسم کی باتیں کرتے ہوئے؟“ انھوں نے پھر اسے ڈانٹا تھا۔”یہ آزادی یہ زبان اسی باپ کی دی ہوئی ہے۔“ وہ اسی لے میں بولی تو ان کا غصہ پھر بڑھا تھا۔”اماں جان ٹھیک ہی کہتی تھیں کہ مجھے تمھیں یہاں بھیجنا ہی نہیں چاہیے تھا۔“ وہ اس سے بحث ختم کرنے کا فیصلہ کرتے اٹھے تھے۔”ہم آج ہی واپس سرگودھا جائیں گے۔ اب میں تمھیں یہاں نہیں رہنے دوں گا۔ یونی ورسٹی میں مائیگریشن کروانا میرے لیے نہ پہلے مشکل رہا تھا نہ اب ہے۔“”میں کہیں نہیں جاؤں گی ڈیڈی! اپنی ڈگری مکمل ہونے۔۔۔“ وہ تڑپ کر اٹھی تھی۔”بس بختاور بس!!“ انھوں نے پلٹ کر انگلی اٹھا کر اسے خبردار کیا تھا۔”ایک لفظ اور مت کہنا۔ میں پرائے گھر میں سب کے سامنے کسی قسم کا تماشا نہیں چاہتا۔ تمھارے ہاسٹل سے سارا سامان میں خود لے آؤں گا۔ فی الحال تم تیاری کرو ہمیں کسی سے ملنے جانا ہے۔“ وہ جو ایک دم چپ ہوئی تھی آخری بات سن کر پھر سر اٹھا کر غصے سے بولی تھی۔”میں کہیں نہیں جاؤں گی۔“”حلیہ ٹھیک ہے تمھارا، چلو چلتے ہیں۔“ وہ اس کی بات ان سنی کرتے اس کا ہاتھ تھام کر کمرے سے نکلے تھے۔ مجبوراً اسے بھی کٹھ پتلی کی مانند ان کے ہمراہ چلنا پڑا تھا۔
Dil O Janam Fida E Tu by Aniqa Ana Episode 61
