”ڈیڈی! مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔“ پہلے وہ ڈرائیور راجر کی جگہ انھیں دیکھ کر حیران ہوا مزید حیرت ان کی بات سن کر ہوئی تھی۔”باتیں کرنے کے لیے ابھی بہت وقت پڑا ہے۔ تم جلدی سے گاڑی میں بیٹھو! تمھیں کچھ دکھانا ہے۔“ لہیم ہر ویک اینڈ پہ بورڈنگ ہاسٹل سے گھر آتا تھا۔ اسفند جاہ کہیں بھی ہوتے اسے لینے اپنے خاص ڈرائیور کو لازمی بھیجا کرتے تھے۔ لہیم چھٹی کے وہ دو دن اکثر اکیلے ہی گزار کر ہاسٹل واپس چلا جاتا تھا۔ اسفند جاہ کی طرف سے اسے یہ تاکیدبھی کی گئی تھی کہ کچھ بھی ہو جائے چھٹی پہ گھر ضرور آنا ہے اور وہ کوشش کے باوجود نہ ڈرائیور کو واپس بھیج پاتا تھا اور نہ ان سے شکایت ہی کر پاتا تھا لیکن پچھلے کچھ مہینوں سے جب بھی وہ گھر جاتا تو ان کی غیر موجودگی میں اس نے کئی بار ایلسی جاہ کو کسی دوسرے مرد کے ساتھ گھر میں اور گھر سے باہر آتے جاتے دیکھا تھا۔ ان دونوں کے درمیان بے تکلفی اور ان کی گفت گو سے وہ ان کے تعلقات کی نوعیت کا اندازہ کر سکتا تھا۔ حد سے زیادہ ذہین افراد کا ایک المیہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ان کی محسوس کرنے کی حسیں کچھ زیادہ ہی تیز ہوتی ہیں۔ وہ چھوٹی عمر سے ہی ہر چیز کو گہرائی سے دیکھنے، ماپنے اور جانچنے لگتے ہیں اور ایسا وہ جان بوجھ کر نہیں کرتے سب کچھ خود کار طریقے سے ہی ہو جاتا ہے۔ انھیں حالات و واقعات عام افراد کی نسبت جلدی اور تیزی سے سمجھ میں آنے لگتے ہیں۔ وہ چھوٹی عمر میں ہی بڑے ہو جاتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ لہیم کے ساتھ تھا۔ ایک تو ذہانت اور اس پر تنہائی کا جان لیوا احساس ، جو اسے بچپن ہی سے ماں باپ کی طرف سے ملا تھا ، اس سب نے مل کر اسے خطرناک حد تک سنجیدہ، پروقار، متین اور سمجھ دار بنا دیا تھا۔ اس کی عمر میں بچپن کا دور آیا ہی نہیں تھا۔ وہ بچپن سے لڑکپن کی حد میں آنے کے بجائے ایک ساعت میں جوانی کی دہلیز پر آ کھڑا ہوا تھا۔ وہ اس چھوٹی عمر میں بھی وہ سب باتیں سوچنے اور محسوس کرنے لگا تھا جن باتوں کا سمجھنا اس کے لیے ٹھیک نہیں تھا۔”آپ نے اس بار اپنی شادی کی سالگرہ پر ممی کے لیے فارم ہاؤس خریدا ہے۔“ اس نے ان کے سرپرائز کو ختم کرتے ہوئے سنجیدگی سے کہا تھا۔”تمھیں کس نے بتایا؟ ممی نے؟“ گاڑی موڑتے انھوں نے استفسار کیا تو وہ ہنس پڑا تھا۔”ممی مجھے کچھ نہیں بتاتیں۔“ انھوں نے کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا۔”آپ مجھے وہاں کیوں لے جا رہے ہیں؟“”میں تمھیں بھی وہ فارم ہاؤس دکھانا چاہتا ہوں۔“”ممی مجھے اس گھر میں برداشت نہیں کرتیں جو میرے ہی نام پہ ہے تو بھلا وہ میرا اپنی ملکیت میں جانا کیوں پسند کریں گی؟“”ایسا نہیں ہے بیٹا!“ اب اس کی تردید کرنا انھوں نے ضروری سمجھا تھا۔”وہ تم سے اتنا ہی پیار کرتی ہے جتنا میں کرتا ہوں۔ بس اسے اپنی زندگی میں کسی کی مداخلت پسند نہیں ہے۔“”کیا آپ واقعی مجھ سے پیار کرتے ہیں؟“ اس کا ہاتھ بے ساختہ ہی اپنے گال پر گیا تھا جہاں پچھلے ہی ہفتے انھوں نے تھپڑ مارا تھا۔ قصور صرف یہ تھا کہ وہ ایلسی جاہ سے ملنے ان کے کمرے میں چلا گیا تھا۔”بالکل! بہت محبت کرتا ہوں بیٹا۔ ماں باپ غصے میں آ کر یا غلطی کی سزا کے طور پر ہلکا پھلکا سا کچھ کَہ دیں، مار لیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ پیار نہیں کرتے۔“(ہلکا سا۔۔ اس تھپڑ کا نشان دو دن اس کے چہرے پر رہا تھا۔ اور تکلیف کئی دنوں تک۔۔۔) اس نے گاڑی سے باہر دیکھتے یہ سب باتیں صرف سوچی تھیں۔ ان سے کسی قسم کی بحث نہیں کی تھی۔”ڈیڈی! کیا میں واقعی آپ دونوں کا ہی بیٹا ہوں؟ آپ نے مجھے گود تو نہیں لیا تھا؟“ کب سے دل میں آیا سوال پوچھ ہی لیا تھا۔”اوہ کم آن لہیم! یہ کیسی باتیں کر رہے ہو؟ تم میرے اور ایلسی کے ہی بیٹے ہو۔ میری اپنی حقیقی اولاد ہو۔“ وہ کچھ دیر دائیں بائیں سر ہلاتے تاسف سے اسے دیکھتے رہے تھے۔ ساتھ سامنے سڑک پر بھی دھیان تھا۔”کیا کیا سوچتے رہتے ہو تم لہیم! فارغ وقت میں کچھ کھیل کھیلا کرو، کوئی کام کیا کرو۔ خالی دماغ شیطان کا گھر ہوتا ہے۔“ اس نے گود میں رکھے بیگ میں سے موٹی موٹی دو کتابیں نکال کر ان کے سامنے رکھی تھیں۔”پچھلی بار آپ کی سٹڈی سے یہ دو کتابیں لے گیا تھا۔ اس بار کچھ اور لے کر جاؤں گا۔“ ان کی آنکھیں حیرت سے کھل گئی تھیں۔ جو کتابیں وہ دکھا رہا تھا یہ ابھی تک اپنے پیچیدہ موضوع اور وقت کی کمی کے باعث وہ خود بھی نہیں پڑھ پائے تھے باوجود اس کے کہ وہ کتابیں ایک سال سے ان کے پاس موجود تھیں اور انھوں نے ان کتابوں کا خصوصی ایڈیشن بڑی مشکل سے حاصل کیا تھا۔”تم نے یہ دونوں کتابیں پڑھ لیں؟“ وہ کتابیں طبیعیات مابعد الطبیعیات مفکرین کے فلسفے سے متعلق تھیں اور خاصی سمجھ بوجھ کے ساتھ مطالعے کی متقاضی تھیں۔”جی ہاں! تین دن میں ہی پڑھ لی تھیں۔“ اس نے عام سے انداز میں بتایا تھا۔”سمجھ میں آ گئی تھیں؟“ ان کی حیرانی کم ہونے میں ہی نہیں آ رہی تھی۔”جی ہاں! ایسا کچھ مشکل نہیں تھا البتہ میں کچھ فلاسفرز کے نظریے سے متفق نہیں ہوں تاہم میری پسند ناپسند سے قطع نظر دیکھا جائے تو اچھی کتاب ہے۔ آپ کو پہلی فرصت میں پڑھنا چاہیے۔“ وہ سرسری سا انھیں کتابوں کے مندرجات سے آگاہ کرنے لگا تھا۔ وہ حیرت سے اپنے تیرہ سال کے بیٹے کو دیکھ رہے تھے۔ جو اپنی عمر سے پہلے بہت بڑا ہو گیا تھا۔”تمھیں یہ کتابیں نہیں پڑھنی چاہییں۔ تمھاری عمر۔۔۔“”اب تو پڑھ چکا ہوں ڈیڈی!“ وہ متانت سے جواب دے کر باہر دیکھنے لگا وہ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد بولے تھے۔”تمھیں بچوں کے لیے لکھے گئے ادب کا مطالعہ کرنا چاہیے لہیم!“”میری عمر اب ہیری پورٹر یا سند باد جہازی اور کولمبس جیسے فکشن پڑھنے کی نہیں ہے ڈیڈی۔“ وہ تیرہ سال کا بچہ انھیں اپنی عمر بتا رہا تھا۔ انھیں گاڑی روکنی پڑی تھی۔”اس بار میں ژاں پال سارتر کا Nausea اور البرٹ کامیو کا The Stranger پڑھوں گا۔ آپ نے تو پڑھ لیے ہوں گے نا؟“ وہ انھیں اپنا اگلا ہدف بتا کر ان سے پوچھ رہا تھا۔”تم یہ سب نہیں پڑھو گے لہیم!“ انھوں نے سختی سے تنبیہ کرتے ہوئے دونوں کتابیں اس کی گود میں سے اٹھا کر پچھلی سیٹ پر رکھیں اور گاڑی دوبارہ چلائی تھی۔”ہم آج شام تک فارم ہاؤس پہ ٹھہریں گے رات کی ٹکٹ لے کر سینما میں کوئی اچھی مووی دیکھیں گے اور پھر کھانا کسی ہوٹل سے کھائیں گے۔“”جی اچھا“ اس نے دو لفظوں میں بات ختم کی تھی۔(اگر ممی نے آپ کو یہ سب کرنے دیا تو۔۔۔) اس نے اب بھی صرف سوچا ہی تھا اور ان سب باتوں میں وہ یہ بھول گیا کہ اسے ڈیڈی سے کچھ بات کرنی تھی۔
Dil O Janam Fida E Tu By Aniqa Ana Episode 63 Past Special
