”ڈیڈی! آپ جب بزنس ٹورز پہ جاتے ہیں تو ممی کو اپنے ساتھ کیوں نہیں لے جاتے؟“ لہیم اگلے ویک اینڈ پہ گھر آیا تو ایلسی کی غیر موجودگی میں اسے اسفند جاہ سے بات کرنے کا موقع ملا تھا۔”میں کام کے لیے جاتا ہوں لہیم! سیر سپاٹے کے لیے نہیں!“ دونوں اس وقت رات کے کھانے کے لیے میز پر موجود تھے۔”آپ کو ممی کو بھی اپنے ساتھ کام میں مصروف کرنا چاہیے۔“ وہ اپنی پلیٹ میں کھانا نکالتے ہوئے نہایت نپے تلے انداز میں بول رہا تھا۔”کیا ہوا لہیم؟ کیا تمھیں ممی کے ساتھ وقت گزارنا پسند نہیں ہے؟“ چھری کانٹا اٹھاتے ہوئے انھوں نے اسے دیکھا تھا جو کچھ بولنے کے لیے ذہن میں الفاظ ترتیب دے رہا تھا۔”ممی کو میرا گھر پہ ہونا پسند نہیں ہے ڈیڈی!“”اوہ کم آن لہیم! میں نے تمھیں پہلے بھی سمجھایا تھا کہ وہ ماں ہے تمھاری، وہ ایسا کیوں کرے گی؟“”کیوں کہ وہ مجھے پسند نہیں کرتیں۔“ وہ اپنی پلیٹ میں چمچ چلاتے ہوئے سنجیدگی سے گویا ہوا تھا۔”یہ سب تمھارا وہم ہے۔ تم سے کہا تھا کہ اپنی عمر سے بڑی کتابیں مت پڑھا کرو۔ یہ فضول قسم کی سوچیں اسی کا نتیجہ ہے۔“ وہ اسے سمجھاتے ہوئے ہلکی سی سرزنش کرتے ہوئے بولے تھے۔”میں بچہ نہیں ہوں ڈیڈی! اور بے وقوف تو بالکل بھی نہیں ہوں۔“ اب کی بار وہ مضبوط لہجے میں بولا تھا۔”تمھیں اپنی ممی کے قریب ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اپنے اور اس کے درمیان حائل فاصلے کم کرنے چاہییں۔“ ان کی بات پر وہ عجیب سے انداز میں مسکرا کر بولا:”مجھے ان کے قریب کرنے سے اچھا ہے کہ وہ جس کے قریب رہ رہی ہیں، انھیں اس سے دور کر دیں۔“ چھری سے گوشت کاٹتا ان کا ہاتھ اس کی بات پر ساکت ہوا تھا۔”یہ کیا کَہ رہے ہو تم؟“” جب آپ یہاں نہیں ہوتے تو ممی ان کے ساتھ ہوتی ہیں۔“ وہ بچہ ہو کر یہ سب سمجھ رہا تھا تو وہ کیسے نہ سمجھتے کہ ایک عورت کا دوسرے مرد کے ساتھ ہونے کا کیا مطلب تھا۔”زبان سنبھالو لہیم! کیا تم نہیں جانتے کہ کس کے متعلق بات کر رہے ہو؟“ اس کی بات سمجھنے کے باوجود بھی وہ اسے ہی ڈانٹنے لگے تھے۔ ایلسی جاہ نے انھیں اپنی محبت میں اس طرح جکڑ رکھا تھا کہ انھیں اچھا برا کچھ سمجھ میں آتا ہی نہیں تھا۔”میں تو زبان سنبھال ہی لوں گا ڈیڈی! لیکن آپ کو چاہیے کہ ممی کو بھی سنبھال لیں۔“ اس سے زیادہ سننے کی ان میں ہمت نہیں تھی۔ انھوں نے غصے میں اسے زور تھپڑ مارا تھا وہ کھانے سے ہاتھ کھینچتا، کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔”مجھ پہ ہاتھ اٹھانے سے کیا ہو گا ڈیڈی؟ ابھی تو صرف میں نے زبان کھولی ہے وہ بھی تین سال بعد۔۔ میرے بعد کسی باہر والے نے زبان کھولی تب آپ کیا کریں گے؟ کس کس پہ ہاتھ اٹھائیں گے یا کس کس کی زبان روکیں گے؟“ وہ ان کی مار کھانے کا اس قدر عادی ہو چکا تھا کہ اب ان کی مار سے اسے تکلیف نہیں ہوتی تھی۔ وہ دکھ تکلیف کے ہر احساس سے عاری ہو چکا تھا۔”میں تمھاری جان لے لوں گا لہیم!“ آنکھوں پہ بندھی محبت کی وہ پٹی، اتنی مضبوط تھی کہ انھیں بیٹے کی آنکھوں میں چھپی سچائی اور چہرے پر چھپے اپنی انگلیوں کے نشان دکھائی ہی نہ دیے تھے۔”ہاں ڈیڈی! جان لے ہی لیجیے۔“ وہ تلخی سے ہنسا تھا۔ اسفند جاہ کو نجانے کیا ہوا تھا۔ سوچنے سمجھنے کی ساری صلاحیتیں جیسے سلب ہو کر رہ گئی تھیں۔ انھوں نے پھلوں کی ٹوکری میں رکھی چھری اٹھا کر بے سوچے سمجھے اسے ماری تھی۔ چھری اس کے سینے پر دل سے کچھ اوپر پیوست ہوئی تھی اور لمحوں کا سارا کھیل تھا۔ اس کی ہلکی نیلی شرٹ خون سے سرخ ہونے لگی تھی۔”ڈیڈی!!“ وہ ساکت و جامد، ہکا بکا رہ گیا تھا۔ وہ اسے مارتے پیٹتے تھے لیکن نوبت اس حد تک کبھی نہیں آئی تھی۔ اس نے خود ہی ہاتھ بڑھا کر چھری نکالنی چاہی اور اسی تگ و دو میں سینے پر کٹ مزید گہرا اور لمبا ہوا تھا۔”اوہ مائی گاڈ! لیہم یہ۔۔۔ مجھے معاف کر دو بچے!“ وہ حواس میں آتے، اپنی کرسی چھوڑ کر اس کی طرف لپکے کہ زخم کا جائزہ لیں۔ ان کی چیخ و پکار سن کر وہ بھی بے ہوشی سے جاگا تھا۔ ایک نظر اپنی خون میں لت پت شرٹ کو دیکھا اور دوسری نگاہ ان کے حواس باختہ چہرے پر ڈالی تھی۔”معافی کا لفظ میری ڈکشنری میں نہیں ہے ڈیڈی! اور آئندہ آپ جتنا مجھ سے دور رہیں گے اتنا ہی ہم دونوں کے لیے اچھا ہو گا۔“ وہ سرد مہری سے کہتا ہوا انھیں پشیمان چھوڑ کر تیز قدموں سے چلتا وہاں سے چلا گیا تھا۔ اس دن کے بعد انھیں نہیں پتا چلا کہ وہ کس ڈاکٹر کے پاس جا رہا تھا یا کیا کر رہا تھا۔ البتہ ملازمین کو اس پہ نظر رکھنے کی خاص ہدایات ضرور دی ہوئی تھیں۔ ان کی ہی زبانی پتا چلتا تھا کہ اس کی لاپروائی کی وجہ سے زخم بگڑ گیا تھا۔ وہ باقاعدگی سے ڈاکٹر کے پاس بھی نہیں جاتا تھا۔”لاپروائی یا خود اذیتی۔۔۔“ وہ سوچنے پر مجبور ہوئے تھے۔ ”وہ اپنی عمر سے زیادہ سوچنے لگا ہے اور ان سب کا ذمہ دار میں ہی تو ہوں۔“ ایلسی کسی کٹی پارٹی میں گئی ہوئی تھیں۔ تنہائی میسر آتی تو ان کی سوچوں کا محور ایسی ہی کئی باتیں رہتی تھیں مگر بس اتنی دیر کے لیے جتنی دیر ایلسی ان کے قریب نہیں آتی تھیں۔ دھیان کی رو اب لہیم سے ہٹ کر ایلسی کی طرف مڑی تھی۔”کتنے دن ہو گئے اس سے ٹھیک سے بات نہیں ہوئی۔“ وہ سوچتے ہوئے فون اٹھا کر ایلسی کا نمبر ملانے ہی والے تھے جب وہ لانگ سکرٹ پہ ہائی ہیل پہنے ایک ادا سے چلتی اندر آتی دکھائی دی تھیں۔ سرخ ستاروں سے مزین سکرٹ میں ان کا متناسب سراپا مزید نکھر کر سامنے آیا تھا۔ وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید خوب صورت ہوتی جا رہی تھیں۔”اسفی! اگر تم سے کچھ مانگوں تو انکار تو نہیں کرو گے؟“ ان کا ہاتھ تھام کر ان کے نزدیک بیٹھتے ہوئے محبت پاش لہجے میں بولی تھیں۔”تم جان مانگو تو میری جان حاضر ہے۔“ ”میں چاہتی ہوں کہ ہم پاکستان شفٹ ہو جائیں۔“ ان کے اس مطالبے پر وہ سیدھے ہوئے تھے۔
جاری ہے۔