”عماد بدر؟“ وہ آخری پیپر دے کر
ہال سے باہر نکل کر کسی کام سے لائبریری کی طرف گیا تھا۔ اسے ایک کتاب آج ہی ایشو کرانی تھی۔ اسی لیے پیپر دے کر لائبریری کا رخ کیا تھا۔ کتاب ڈھونڈتے، رجسٹر میں اندراج کرتے اسے آدھا گھنٹہ لگا تھا۔ فارغ ہو کر باہر نکلا تو تین آدمی اس کا راستہ روکے کھڑے تھے۔”عماد بدر!“ ان تین میں سے ایک نے دو قدم آگے ہو کر اس سے استفسار کیا تھا۔ دوپہر کا وقت تھا اور آس پاس ان چاروں کے سوا کوئی نہیں تھا۔ اس نے سر ہلایا تھا۔”جی ہاں! لیکن آپ کون؟“”پولیس“ اس شخص نے ایک کارڈ اس کے سامنے کیا۔”آپ کو ہمارے ساتھ چلنا ہے۔“ دو آدمی ایک لمحے میں اس کے دائیں بائیں کھڑے ہوئے تھے۔ گویا اس کے ہلنے جلنے اور بھاگنے کی ساری راہیں مسدود کر دی گئی تھیں۔”کیا؟ مگر کیوں؟ میں نے کیا کیا ہے؟“ اس نے مزاحمت کرنا چاہی مگر اس کے دائیں بائیں منکر نکیر کی طرح کھڑے ان دو لوگوں نے اسے ہلنے تک کا موقع نہیں دیا تھا۔”دیکھیے مسٹر عماد! آپ جتنا ہمارے ساتھ تعاون کریں گے اتنا ہی آپ کے لیے اچھا ہو گا۔ ہم آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچانا چاہتے۔“ تیسرے آدمی نے کھردرے لہجے میں کہا تھا۔ تینوں اسے لیے عام سے انداز میں چلتے ہوئے مرکزی دروازے سے نکل کر سڑک عبور کرتے ہوئے، ایک سیاہ رنگ کی لینڈ کروزر تک آئے تھے۔”کیا آپ مجھے بتائیں گے کہ۔۔۔“ وہ گاڑی میں بیٹھ تو گیا تھا مگر ابھی بھی پریشان تھا۔”فون کر کے اپنے والد محترم کو اطلاع دے دیں کہ آج آپ گھر نہیں آ سکتے۔“ اسے یک لخت عجیب سا احساس ہوا تھا۔ خوف کی ایک سرد لہر رگ و پے میں سرایت کر گئی تھی۔ کانپتے ہاتھوں سے موبائل نکال کر اس نے عباد بدر کا نمبر ملایا تھا۔”اور ہاں! کوئی فالتو بات نہیں۔“”ہیلو! السلام علیکم بابا جان!“ اس نے خوف پہ قابو پاتے ہوئے فون اٹھائے جانے پر بات شروع کی تھی۔”میں آج گھر نہیں آ پاؤں گا۔ کچھ ضروری کام نمٹانے ہیں وہ ختم کر کے، جیسے ہی فارغ ہوا آپ کو بتا دوں گا۔“ اس نے بات مکمل کی ابھی کچھ اور کہنا چاہتا تھا لیکن اسی بندے نے آنکھوں سے سختی سے فون بند کرنے کا اشارہ کیا تھا۔ ناچار اسے فون بند کرنا پڑا تھا اور جوں ہی اس نے فون بند کیا، اس آدمی نے فون اس کے ہاتھ سے لے کر آف کرتے ہوئے اپنی جیب میں رکھ لیا تھا۔”لاپتا و گم شدہ افراد۔۔۔“ کتنی ہی خبریں جو وقتاً فوقتاً اس کے سامنے سے گزرتی رہتی تھیں آج ایک ایک کر کے اس کی آنکھوں کے سامنے آ رہی تھیں۔ تب وہ سرسری سا سن کر سر جھٹک کر آگے بڑھ جایا کرتا تھا۔ آج جب خود چند ان جان افراد کے نرغے میں پھنسا نامعلوم مقام کی طرف جا رہا تھا تو آنے والے وقت کی دہشت اور خوف کو محسوس کرتے ہوئے ابھی سے اس کا وجود کانپ اٹھا تھا۔”تو کیا اس کا شمار بھی اب انھیں لاپتا اور گم شدہ افراد میں ہونے والا تھا؟“ ایک بڑا سا سوالیہ نشان اس کے سامنے ناچنے لگا تھا۔”اللہ! میرے حال پر رحم فرما۔“ دل سے دعا نکلی تھی۔ گاڑی کے سیاہ بند شیشوں کے باعث وہ باہر راستوں کا بھی اندازہ نہیں لگا پا رہا تھا۔ قریب کوئی چار گھنٹے بعد گاڑی ایک جھٹکے سے رکی تھی۔ اس نے ایک طویل سانس بھرتے، چہرے پر ہاتھ پھیرا، دل میں قرآنی آیات کا ورد کرتے خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیا تھا۔”آپ؟؟“ دروازے میں ایستادہ شخص کو دیکھ کر حیرت سے اپنی جگہ ساکت ہو گیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭