”تم پھر کہیں جا رہے ہو واصب؟“ شبیر حقانی اس سے کوئی بات کرنے اس کے کمرے میں آئے تھے۔ اسے سوٹ کیس میں کپڑے رکھتے دیکھ کر حیرت سے پوچھا تھا۔”اوہ ڈیڈی آپ؟“ وہ ان کے بن بتائے، اچانک چلے آنے پر گڑبڑا سا گیا تھا۔”آپ کو کم از کم دستک دے کر تو آنا ہی چاہیے تھا۔“ اس نے کہا تو انھوں نے اسے ایک زبردست گھوری سے نوازا تھا۔”یہ طور طریقے مجھے مت سکھاؤ۔ تم کہاں جا رہے ہو؟“”کام سے لاہور جا رہا ہوں ڈیڈی!“ اس نے گول مول سا جواب دیا تھا۔”کس کام سے۔۔۔؟“ انھیں شبہ ہوا۔ ”اوہ کم آن ڈیڈی! آپ تو پولیس والوں کی طرح مجھ سے تفتیش کر رہے ہیں۔“ وہ جھنجھلا کر بولا تھا۔”آپ کو معلوم تو ہے کہ میں کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر پروڈکشن ہاؤس کھولنے والا ہوں تو اسی سلسلے میں آنا جانا لگا رہتا ہے۔ اب میں سب چھوڑ کر گھر پر تو نہیں بیٹھا رہ سکتا۔“ سوٹ کیس بند کرتے ہوئے اس نے مقدور بھر لہجے کو ادب کے دائرے میں رکھنے کی کوشش کی تھی۔”ہاں ٹھیک ہے۔ میں سمجھ نہیں پا رہا کہ تمھیں اتنا غصہ کیوں آ رہا ہے؟ کیا واقعی لاہور جانا ہے یہ کہیں اور۔۔۔؟“ وہ دل میں چھپا شک زبان پر لائے تھے۔”مجھے غصہ نہیں آ رہا ڈیڈی! اور مجھے غصہ آئے گا بھی کیوں؟“ وہ کمال مہارت سے چہرے کے تاثرات چھپا کر ہونٹوں پہ مسکراہٹ لاتا ہوا بولا تھا۔”ہارون اور اس کی بیوی گھر آنا چاہ رہے تھے۔“ انھوں نے بات کا آغاز کیا تھا۔ وہ خواجہ ہارون کی فیملی سے واقف تھا۔”وہ اپنے بیٹے قیام کے لیے بختاور کا رشتہ لا رہے ہیں۔“ اسے ان معاملات سے کوئی غرض نہیں تھی۔”لیکن میں چاہتا ہوں کہ اس سے پہلے تم ایک بار قیام سے مل لیتے، میں تمھاری بھی رائے جاننا چاہتا ہوں۔“”میں اس سے مل کر کیا کروں گا ڈیڈی؟ شادی بختاور نے کرنی ہے مجھے نہیں؛ میرے خیال سے تو وہ دونوں اچھے دوست ہیں۔ اگر دونوں راضی ہیں تو کسی تیسرے کی رائے کوئی معنی نہیں رکھتی۔“ اس نے جان چھڑانے کے سے انداز میں کہا تھا۔”بختاور ہی تو نہیں مان رہی۔“ وہ بڑبڑائے تھے۔ اسے سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیا کَہ رہے تھے؟ تاہم کریدنا یا دوبارہ پوچھنا ضروری نہیں سمجھا تھا۔”بڑا بھائی ہونے کے ناطے تمھیں۔۔۔“”ڈیڈی پلیز! وہ بچی نہیں ہے۔ اپنے اچھے برے کا فیصلہ وہ خود کر سکتی ہے۔“ ان کی بات کاٹ کر جلدی سے کہا تھا تاکہ وہ سمجھ لیں کہ وہ اس معاملے میں ان کا ساتھ نہیں دینے والا۔”چلو خیر۔۔۔ تم نے اپنی دادو کی بات سنی تھی؟“ اب وہ اس کے متعلق گفت گو شروع کرتے ہوئے بولے تھے۔”وہ شادی والی؟“ اسے ذہن پر زیادہ زور نہیں دینا پڑا تھا۔ آج کھانے کی میز پر یہی بات تو موضوعِ سخن رہی تھی۔”شہرین سے ملے ہو تم؟“ وہ اس سوال پر چونک گیا تھا۔ گھبرا کر انھیں دیکھا تھا۔ چوری پکڑے جانے پر جیسا حال چور کا ہوتا تھا، ویسا ہی ہوا تھا۔ اب نہ ملنے کا جھوٹ بھی تو نہیں بول سکتا تھا کہ دادو نے ایک لمحے میں جھوٹ کا پول کھول دینا تھا۔ اس کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں ابھری تھیں۔”جی ملا ہوں ڈیڈی! لیکن بس سرسری سا۔“”ہوں!“ وہ کچھ سوچ کر چپ ہوئے اور کچھ توقف کے بعد بولے:”تمھارا ابھی لاہور جانا ضروری ہے کیا؟“”کیوں ڈیڈی؟“ وہ پھر جھنجھلایا مگر ضبط کر گیا تھا۔”میں چاہ رہا تھا کہ تم لاہور جانے سے پہلے چکوال جا کر شہرین سے مل لیتے۔“ ان کا اتنا ہی کہنا تھا کہ اس کی آنکھیں چمک اٹھی تھیں۔”میں تمھیں اس کی پھوپھو کے گھر کا پتا دے دوں گا تم خود جا کر اس سے مل لینا۔ پھر جو تمھاری مرضی ہو گی وہی ہو گا۔“ وہ اسے شہرین سے ملنے کا کَہ رہے تھے یہ سن کر اس کی تو جیسے دلی مراد بر آئی تھی۔”کل صبح ہی نکل جانا۔ اس وقت جاؤ گے تو دیر ہو جائے گی۔“ وہاں سے نکل کر انھوں نے بختاور کے کمرے کا رخ کیا تھا۔ انھیں اس سے بھی بات کرنی تھی۔ وہ ضدی و ہٹ دھرم تھی لیکن اس کے اس ضدی اور اپنی من مانی کرنے والے دل کے اندر ایک بہت حساس اور سمجھ دار دل تھا جس کا اندازہ انھیں شہرین اور اس کے درمیان ہوئی چند باتوں سے ہوا تھا۔”بختاور!“ دروازے پر دستک دی اور اس کا نام پکارا تھا۔ بیٹے کے کمرے میں وہ بنا دستک دیے چلے گئے تھے تاہم بیٹی کے کمرے میں یوں ہی چلے جانا انھوں نے مناسب نہ سمجھا تھا۔”جی ڈیڈی! اندر آئیں نا!“ وہ اٹھ کر دروازہ کھولتے ہوئے بولی تھی۔”کیا کر رہی تھیں؟“ اس کے بیڈ پر بکھری اس کی کتابیں دیکھ کر انھوں نے پوچھا تھا۔”اپنے کچھ نوٹس مکمل کر رہی تھی ڈیڈی!“ وہ کتابیں سمیٹتے ہوئے ان کے بیٹھنے کے لیے جگہ بنانے لگی تھی۔”نوٹس؟“ انھوں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا تھا۔”میں ضدی سہی ڈیڈی! مگر اتنی کم عقل نہیں ہوں کہ اپنے کسی عمل سے آپ کی عزت پہ حرف آنے دوں اور آپ اب اتنے بھی ظالم نہیں کہ مجھے اپنی ڈگری مکمل نہ کر لینے دیں۔“ وہ چپ سے ہوئے تھے۔”ڈیڈی! آپ خاموش کیوں ہیں ڈیڈی؟ میں ایسا کچھ۔۔۔“ وہ ان کی خاموشی سے خائف ہوئی تھی۔”بختاور! کیا ہم اس موضوع کو پھر کسی وقت کے لیے اٹھا رکھیں تو بہتر نہیں ہو گا؟ ہم اس پہ کل بھی بات کر سکتے ہیں نا!“ وہ ضبط کا دامن تھام کر، آنکھوں کی نمی چھپا کر سر ہلا گئی تھی۔”تم شہرین سے ملی تھی، کیسی لگی تمھیں؟“ انھوں نے اس کے اتنی جلدی مان جانے پر سکون کا سانس لیا تھا اور پوچھا تھا۔”ڈیڈی! دادو نے بتایا تھا کہ پھوپھو شہربانو جوانی میں ہی فوت ہو گئی تھیں۔ ان کی تو شادی بھی نہیں ہوئی تھی۔ پھر یہ شہرین۔۔۔“ اس نے وہی سوال دہرایا جو کل شہرین کی پھوپھو کے گھر کے باہر کھڑے ہوئے، اس کے ذہن میں آیا تھا جب ڈیڈی نے ان دونوں کا تعارف کروایا تھا۔”وہ۔۔ کچھ باتوں کا نہ جاننا ہی ٹھیک رہتا ہے۔“”اتنا سچ جاننا تو حق ہے ڈیڈی کہ جس سے کسی کی عزت پہ حرف نہ آئے۔ جس طرح آدھا ادھورا سچ نقصان دہ ہوتا ہے بالکل اسی طرح سچ کو مکمل چھپا لینا بھی نفع بخش نہیں ہوتا۔“ وہ اسے اچنبھے سے دیکھ کر رہ گئے تھے۔ ایک طرف وہ تھی جو ہر چیز کو باریکی سی دیکھتی اور محسوس کرتی تھی اور ایک طرف واصب تھا جسے کسی معاملے سے کوئی سروکار ہی نہیں تھا۔ وہ ان چند مہینوں میں کتنی بدل سی گئی تھی۔ اپنی اس سوچ کا اظہار انھوں نے اس سے بھی کر دیا تھا۔”محبت آپ کو بدل دیتی ہے ڈیڈی!“ اس نے بے ساختہ کہا تھا۔ پھر دونوں ہی اپنی اپنی جگہ خاموش ہوئے تھے۔محبت دے دل چوں پلیکھے نی جاندےمحبت دے مجبور ویکھے نی جاندےمحبت نے مجنوں نوں کاسہ پھڑایامحبت نے رانجھے نوں جوگی بنڑایامحبت دے لٹے تے ہو جانڑ دیوانےاے جس تن نوں لگدی اے او تن جانڑےمحبت دی دنیا دے دستور وکھرےمحبت دی نگری دے مجبور وکھرےمحبت دلاں دی کدورت مٹاوےمحبت ہی بندے نوں رب نال ملاوےمحبت نے یوسف نوں مصرے وکایامحبت زلیخا نوں وی آزمایامحبت دے وکھرے تانے تے بانڑےاے جس تن نوں لگدی اے او تن جانڑےمحبت ہی سسیاں نوں ریتاں تے ساڑےمحبت نے وسدے کئی گھر اجاڑےمحبت دی سوہنی چناب اچ روڑےمحبت دی لمئی دلاں دا نہ چھوڑےمحبت نے منصور سولی چڑھایامحبت نے صادق بلھا نچایامحبت دی اکھ دے نے وکھرے نشانےاے جس تن نوں لگدی اے او تن جانڑ(نامعلوم)٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے۔