عبدالمعید نے لہیم کو وہ سارے ویڈیو کلپس دکھائے تھے جہاں جہاں وہ سفید گاڑی دکھائی دی تھی۔ کبھی اس پارک میں، کبھی ریس کورس میں تو کبھی لہیم جاہ کی رہائش گاہ کے قریب۔”ایک بات تو صاف ہے کہ یہ تمھارے ہی پیچھے ہے۔ اس کا تابعہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔“ اس کی بات پر لہیم جاہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا تھا۔ جس نے آنکھ کے خفیف سے اشارے سے اسے سمجھایا کہ یہی سچ ہے۔”میری چیزوں کو نقصان پہنچا کر وہ مجھے اذیت دینا چاہتا ہے۔ آخر کیوں؟“ وہ ذہن پہ زور دیتا ہوا کنٹرول روم سے باہر نکلا تھا۔ عبدالمعید اس کے پیچھے ہی باہر آیا تھا۔ اس نے جان بوجھ کر، دانستہ راجعہ کرمانی کا ذکر ابھی نہیں چھیڑا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ خود اس شخص تک پہنچے۔”سر! مجھے ایک لیڈ ملی ہے۔“ فواد کی اونچی آواز ان کے کانوں تک آئی وہ تقریباً بھاگتے ہوئے واپس آئے تھے۔”ہمیں اس کارڈ پہ چھپے اس لوگو سے ایک شخص کے بارے میں پتا چلا ہے۔“ وہ کئی گھنٹوں سے کمپیوٹر پہ جھکا اس لوگو کے بارے میں تلاش کر رہا تھا۔ کچھ بٹن تیزی سے دبانے کے بعد اس نے کی بورڈ سے انٹر کا بٹن دبایا تھا۔ ایک سکرین سامنے آئی تھی۔”یہ زمان کریم ہے۔ کارڈ پر چھپا زی کے، اسی کے نام کے پہلے حروف ہیں۔“ اس نے بتایا۔”اور؟؟“ لہیم بے چینی سے مزید سننے کا خواہش مند تھا۔”اس سے زیادہ اس کے بارے میں کچھ پتا نہیں چل پا رہا۔ میں کب سے یہی دیکھ رہا تھا۔ مگر ابھی تک کچھ ہاتھ نہیں لگا۔“ فواد نے مایوسی سے کہا تو وہ بھی کچھ ہاتھ نہ لگنے جیسی باتیں سوچتے سیدھے ہوئے۔ عبدالمعید نے کچھ یاد آنے پر دوسرے کمپیوٹر پہ بیٹھے عادل سے ریس میں شامل سبھی لوگوں کی لسٹ نکالنے کا کہا تھا۔”عادل! ضربان کرمانی کے کاغذات چیک کرو اور یہ دیکھو کہ انھیں کس نے جمع کروایا تھا۔“ کچھ لمحوں تک کمرے میں کی بورڈ کے بٹنوں کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔ کچھ دیر بعد عادل نے جوش بھری آواز میں کہا تھا۔”سر! پیپر زمان کریم نے جمع کروائے تھے اور یہاں اس کا نمبر بھی درج ہے۔“ لہیم جاہ کو اپنی ٹوٹی ہمت پھر سے جڑتی نظر آئی تھی۔ آج پانچویں دن جا کر وہ کوئی سراغ ڈھونڈ لینے میں کامیاب ہوئے تھے۔ پچھلے چند دن پے در پے ہوئے حادثوں نے اس کے مضبوط اعصاب تک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔”اگر وہ نمبر ایکٹو ہے تو مجھے اس کی لوکیشن چاہیے۔“”سر! نمبر ایکٹو ہے اور ہمیں لوکیشن بھی مل چکی ہے۔ گاڑی لاہور موٹروے پہ ہے۔“ عبدالمعید نے سن کر کمرے میں موجود تیسرے شخص کو مخاطب کیا تھا۔”کاشف! تم باقی کی ٹیم کو بلاؤ، نکلنے کی تیاری کرو۔“ وہ کَہ کر خود بھی باہر جانے لگا تھا جب لہیم جاہ نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھتے اسے وہیں روک دیا تھا۔”مجھے تمھاری سرکار کی مدد نہیں چاہیے۔“