دونوں بائیکس ایک دوسرے کو کٹس مارتے پورے زور و شور سے آگے بڑھ رہی تھیں کہ اچانک کائد غزنوی کی بائیک کی رفتار دھیمی ہوتی ہوتی الٹ گئی اور وہ خود دوسری جانب بائیک سے اوندھے منہ ڈھہ گئے۔
ڈیڈ۔۔۔۔!!! الیکزینڈر اپنے باپ کو یوں سڑک کے بیچ و بیچ اس طرح پڑے دیکھ ہواس باختہ سا چلایا تھا۔ بائیک کو سائیڈ پر کھڑی کیے وہ بھاگتا ہوا کائد تک آیا ، جو ہوش و خرد سے بیگانہ الیکزینڈر کی جان سولی پر لٹکا گئے۔ جیب سے فون نکالتے اس نے بنا دیر کیے ایمبولینس کو کال ملائی۔
لمحوں میں منظر بدلہ تھا اس سنسان سڑک پر ہر طرف اب ایمبولینس کے سائیرن کی آوازیں گونجنے لگیں۔
❤️💐